برطانیہ میں گود دیے جانے والے بچوں سے حقیقی والدین کے رابطے کا نظام: ’جن کو میں نے جنم دیا کیا انھیں جاننے کا حق نہیں کہ میں مر رہی ہوں؟‘
ایک نوجوان ماں کی خواہش ہے کہ ان کے ان جڑواں بچوں کو جو برسوں پہلے ایک اور خاندان نے گود لیے تھے، کسی طرح یہ بتا دیا جائے کہ وہ ایک مہلک بیماری میں مبتلا ہیں اور زیادہ دیر زندہ نہیں رہیں گی۔ لیکن جن قواعد و ضوابط کے تحت اُن کے بچے دوسرے خاندان کو گود دیے گئے تھے وہ اس بات کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔
اپنے بچوں کو یاد کرنے والی اس ماں کو نہیں معلوم کہ اس کے بچوں کو ان کی بیماری کا علم بھی ہے یا نہیں۔
سنہ 2017 میں حنا (ایک فرضی نام) کو معلوم ہوا تھا کہ وہ صرف چھ ماہ زندہ رہ سکیں گی۔ سوشل سروس کے محکمے کے ذریعے کسی اور خاندان نے حنا کے جڑواں بچوں کو پیدائش کے ایک سال بعد گود لے لیا تھا۔
حنا کہتی ہے کہ ’جب مجھے (اپنی مہلک بیماری کی) یہ خبر ملی تو میں نے فوراً ٹیلی فون پر سوشل سروسز کے محکمے سے رابطہ کیا۔ میں صرف یہ جاننا چاہتی تھی کہ آیا وہ (میرے بچے) خیریت سے ہیں۔‘
اس وقت، ان کے بچوں کو گود دیے ہوئے 11 برس ہو چکے تھے اور حنا کو ان کے بارے میں سات برسوں سے کوئی علم نہیں تھا۔
یہ بھی پڑھیے
ایک نوجوان ماں کی حیثیت سے جسے بار بار حکومتی امداد لینی پڑتی تھی اور جس کا اور کوئی سہارا نہیں تھا، سوشل سروسز کے محکمے نے برسوں پہلے فیصلہ کیا تھا کہ وہ بچوں کی دیکھ بھال کرنے کے قابل نہیں تھیں۔
حنا اپنی زندگی کے اس وقت کو اپنی زندگی کا ’بد ترین لمحہ‘ قرار دیتی ہیں جب ان کے 14 مہینوں کے دو جُڑواں بچوں کو کسی اور خاندان کو پالنے کے لیے دیا گیا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ وہ اس وقت 16 برس کی تھیں اور ماں اور بچوں کے لیے سرکاری بندوبست کے نظام کے تحت رہ رہی تھی۔ انھوں نے ایک سال تک بچوں کو اپنے پاس رکھنے کے لیے لڑائی لڑی۔
برطانیہ میں کئی دیگر ماؤں کی طرح جب حنا کے بچوں کو ان سے لے کر دوسرے خاندان کے حوالے کیا گیا تو انھیں بھی گود لینے والے والدین اور اپنے جنم دیے گئے بچوں سے رابطے کے لیے ایک ’لیٹر باکس‘ رابطے کے نظام سے آگاہ کیا گیا تھا جو بچوں کے 18 برس کا ہونے تک برقرار رہتا ہے۔
’لیٹر بکس رابطہ‘ ان والدین کے لیے ہوتا ہے جو اپنے جنم دیے گئے بچوں کو گود لینے والے والدین کے ساتھ رابطہ رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے بچوں کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کر سکیں۔
یہ ایک خفیہ اور اتفاقِ رائے سے عدالتی عمل کے ذریعے تشکیل دیا گیا نظام ہوتا ہے۔
