’ریڈ پرنس‘: جب موساد نے خفیہ آپریشن میں یاسر عرفات کے ’منہ بولے بیٹے‘ اور ’بلیک ستمبر‘ کے منصوبہ ساز کو قتل کیا

علی حسن سلامہ عرف ریڈ پرنس

،تصویر کا ذریعہYOUTUBE GRAB

،تصویر کا کیپشن

علی حسن سلامہ عرف ’ریڈ پرنس‘

  • مصنف, جے دیپ وسنت
  • عہدہ, بی بی سی گجراتی سروس

اُن کے ذہن میں مسلسل ایک بات رہتی تھی اور وہ یہ تھی کہ فلسطین کے لیے کچھ کیا جائے۔ یہ احساس انھیں اپنے والد سے وراثت میں ملا تھا۔

انھیں میونخ میں 11 اسرائیلیوں کو یرغمال بنانے والے گروپ ’بلیک ستمبر آرگنائزیشن‘ کے خلاف ہونے والی ایک کارروائی میں اسرائیل نے نشانہ بنایا تھا۔ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ’موساد‘ نے انھیں مارنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ نکلے۔

وہ اپنے اثر و رسوخ کے باعث فلسطین میں یاسر عرفات کے بعد دوسرے نمبر پر تھے۔ انھیں عموماً عرفات کے ’گود لیے ہوئے بیٹے‘ جیسا قرار دیا جاتا تھا۔

وہ اپنی زندگی عیش و عشرت میں گزار رہے تھے۔ رات گئے تک پارٹی کرنا اور نائٹ لائف سے لطف اندوز ہونا اُن کا روز کا معمول تھا۔

نوجوان لڑکیاں اُن کی پرکشش شخصیت، لباس، برتاؤ اور بول چال کی وجہ سے فوراً ان کی طرف راغب ہو جاتی تھیں۔یہاں تک کہ لبنان سے تعلق رکھنے والی سابقہ ’مس یونیورس‘ جورجینا رزق بھی ان کے سحر سے نہ بچ سکیں اور اُن سے شادی کر لی۔

اِس جاذب نظر شخص کو ’ریڈ پرنس‘ (عربی میں الأمير الاحمر) بھی کہا جاتا تھا تاہم ان کا اصل نام علی حسن سلامہ تھا جبکہ وہ ’ابو حسن‘ کی عرفیت سے بھی جانے جاتے تھے۔

یاسر عرفات

،تصویر کا ذریعہHULTON ARCHIVE

فلسطین کا ’ریڈ پرنس‘

علی حسن سلامہ کے والد شیخ حسن سلامۃ نے دوسری عالمی جنگ کے دوران یہودیوں کو نشانہ بنایا تھا۔ وہ فلسطینی مسلح گروپ ’جیش الجہاد المقدس‘ کے کمانڈر تھے۔

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

شیخ حسن سلامۃ سنہ 1948 میں اسرائیل کے ساتھ جنگ کے دوران فوت ہو گئے۔ علی حسن اس وقت بہت چھوٹے تھے اور اپنے والد کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے۔

تاہم اپنے والد کی دولت کی وجہ سے علی حسن نے کچھ نہیں کھویا اور انھوں نے خود کو فلسطین اور جنگ سے دور رکھا۔

علی حسن کی بہن ندال نے ’الجزیرہ‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’میرے بھائی کو مختلف زبانیں سیکھنے اور انجینئرنگ میں دلچسپی تھی۔ انھوں نے سوئٹزرلینڈ میں زبانوں کی تعلیم حاصل کی اور پھر جرمنی چلے گئے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’پھر وہ قاہرہ واپس آ گئے۔ میری والدہ اُن سے خوش نہیں تھیں۔ اس وقت تک فلسطین کی تحریک شروع ہو چکی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ صلاح خلف اور ابو صلاح ہمارے گھر آئے تھے۔ وہ ہمارے گھر یہ پوچھنے آئے تھے کہ حسن سلامۃ کا بیٹا ابھی تک تحریک میں کیوں نہیں شامل ہوا؟‘

علی حسن پھر 1963 میں یاسر عرفات کی قیادت میں ’پی ایل او‘ میں شامل ہوئے اور سنہ 1964 میں کویت پہنچے۔

