حماس کا مقابلہ کر کے اپنے علاقے کو بچانے والے سابق فوجی جو اسرائیل کے غزہ پر زمینی حملے کے خلاف ہیں
،تصویر کا ذریعہNIR AM
- مصنف, ڈین جونسز
- عہدہ, بی بی سی نیوز، تل ابیب
سات اکتوبر کی صبح حماس کے عسکریت پسندوں نے اسرائیل میں داخل ہونے کے بعد جب حملہ کیا تو اس کی زد میں آنے والی پہلی اسرائیلی بستیوں میں سے ایک ’نیرام کیبوتز‘ (زراعت سے وابستہ کمیونٹی) تھی تاہم یہاں کے مقامیوں میں سے ایک سابق فوجی آدم نے نہ صرف حماس کے حملے کا بہادری سے مقابلہ کیا بلکہ کمیونٹی کے افراد کو بچایا بلکہ حملہ آوروں کو واپس بھاگنے پر مجبور کیا۔
آدم کے مطابق ہفتے کی شام ساڑھے چھ بجے جب وہ اپنے بستر پر ہی موجود تھے تو انھوں نے فائرنگ کی آوازیں سنیں جن سے بستر بھی گویا ہل کے رہ گیا۔
’میں نے اپنے ساتھ پستول، کپڑے، بلٹ پروف جیکٹ لے لی اور اس کے علاوہ جو میں نے ساتھ رکھا وہ میری سگریٹ کی ڈبی تھی۔‘
آدم کے مطابق ’ہم نے باڑ پر آنے والے ہر شخص کو مارنا شروع کر دیا۔‘
غزہ سے دو کلو میٹر کی دوری پر واقع نیر ام میں 400 افراد پر مشتمل کمیونٹی نے آدم کو نہ صرف اپنا نجات دہندہ قرار دیا بلکہ ان کی بہادری کے باعث انھیں ہیرو کا لقب بھی دیا گیا ہے۔
میں نے اپنے واکی ٹاکی پر بارہا ایک ہی وارننگ کا اعلان کیا کہ ’نیر ام میں کوئی بھی داخل نہیں ہو گا، یہاں کوئی داخل نہیں ہو گا۔‘
’تین سے پانچ گھنٹے لڑتے رہے پھر مکمل خاموشی چھا گئی‘
46 سالہ آدم اسرائیل کی خفیہ فورس کے سابق اہلکار ہیں اس لیے ان کا مکمل نام یا ان کی تصویر تو یہاں شائع نہیں کی جا سکتی تاہم جان لیں کہ ان کا سر منڈا ہوا ہے اور وہ بہت ممتاز شحصیت کے حامل تو نہیں لیکن اتنا اندازہ ہو جاتا ہے کہ کوئی ان کے ساتھ گڑبڑکرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔
یہ بات واضح ہے کہ وہ سب کچھ خود سنبھالنے کی مکمل اہلیت رکھتے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے کمیونٹی کے دوسرے افراد بھی شامل ہو گئے۔
آدم کے مطابق وہ عام مقامی افراد جو لڑنا نہیں جانتے تھے، ان کے دل میں بھی اس وقت سب کرنے کا جنون موجود تھا۔
’ان میں سے دو یا تین سپیشل فورسز کا تجربہ رکھتے تھے تاہم باقی۔۔۔ عام سے انسان، جو آئی ٹی کے شعبے میں کام کرتے ہیں لیکن دراصل بہت ہی خاص بن گئے۔‘
آدم نے بتایا کہ سب مل کر تین سے پانچ گھنٹے تک لڑتے رہے لیکن درست وقت کا اندازہ ان کو نہیں۔ تاہم پھر مکمل خاموشی چھا گئی۔
’مشین گنوں اور دستی بموں کے ساتھ آٹھ سے 10 دہشت گرد سامنے آئے‘
آدم کے مطابق اس خاموشی سے ان کو محسوس ہوا جیسے اب سب ٹھیک ہو گیا ہے تاہم پھر دھماکوں کی دوسری لہر شروع ہوئی۔
’مشین گنوں اور راکٹ سے چلائے جانے والے دستی بم کے ساتھ آٹھ سے 10 دہشت گرد سامنے آئے۔۔۔ وہ سب ہمارے قریب تھے، 10 سے 15 میٹر کے فاصلے پر۔ میں ان کی طرف دوڑا اور ان کے سر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔‘
آدم کے مطابق اس وقت وہ اپنے اندر صرف جنگ کی آگ محسوس کر رہے تھے۔
’میرا دماغ صحیح سلامت ہے۔ میں ایک جنگجو ہوں، اور میں لڑائی کے لیے بنایا گیا ہوں۔‘
ان کے سامنے بالکل واضح تھا کہ اس کے آگے کیا خطرہ موجود ہے۔
نیر ام کے لوگوں کو ذبح کر دیا جاتا بالکل اسی طرح جیسے وہ کسی علاقہ غیر میں ہوں۔ کھیتوں میں کام کرنے والی كيبوتز کمیونٹیز مجموعی طور پر منظم رہتی ہیں۔