‘لیٹر باکس’ نظام کے ذریعے بچے کو گود دلوانے والے ادارے کے ذریعے خطوط بھیجے جاتے ہیں، نہ کہ جنم دینے والے اور گود لینے والے والدین براہ راست ایک دوسرے کو خطوط بھیجتے ہیں۔
حنا کے معاملے میں جج نے انھیں اپنے بچوں سے رابطے کے لیے سال میں دو یا تین مرتبہ خطوط لکھنے کی اجازت دی تھی۔
اس میں خاص طور پر ہدایات دی تھیں کہ حنا اپنے بچوں کی سالگرہ اور کرسمس کے موقع پر کارڈز بھیج سکیں گی ساتھ ساتھ وہ بچوں کو گود لینے والدین سے بھی اپنے جنم دیے گئے بچوں کی تصویریں حاصل کر سکیں گی۔
لیکن ان انتظامات کا طے کرنا ایک الگ بات ہے اور ان پر عملدرآمد کرنا ایک دوسری بات ہے۔
’جیسا کہ لیٹر باکس‘ معاہدے میں عموماً ہوتا ہے، حنا کو شروع شروع میں کافی خطوط موصول ہوتے رہے۔ لیکن ان خطوط سے بجائے کہ وہ مطمئن ہوتی وہ ایک ’سخت نفسیاتی بیماری‘ کا شکار ہو گئیں۔
’وہ خطوط اس طرح لکھے جاتے تھے جیسے وہ اُن بچوں نے لکھے ہوں جن میں وہ لکھتے تھے کہ امی اور ابا نے یہ کیا اور ہم نے اُن کے ساتھ وہ کیا۔ لیکن میرے بچے تو صرف دو دو برس کے تھے، جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ خط میرے بچے نہیں لکھ رہے تھے۔‘
وقت گزرتا رہا اور خطوط آتے رہے۔ لیکن حنا ان تمام خطوط کو پڑھتی نہیں تھی۔ ’ایسا لگتا تھا کہ یہ سارے خطوط ایک مخصوص انداز سے لکھے جاتے تھے۔۔۔ ہم چھٹیاں گزارنے گئے، ہم گُھڑ سواری کرنے گئے، وغیرہ وغیرہ۔ ان میں سے کوئی بھی ان احساسات کا اظہار نہیں کرتا تھا جو میں محسوس کرنا چاہتی تھی، جیسا کہ میرے بچوں کی پرورش کیسے ہو رہی ہے یا وہ کن باتوں میں دلچسپی لیتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہے کہ ’آخر میں، میں خطوط میں سے صرف تصویریں نکالتی، انھیں دیکھتی اور لکھے ہوئے رقعے اندر ہی رہنے دیتی کیونکہ انھیں پڑھنا بہت تکلیف دہ ہوتا تھا۔‘
حنا ان خطوط کے جواب نہیں دیتی تھی کیونکہ ان کے دل میں اپنے بچوں کے چھن جانے کا احساس شدید تر ہوتا جا رہا تھا۔ پھر گود دینے کے چار برس بعد جب کافی جدوجہد اور مدد کے بعد ان کی زندگی معمول کی طرف لوٹی، انھوں نے دوبارہ سے خط لکھنا شروع کیے۔
حنا کہتی ہے کہ ’میں نے انھیں لکھنا شروع کیا اور انھیں اپنی زندگی کے بارے میں باتیں بتائیں: میرا شریکِ حیات بہت پیار کرنے والا ہے، اور میں اب ایک جگہ پر ملازم ہوں۔ میں نے انھیں اپنی ملازمت کے بارے میں لکھا اور یہ بھی بتایا کہ میں کہاں رہتی ہوں، اور یہ بھی کہ میں انھیں بہت یاد کرتی ہوں، اور پھر یہ بھی کہ انھیں اپنے سے جدا کرنا میرے لیے کتنا تکلیف دہ تھا، اور میں یہ بھی بتاتی کہ میں ہر روز ان کے بارے میں کس طرح سوچتی ہوں اور ان کے لیے ہر وقت دعا گو رہتی ہوں۔‘
لیکن پھر کبھی کبھار مقامی حکام کے اہلکار انھیں مطلع کرتے کہ ان کے خطوط میں کچھ ’غیر مناسب‘ باتیں تھیں اس لیے انھیں آگے نہیں بھیجا گیا تھا۔