بعد میں کہا گیا کہ انھوں نے قاہرہ اور ماسکو میں فوجی تربیت حاصل کی۔ علی حسن ایک خوبصورت اور رعب دار شخصیت کے حامل تھے۔ وہ جلد ہی عرفات کے معتمد خاص بن گئے یہاں تک کہ انھیں ان کا ’گود لیا ہوا بیٹا‘ کہا جانے لگا۔

سنہ 1967 میں چھ روزہ عرب، اسرائیل جنگ میں عرب ممالک کو اسرائیل کے ہاتھوں عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ عرب ریاستوں کے دباؤ کی وجہ سے ’پی ایل او‘ کو پابندیاں قبول کرنا پڑی اور فلسطین کے کچھ علاقوں کو خالی کرنا پڑا۔

پی ایل او کے کچھ ارکان نے محسوس کیا کہ عرب اقوام نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ اس لیے انھوں نے بدلہ لینے کے لیے ’بلیک ستمبر‘ مہم کا منصوبہ بنایا۔ منصوبہ یہ تھا کہ اس معاہدے کی توثیق کرنے والے عالمی رہنماؤں اور فوجی افسران کو قتل کیا جائے۔

اسرائیل نے ابتدا میں ’بلیک ستمبر‘ کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیا لیکن جلد ہی چیزیں بدل گئیں اور بعد میں یہ تنظیم اسرائیل کی سب سے بڑی دشمن بن گئی۔

حسن سلامہ مغربی لباس پہنتے تھے، ٹوٹی پھوٹی انگریزی بولتے تھے اور سپورٹس کار چلاتے تھے۔

وہ لڑکیوں میں گھرے رہتے تھے، تمباکو نوشی اور موسیقی میں مگن رہتے اور انھیں فلسطین میں جاری تشدد کی پرواہ نہیں تھی۔ وہ فلسطینی نوجوانوں میں ’ریڈ پرنس‘ نامی پوسٹر بوائے بن گئے۔

ابو حسن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بلیک ستمبر سے ابتدا

5 ستمبر 1972 کو جرمنی کے شہر میونخ میں اولمپک گیمز شروع ہوئے۔ اسی دوران فلسطینی عسکریت پسند تنظیم ’بلیک ستمبر‘ سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد نے اولمپک ولیج پر حملہ کر کے 11 اسرائیلیوں کو یرغمال بنا لیا۔

ان کے بدلے انھوں نے اسرائیلی جیلوں میں قید سینکڑوں فلسطینیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ پہلے انھوں نے ایک کھلاڑی کو مارا۔ اور پھر مذاکرات کے دوران دباؤ بنانے کے لیے ایک اور کھلاڑی مارا گیا۔

بات چیت کے بعد یہ طے پایا کہ ہائی جیکر یرغمال کھلاڑیوں کے ساتھ قریبی فوجی اڈے پر جائیں گے اور وہاں سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے وہ جرمنی سے روانہ ہوں گے۔

لیکن دوسری جانب جرمن پولیس نے کھلاڑیوں کو بچانے کے لیے آپریشن شروع کر دیا تھا۔ لیکن یہ پولیس والے ناتجربہ کار تھے اور انکاؤنٹر میں تمام نو اسرائیلی کھلاڑی مارے گئے۔ ان کے ساتھ تین اغوا کاروں کے علاوہ پانچ دیگر افراد بھی مارے گئے۔

ہزاروں کلومیٹر دور اسرائیلی وزیر اعظم گولڈا میئر، ان کے سکیورٹی مشیر اور موساد نے اس واقعے کو بے بسی سے دیکھا۔ وہ کچھ نہ کر سکے کیونکہ یہ سارا معاملہ اسرائیل کے ایک دوست ملک میں ہو رہا تھا۔

اس کے بعد اسرائیل کے وزیر اعظم کی صدارت میں ’ایکس کمیٹی‘ کا اجلاس ہوا۔ اس نے میونخ ’قتل عام‘ کے مجرموں اور منصوبہ سازوں کو تلاش کرنے اور مارنے کا فیصلہ کیا۔

موساد کے کم از کم 20 ایجنٹوں کو اس کام کے لیے منتخب کیا گیا۔ اس مہم کو ’آپریشن ریتھ آف گاڈ‘ یعنی خدا کے قہر والے آپریشن کا نام دیا گیا۔ موساد کے ایجنٹ اس کارروائی کو انجام دینے کے لیے یورپ اور مشرق وسطیٰ پہنچے۔

