ہفتہ 6؍ذیقعد 1444ھ27؍مئی 2023ء

جوڈیشل کمیشن کی کارروائی روک دی گئی

مبینہ آڈیو لیکس پر تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن کی کارروائی روک دی گئی۔

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی کمیشن نے سماعت کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم کمیشن کی مزید کارروائی نہیں کر رہے، آج کی کارروائی کا حکمنامہ جاری کریں گے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان نے گزشتہ روز کا عدالتی حکم کمیشن کے سامنے پیش ہو کر پڑھ کر سنایا۔

 جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے قواعد کے مطابق فریقوں کو سن کر فیصلہ کیا جاتا ہے، کمیشن کو حکم نامے کی کاپی فراہم کی جائے، سپریم کورٹ نے انکوائری کمیشن کے حوالے سے کوئی حکم جاری کیا ہے؟ 

انہوں نے کہا کہ تھوڑا بہت آئین میں بھی جاننا چاہتا ہوں، کمیشن کو سماعت سے قبل نوٹس ہی نہیں کیا گیا تھا تو کام سے کیسے روک دیا، کمیشن معاملے میں فریق تھا، اسے نوٹس کیوں نہیں کیا گیا۔

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آپ کیوں کل کمرۂ عدالت میں تھے؟ آپ کو نوٹس کیا گیا تھا یا ویسے ہی بیٹھے تھے۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مجھے زبانی بتایا گیا تھا کہ آپ عدالت میں پیش ہوں، سماعت کے بعد مجھے نوٹس جاری کیا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک جج کے خلاف الزام پر سیدھا ریفرنس جائے تو وہ پوری زندگی بھگتتا رہے گا، شعیب شاہین ایک وکیل ہیں، ہر وقت وہ ٹی وی پر تقریر کر رہے ہوتے ہیں، رولز کے مطابق وکیل اپنے مقدمے سے متعلق میڈیا پر بات نہیں کر سکتا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عبدالقیوم صدیقی کو روسٹرم پر بلا لیا اور سوال کیا کہ آپ کا کیا نام ہے؟

عبدالقیوم صدیقی نے جواب دیا کہ میرا نام عبدالقیوم ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہو سکتا ہے انہیں کمیشن کی کارروائی پر کوئی اعتراض نہ ہو، ان کے دوسرے فریق نے ہمیں درخواست بھیجی، ان کے دوسرے فریق نے کہا کہ وہ میڈیکل چیک اپ کے لیے لاہور میں ہیں، انہوں نے کہا جب لاہور آئیں تو ان کا بیان بھی لے لیں، عابد زبیری اور شعیب شاہین نے آج آنے کی زحمت بھی نہیں کی، کیا انہیں آ کر بتانا نہیں تھا کہ کل کیا آرڈر ہوا۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ حیران ہوں آپ نے کل ان نکات کو رد نہیں کیا، شعیب شاہین نے میڈیا پر تقریریں کر دیں، یہاں آنے کی زحمت نہ کی، پرائیویسی ہمیشہ گھر کی ہوتی ہے، کسی کے گھر میں جھانکا نہیں جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ باہر سڑکوں پر جو سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں کیا یہ بھی پرائیویسی کے خلاف ہیں؟ آپ نے کل عدالت کو بتایا کیوں نہیں ان کے اعتراضات والے نکات کی ہم پہلے ہی وضاحت کر چکے ہیں۔

 جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو جج کا حلف پڑھنے کی ہدایت کی۔

کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ حلف میں لکھا ہے فرائض آئین و قانون کے تحت ادا کروں گا، یہ انکوائری کمیشن ایک قانون کے تحت بنا ہے، کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت یہ کمیشن بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم صرف اللّٰہ کے غلام ہیں اور کسی کے نہیں، شعیب شاہین روزانہ ٹی وی پر بیٹھ کر وکلاء پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ہمیں قانون سکھانے آ گئے ہیں، کوئی بات نہیں، سکھائیں ہم تو روزانہ قانون سیکھتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں زندگی میں بعض ایسے کام کرنے پڑتے ہیں جو ہمیں پسند نہیں ہوتے، ہمیں پٹیشنرز بتا رہے ہیں کہ حکم امتناع ہے آپ سن نہیں سکتے، وکلاء کوڈ آف کنڈکٹ کو کھڑکی سے اٹھا کر باہر پھینک دیا گیا ہے، ہم بعض کام خوشی سے ادا نہیں کرتے لیکن حلف کے تحت ان ٹاسکس کو ادا کرنے کے پابند ہوتے ہیں، ہمیں اس اضافی کام کا کچھ نہیں ملتا، ہمیں کیا پڑی تھی سب کرنے کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سانحہ کوئٹہ کا ذکر کرتے ہوئے جذباتی ہو گئے اور کہا کہ ہمیں اس طرح کی دردناک تحقیقات کرنی پڑتی ہیں، اب ہمیں ٹاک شوز میں کہا جائے گا آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، حلف کے تحت اس کمیشن کی اجازت نہ ہوتی تو معذرت کر کے چلا گیا ہوتا، ٹی وی پر ہمیں قانون سکھانے بیٹھ جاتے ہیں، یہاں آکر بتاتے نہیں کہ اسٹے ہوگیا ہے، ایک طرف پرائیویسی کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف خود اپنی آڈیوز پر ٹاک شو میں بیٹھے ہیں، ہم ججز ٹاک شو میں جواب تو نہیں دے سکتے، بطور وکیل ہم بھی اس لیے آرڈر لیتے تھے اگلے روز جا کر متعلقہ عدالت کو آگاہ کرتے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ ٹوئٹر کیا ہے؟ پتہ تو چلے کہ کون آڈیو جاری کر رہا اصلی ہیں بھی یا نہیں، ہو سکتا ہے جن لوگوں کی آڈیوز ہیں انہوں نے خود جاری کی ہوں، ہو سکتا ہے عبدالقیوم صدیقی نے اپنی آڈیو جاری کی ہو، تحقیقات ہوں گی تو یہ سب پتہ چل سکے گا، جج کو پیسے دینے کی بات ہو رہی ہے مگر تحقیقات پر اسٹے آ جاتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹوئٹر ایک سافٹ ویئر ہے، ہیکر کا مجھے علم نہیں شاید میڈیا والوں میں سے کوئی جانتا ہو۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.