’وہ گھروں کی طرف بھاگتے اور وہاں موجود خواتین اور بچوں کو مار ڈالتے بس اسی سوچ نے ہمیں ہارنے نہیں دیا۔ ہم لڑتے رہے، انھیں مارتے رہے، ہم نے کسی کو کیبوتز میں نہیں آنے دیا۔ کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔‘
نیر ام کے رہائشی اس وقت تل ابیب کے ایک ہوٹل میں رہ رہے ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ وہ کب واپس آ سکیں گے۔ آدم کو ڈر ہے کہ ان میں بہت سوں کے دل میں خوف بیٹھ جائے گا۔
آدم نے تمام لوگوں کی مہمان نوازی کا شکریہ بھی ادا کیا۔
’ہم تمام لوگ اس بھرپور مہمان نوازی کے لیے شکر گزار ہیں۔ یہ ایک اور گھر کی طرح ہے۔ تمام اسرائیل نے ہمیں کپڑے اور کھانا بھیجا ہے۔‘
تاہم یہاں بھی انخلا کرنے والے مکمل طور پر محفوظ نہیں ہیں۔
آدم کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے دوران ہی ایک اور راکٹ حملے کی وارننگ کے لیے سائرن کی گونج سنائی دی۔ آدم نے پرسکون رہتے ہوئے پناہ گاہ کی طرف ہماری رہنمائی کی جہاں ان کے خاندان کے کچھ افراد جمع تھے ان میں سے کئی بچے رو رہے تھے۔
آدم اس صورتحال کو معمول کی بات کہتے ہیں کہ ’یہ ہمارے لیے کچھ نیا نہیں۔ ہم جنوب میں رہتے ہیں اور یہ ہمارے لیے ایک باقاعدگی سے ہونے والی چیز ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہAFP
غزہ سے دو کلو میٹر کی دوری پر واقع نیر ام میں 400 افراد پر مشتمل کمیونٹی آباد ہے
’غزہ کے ذیادہ تر لوگ بہت اچھے ہیں لیکن حماس کے لیے بھرپور کارروائی کی ضرورت ہے‘
آدم نے حملے کی پیشگوئی اور تیاری میں سکیورٹی سروسز کی ناکامی پر اسرائیلی حکومت پر تنقید بھی کی۔
وہ کہتے ہیں ’یہ ہماری قیادت ہے۔ اب ان کا امتحان ہے۔ بدقسمتی سے ہماری قیادت ہمارے لائق نہیں ہے۔‘
اسرائیل پر حماس کے غیر معمولی حملے میں تقریباً 1,300 افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس دوران کم از کم 150 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا۔ اسرائیل نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے غزہ پر فضائی حملے کیے ہیں جن میں اب تک 2300 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
اسرائیل نے غزہ میں ایندھن اور خوراک کے داخلے کو روکنے کے لیے سرحد کو بھی بند کر دیا ہے تاہم لوگوں کے ذہنوں میں سوال یہ بھی ہے کہ اب مستقبل کا کیا ہو گا؟
آدم غزہ کے زیادہ تر لوگوں کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں۔
’غزہ کے ذیادہ تر لوگ بہت اچھے ہیں جو معمول کی زندگی چاہتے ہیں لیکن حماس سے نمٹنے کے لیے بھرپور فوجی کارروائی کی ضرورت ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم اس سے نمٹنے کے لیے ایک ہی واحد حل کے ساتھ نہیں چل سکتے بلکہ ہمیں بہت زیادہ مضبوط اقدامات کی ضرورت ہے۔‘
لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیلی فوجیوں کو غزہ میں داخل ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے۔
’وہ (حماس) چاہتے ہیں کہ ہم ایسا کریں کیونکہ ان کے لیے وہاں جال موجود ہے اور یہ قدم غلط ہو گا۔‘
آدم اور ان کی سویلین فورس نے کیبوتز کو محفوظ رکھا۔
اس حملے میں نیر ام کا صرف ایک نوجوان رہائشی مارا گیا ہے جو حملے کے وقت موسیقی کے ایک میلے میں تھا۔
Comments are closed.