میونخ میں اسرائیلی کھلاڑیوں کے قتل کے چھ ہفتوں کے اندر پہلی مہم روم میں ہوئی جب حملے میں ملوث مشتبہ افراد میں سے ایک مارا گیا جبکہ اس مشن کے آخری شکار علی حسن سلامہ عرف ابو حسن عرف ’ریڈ پرنس‘ رہے۔

مس یونیورس جورجینا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

مس یونیورس جورجینا

’مس یونیورس‘ جورجینا

اخبار ’دی ٹیلی گراف‘ (22 اپریل 1972) کے مطابق جورجینا کے والد لبنانی تھے جب کہ ان کی والدہ ہنگری کی تھیں۔ جورجینا نے صرف 14 سال کی عمر میں ماڈلنگ کی دنیا میں قدم رکھا تھا۔

مس یونیورس بننے کے بعد انگریزی، عربی، فرانسیسی اور اطالوی بولنے والی جورجینا کو فلموں میں کام کرنے کی پیشکشیں ہوئیں۔ لیکن انھوں نے انھیں مسترد کر دیا۔ امریکہ کے فلوریڈا میں مس یونیورس بننے کے بعد انھوں نے 38 ممالک کا دورہ کیا۔

پانچ فٹ آٹھ انچ کی قامت والی جورجینا نے مس یونیورس کا ٹائٹل جیتنے کے لیے 60 سے زائد دیگر خوبصورت دوشیزاؤں کو شکست دی تھی۔ وہ مس یونیورس کا ٹائٹل جیتنے والی پہلی لبنانی لڑکی تھیں۔ اس وقت انھیں دس ہزار ڈالر کا نقد انعام اور پانچ ہزار ڈالر کا ایک گاؤن ملا تھا۔

سنہ 1975 میں ان کی شادی ایک لبنانی شخص سے ہوئی مگر یہ زیادہ عرصہ چل نہیں سکی۔ وہ کسی بھی مرد کو اپنی طرف متوجہ کر سکتی تھیں لیکن انھیں ’ریڈ پرنس‘ سے پیار ہو گیا۔

یہ بھی پڑھیے

آپریشن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

موت علی حسن سے بھاگتی رہی

میونخ میں اسرائیلی ایتھلیٹس کے قتل کے بعد موساد نے تنہا ہی سب کو مارنے کا کام کیا۔

کچھ معاملوں میں اسرائیلی فوجیوں نے ان کی مدد کی۔ ایسی ہی ایک مہم ’سپرنگ آف یوتھ‘ جو مرکزی مہم ’ریتھ آف گاڈ ‘کا حصہ تھی۔

اپریل 1973 میں لبنان کے دارالحکومت بیروت میں اس آپریشن میں اسرائیلی سپیشل فورسز کی مدد لی گئی۔

ایجنٹ اسرائیلی بحریہ کی کشتیوں کے ذریعے بیروت کے قریب ایک ویران ساحل پر اترے۔ ایجنٹوں کی اس ٹیم کی سربراہی ایہود براک کر رہے تھے جو بعد میں اسرائیل کے وزیر اعظم بنے۔

براک نے ایک بار کہا تھا: ’اتنے سارے نوجوانوں کا ایک ساتھ دیکھا جانا مشکوک ہو گا، اس لیے ہم میں سے کچھ نے نوجوان خواتین کا بھیس بنایا اور اپنے کپڑوں کے نیچے ہتھیار اور دھماکہ خیز مواد چھپانے کا فیصلہ کیا۔‘

فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے تین اہم رہنما محمد یوسف، کمال ناصر اور کمال عدوان ایک ہی عمارت میں مختلف منزلوں پر رہتے تھے اور اس مہم کے دوران وہ اسرائیلی کمانڈوز کے ہاتھوں مارے گئے۔

پھر بلیک ستمبر اور پی ایل او ہیڈ کوارٹر کے نام سے مشہور اس عمارت کو دھماکے سے اڑا دیا گیا۔

اس کے علاوہ کچھ دیگر مقامات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اس جگہ سے پیدل فاصلے پر ایک اپارٹمنٹ تھا، جہاں علی حسن رہائش پزیر تھے لیکن وہ موت کو چکمہ دے کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

اگرچہ علی حسن یا ان کی تنظیم نے میونخ میں اسرائیلی کھلاڑیوں کی ہلاکت میں اپنے کردار کا کھلے عام اعتراف نہیں کیا لیکن اسرائیل نے عرفات اور علی حسن کو ’بلیک ستمبر‘ کا ذمہ دار ٹھہرایا تاہم اس کا برملا اظہار کرنے سے گریز کیا۔

محمد یوسف کے قتل کے بعد علی حسن نے اقتدار سنبھالا۔

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

اسرئیلی کھلاڑیوں کی موت پر سوگ

موساد کے ہاتھوں ایک بے گناہ کا قتل

1972 میں موساد کے جاسوسوں کو معلوم ہوا کہ علی حسن ناروے کے لِلے ہیمر سکی ریزورٹ پہنچے ہیں۔

علی کو بھیس بدلنے کے ماہر کے طور پر جانا جاتا تھا۔ وہ انگریزی، فرانسیسی، جرمن اور عربی زبانیں بھی بول سکتے تھے۔

جب 15 رکنی اسرائیلی ایجنٹس کی ٹیم للے ہیمر پہنچی تو ان کا ہدف ابو حسن تھے۔ موساد کی ٹیم نے ویٹر کے طور پر کام کرنے والے ایک شخص کی اپنے ہدف کے طور پر نشاندہی کی۔

وہ شخص اپنی بیوی کے ساتھ وہاں رہتا تھا اور وہ فرانسیسی بول سکتا تھا۔ دیگر چیزوں کی تصدیق کے بعد، ٹیم نے محسوس کیا کہ انھیں ’ٹارگٹ‘ مل گیا ہے۔

جولائی 1973 کی ایک شام ’ٹارگٹ‘ اپنی حاملہ بیوی کے ساتھ ایک فلم دیکھ کر واپس آ رہا تھا جب اس پر موساد کے دستے نے گھات لگا کر حملہ کیا اور یکے بعد دیگرے 14 گولیاں داغ دیں۔ مرنے والا مراکش کا رہائشی احمد بوشیکی تھا۔ وہاں کی پولیس نے کار کا سراغ لگایا اور پڑوسیوں سے ملنے والی اطلاع کی بنیاد پر موساد کے دو ایجنٹوں کو گرفتار کر لیا۔

موساد کے مزید چار ایجنٹوں کو بعد میں گرفتار کیا گیا۔ لیکن بدقسمتی کی بات یہ تھی کہ موساد کے ہاتھوں قتل ہونے والا شخص احمد بوشیکی ایک معصوم مراکشی ویٹر تھا۔ اس کی شادی ناروے کی ایک لڑکی سے ہوئی تھی اور وہ حاملہ تھی۔

اب موساد کے جاسوس یکے بعد دیگرے پکڑے جا رہے تھے۔ موساد کے ایجنٹوں کے اصل نام، عرفی نام، فون نمبر، سیف ہاؤس کے پتے نہ صرف ناروے بلکہ پورے یورپ میں ایجنٹوں کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر سامنے آنے لگے۔ سفارتخانے کے اہلکاروں کے ملوث ہونے کا انکشاف بھی ہوا۔

کینیڈا اور برطانیہ نے بھی اسرائیل کو اپنے پاسپورٹ کے غلط استعمال پر سرزنش کی۔

گولڈا ميئر نے پھر میونخ سے متعلق کارروائیوں کو روکنے کا حکم دیا۔ اس دوران موساد نے علی حسن کا تعاقب جاری رکھا۔ دوسری جانب علی حسن سے شروع ہونے والے اسرائیل اور اسرائیلیوں پر حملے جاری رہے۔

آخر کار نئے وزیراعظم مناخم بگين نے علی حسن کو ختم کرنے کے منصوبے کی منظوری دے دی۔

دھماکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اسرائیل، علی حسن اور امریکہ

سائمن ریوی کی کتاب ’ون ڈے اِن ستمبر‘ کے صفحات 188-210 میں علی حسن کی سی آئی اے کے ساتھ قربت کی تفصیلات بتائی گئی ہے۔

اسی دوران بیروت میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔ مغربی حصہ مسلمانوں کے قبضے میں تھا جب کہ مشرقی حصہ عیسائیوں کے قبضے میں تھا۔ امریکی سفارت خانہ مغربی بیروت میں تھا۔

اس وقت ابو حسن نے امریکہ کے قریب آنے کی کوشش کی۔ انھوں نے یہ پیشکش کی کہ بیروت میں امریکی سفارت خانے پر حملہ نہیں کیا جائے گا اور اس کے بدلے ان کی سکیورٹی یونٹ ’فورس 17‘ سفارت خانے کے اردگرد کے علاقے کی حفاظت کرے گی۔

ابو حسن سلامہ نے بیروت میں پھنسے بہت سے امریکیوں کو نکالنے میں مدد کی۔ قافلے پر حملہ کرنے والی تنظیموں کو الفتح کے غضب کی دھمکی بھی دی گئی۔

اس کے علاوہ سلامہ نے سی آئی اے کو مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات پر حملوں سے آگاہ کیا تھا۔ چنانچہ وہ سی آئی اے کے معتمد بن گئے۔ سلامۃ نے ان معلومات کے لیے کبھی پیسے نہیں لیے۔

بیروت میں سی آئی اے کے سربراہ رابرٹ ایمز سلامۃ کے ساتھ براہ راست رابطے میں تھے۔ اس معاملے میں امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ اپنے اعتماد کو توڑا تھا۔ اسرائیل اور امریکہ کے درمیان اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ امریکہ پی ایل او یا کسی دوسری فلسطینی تنظیم سے مذاکرات یا رابطہ نہیں کرے گا۔

لیکن ریگن انتظامیہ میں قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر نے اس معاملے پر عرفات کا شکریہ ادا کیا۔

رابرٹ ایمز اور سلامۃ کی کوششوں کی بدولت رونالڈ ریگن کی انتظامیہ کے دور میں مسئلہ فلسطین کو اہمیت حاصل ہوئی اور یاسر عرفات کو اقوام متحدہ سے خطاب کرنے کا موقع ملا۔ اس وقت سلامۃ حفاظتی انتظامات کو سنبھالنے کے لیے ان کے ساتھ تھے۔

بعد ازاں جب عرفات نے روس کا سفر کیا اور عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں تب بھی سلامہ ان کے ساتھ تھے۔

’فورس 17‘ کو پی ایل او کے سرکردہ رہنماؤں کو سکیورٹی فراہم کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔ وہ اس کے سربراہ تھے۔ علی حسن نے کچھ یہودیوں سے بھی رابطہ کیا اور یہ اسرائیل کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔

علی حسن ایک مغربی صحافی اور سی آئی اے کے سٹیشن چیف رابرٹ سے براہ راست رابطے میں تھے۔ انھوں نے ان کے ذریعے مغرب میں مسئلہ فلسطین کے لیے ہمدردی اور مثبت کوریج حاصل کرنے کی کوشش کی۔

یہ بھی پڑھیے

میونخ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

میونخ اولمپکس میں حادثے کے بعد پولیس کی تربیت

اس طرح ان کا انجام سامنے آيا

اسرائیلی مورخ مائیکل بار زوہر اپنی کتاب ’موساد‘ (صفحہ 188-213) میں لکھتے ہیں کہ 1975 میں بیروت کے ایک امیر گھرانے نے جورجینا کے لیے ایک پارٹی کا اہتمام کیا۔ نئی مس یونیورس منتخب ہونے کے بعد وہ لبنان چلی گئیں اور ایک سپر ماڈل کے طور پر اپنے کریئر کا آغاز کیا۔ ان کے کئی بوتیک بھی تھے۔

اس پارٹی میں ان کی ملاقات حیرت انگیز شخصیت کے حامل ایک خوبصورت نوجوان سے ہوئی۔ دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔ آخر کار جولائی سنہ 1977 میں ان کی شادی ہو گئی۔

علی حسن کی شادی پہلے ام حسن سے ہوئی تھی۔ ان کے دو بیٹے حسن اور اسامہ تھے۔ علی اور جورجینا اب ایک ساتھ رہ رہے تھے۔

علی حسن اور جورجینا میامی میں ہنی مون پر گئے تھے۔ اس وقت ان کے تمام اخراجات سی آئی اے برداشت کرتی تھی۔

یاسر عرفات کے بعد پی ایل او میں یہ چرچا تھا کہ علی حسن ہی پی ایل او میں ان کے جانشین ہوں گے۔

1973-79 کے درمیان علی حسن نے لبنان میں ایک غیر معمولی زندگی گزاری۔ بیروت کی رات کی زندگی کا لطف اٹھایا۔

لیکن اب ان کی زندگی کسی کلرک جیسی ہو چکی تھی۔ وہ ہر روز ایک جیسی روٹین پر عمل کرتے تھے۔ وہ صبح دس بجے گھر سے نکلتے، بیروت میں پی ایل او کے آفس جاتے، دوپہر کو جورجینا کے پاس جاتے، اور پھر واپس پی ایل او آفس چلے جاتے۔ یہاں بیٹھ کر انھوں نے طرح طرح کے منصوبے بنائے۔

جورجینا بھی اب سادہ زندگی گزار رہی تھیں۔ علی حسن نے انھیں اپنی پراسرار سرگرمیوں سے دور رکھا ہوا تھا۔ جو لوگ علی سلامہ کی طرح کام کرتے ہیں وہ عام طور پر ایک جگہ پر زیادہ دیر تک نہیں رہتے، پتے بدلتے رہتے ہیں۔ ہر روز ایک ہی جگہ سے نہیں گزرتے ہیں۔

لیکن ان کی روٹین نے اسرائیلی جاسوسوں کی توجہ مبذول کرائی اور انھیں آسان شکار بنا دیا۔

پی ایل او کے عہدیداروں، لبنانی خیر خواہوں، اہل خانہ اور امریکیوں نے علی حسن کو اس بارے میں خبردار کیا لیکن انھیں نے تمام طرح کی تنبیہ کو نظر انداز کر دیا۔

موساد نے سلامہ کے قافلے پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ لیکن سلامہ کے ساتھ ان کی فورس 17 کے محافظ بھی ہوا کرتے تھے۔

جورجیا رزق اس وقت حاملہ تھیں جب ان کے شوہر کا قتل ہوا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

جورجیا رزق اس وقت حاملہ تھیں جب ان کے شوہر کا قتل ہوا

موساد کی حکمت عملی میں تبدیلی

موساد نے اس بار اپنی چال بدل دی۔ اسی دوران ایریکا میری چیمبرز نامی ایک برطانوی خاتون بیروت پہنچی۔ ان کا تعلق لبنان میں فلسطینیوں کے مفادات کے لیے کام کرنے والی تنظیم سے تھا۔ انھیں دانستہ طور پر بیروت بلایا گیا۔

یہاں وہ علی حسن کے قریب ہو گئیں۔ وہ علی حسن کے روزمرہ کے معمولات کے ریکارڈز رکھنے لگیں۔ انھوں نے علی حسن کے اپارٹمنٹ کے قریب آٹھویں منزل پر ایک فلیٹ کرائے پر لیا تھا۔

اس یقین کے ساتھ کہ علی حسن ابھی بھی بیروت میں ہیں موساد ٹیم کے دیگر ارکان بھی کینیڈین اور برطانوی پاسپورٹ کے ذریعے بیروت میں داخل ہوئے۔ انھوں نے مختلف ہوٹلوں اور کرائے کی کاروں میں چیک ان کیا۔

ایک اندھیری رات میں اسرائیلی بحریہ کی ایک کشتی بیروت کے قریب ایک ویران ساحل پر اتری اور انھوں نے اس کشتی سے ایک بڑا سامان اتارا۔

ایجنٹ جو پہلے ہی بیروت پہنچ چکے تھے وہ کرائے کی کاریں لے کر ان سامان کو لینے آئے۔ سامان میں دھماکہ خیز مواد تھا، جو کرائے کی کاروں میں لادا گیا تھا۔

ٹیم لیڈر نے کار میں دھماکہ خیز مواد نصب کیا۔ یہ کاریں اس لین میں کھڑی کی گئيں جہاں سے علی حسن کا قافلہ روزانہ گزرتا تھا۔

ایریکا اپنے فلیٹ سے گاڑی دیکھ سکتی تھی۔ علی حسن کے شیورلیٹ کے تیز رفتاری کے ساتھ ہی ایریکا نے ریڈیو پر ٹرگر دبا دیا۔ زور دار دھماکہ ہوا اور علی حسن کی گاڑی کے پرخچے اڑ گئے۔ آس پاس کے گھروں کی کھڑکیوں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے۔

دھماکے کی آواز سنتے ہی پی ایل او کے سپاہی ہتھیاروں کے ساتھ دوڑ پڑے اور علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ علی حسن کا باڈی گارڈ مر چکا تھا، لیکن وہ ابھی تک سانس لے رہے تھے۔ انھیں بیروت کے ایک ہسپتال لے جایا گیا جہاں انھوں نے آخری سانس لی۔

دو دن بعد جب علی حسن کو بیروت کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا تو یاسر عرفات بھی وہاں موجود تھے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اُن کے جنازے میں جمع تھے۔

دھماکے کی رات، ایریکا اور ان کے ایک دوست اسی سنسان ساحل پر اسرائیلی بحریہ کی کشتی پر سوار ہوئے۔

ایریکا کو اس کے بعد کبھی دیکھا یا سنا نہیں گیا۔

بار زوہر کی کتاب کے مطابق اس کا اصل نام ایریکا چیمبرز تھا اور اسے موساد نے اسرائیل کی عبرانی یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران موساد میں بھرتی کیا تھا۔

جورجیا رزق اپنے بیٹے علی حسن سلامہ کے ساتھ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

جورجیا رزق اپنے بیٹے کے ساتھ

علی حسن سلامۃ 2.0

1972 سے 1979 کے درمیان یورپ اور عرب ممالک میں ایک درجن سے زائد فلسطینیوں کو ’ریتھ آف گاڈ‘ مہم کے تحت قتل کیا گیا۔ ان افراد پر میونخ قتل عام میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔

ناقدین کے مطابق یہ کام انجام دینے والے کچھ ’عام کارکنان‘ تھے لیکن ان کے کارنامے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گيا۔ اور اس کے ذریعے یہ ظاہر کیا گيا کہ اسرائیل کسی بھی وقت کہیں بھی پہنچ سکتا ہے اور کسی کو بھی مار سکتا ہے۔

اسرائیل نے مراکش کے ایک معصوم ویٹر احمد بوشیکی کے خاندان کو اس کی موت کے لیے تقریباً چار لاکھ ڈالر ادا کیے ہیں۔ لیکن معافی نہیں مانگی۔

جورجینا رزق علی حسن کی دوسری بیوی تھیں۔ جنوری 1979 میں جب علی حسن کا قتل ہوا تو وہ چھ ماہ کی حاملہ تھیں۔

علی حسن کی موت کے بعد انھوں نے گلوکار اور اداکار ولید توفیق سے تیسری شادی کی۔ لیکن انھوں نے اپنے مردہ شوہر کے بیٹے کو جنم دیا اور مشرق وسطیٰ اور یورپی ممالک میں اس بچے کی پرورش کی۔

سنہ 1996 میں اسرائیلی صحافی ڈینیئل بین سائمن نے اپنے دوستوں کو بیت المقدس میں ایک پارٹی میں مدعو کیا۔ وہاں صحافی ڈینیئل کی ملاقات ایک دراز قد فلسطینی نوجوان سے ہوئی۔ وہ روانی سے انگریزی بول رہا تھا۔

اس نے ڈینیئل کو اپنا نام ’علی حسن سلامہ‘ بتایا۔

ڈینیئل یہ نام سن کر چونک گئے۔ انھوں نے کہا کہ یہ نام میونخ میں اسرائیلی کھلاڑیوں کے قتل میں ملوث ماسٹر مائنڈ کا ہے۔

نوجوان نے جواب دیا کہ وہ میرے والد تھے جنھیں موساد نے قتل کیا تھا۔

یاسر عرفات کے مہمان کے طور پر بیت المقدس پہنچنے والے علی حسن سلامہ نے اسرائیلی عوام کی مہمان نوازی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’میں ایک پرامن آدمی ہوں، میرے والد کے دور میں جنگ ہوئی تھی اور اس کی قیمت انھوں نے اپنی جان سے ادا کی تھی۔ میں امید کرتا ہوں کہ اگر فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان امن قائم ہو جاتا ہے تو یہ دونوں کی زندگیوں میں سب سے بڑی چیز ہو گی۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