برطانیہ کے قواعد و ضوابط کے مطابق بچے جنم دینی والی ماؤں اور ان بچوں کو گود لینے والے والدین کے درمیان خطوط کے تبادلے کے سلسلے میں مقامی حکومت کے حکام ’مڈل مین‘ (درمیانی واسطے) کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ دونوں براہ راست ایک دوسرے کو جان نہ سکیں، اور دوسرے یہ کہ مقامی حکومت کے اہلکاروں کے علم میں ہو کہ ان خطوط میں کیا لکھا جا رہا ہے۔
’سوشل سروسز کے اہلکاروں نے مجھے بتایا تھا کہ مجھے اپنی ملازمت کے بارے میں کچھ نہیں لکھنا چاہیے۔ پھر مجھے یہ بھی نہیں لکھنا چاہیے کہ کاش تم میرے ساتھ ہوتے۔ آپ جو بات بھی لکھیں وہ مثبت ہونی چاہیے۔ میں نے انھیں فون کیا لیکن وہ مجھے ایسے ہدایتی پرچے بھیج دیتے جن میں یہ بتایا ہوتا تھا کہ مجھے کس طرح کے خطوط لکھنے چاہیے، مجھے ان ہدایات کا کوئی مقصد ہی نظر نہیں آتا تھا۔ اس لیے پھر میں نے خط لکھنا بند کر دیے۔‘
کچھ عرصے کے بعد بچوں کی جانب سے بھی خط آنا بند ہو گئے۔
’ہمیں یہ سوچنا پڑتا ہے کہ ان خطوط کو کون پڑھے گا‘
بچوں کو جنم دینے والی ماؤں کو خط لکھنے میں مدد دینے والے ایک اہلکار مائیک ہینکوک اس کام کا دس برس کا تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ بچوں کو گود لینے کے انتظامات کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’پی اے سی فرسٹ فیملی سروس‘ سے وابستہ ہیں جو مقامی حکومت کی قانونی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے بچوں کو جنم دینے والی ماؤں کو ان کے بچوں گود لیے جانے کے بعد ان کی امداد کی خدمات سر انجام دینے کا کام کرتی ہے۔
مائیک کہتے ہیں کہ ‘ہمیں یہ سوچنا پڑتا ہے کہ یہ خطوط کون پڑھے گا، کیا مقامی حکومتوں کو انھیں آگے بھیجنا چاہیے، اور کیا بچے کو گود لینے والے والدین ان خطوط کو گود لیے گئے بچوں کو پڑھائیں گے۔‘
‘ہم اس بات کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے ہیں کہ آپ ان خـطوط میں جذبات کا اظہار کریں۔ اگر بچے کو جنم دینے والی ماں جذباتی طور پر پریشان ہے اور بچوں کو بہت زیادہ یاد کر رہی ہے تو وہ یہ بات اپنے خـط میں تحریر نہ کریں کیونکہ اس سے بچے بھی پریشان ہوں گے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ پہلا خط لکھنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے۔
’بعض اوقات والدین اتنا غصہ کرتے ہیں، تکلیف اور دباؤ محسوس کرتے ہیں کہ پھر وہ مزید لکھنا ہی نہیں چاہتے ہیں۔ بہت سے مائیں اپنے بچوں کو کسی کو گود دینے کے عمل کی وجہ سے شدید صدمے سے دوچار ہو جاتی ہیں۔ وہ اپنے بچوں سے جدائی کی تکلیف میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے کئی ناخواندہ یا نیم ناخواندہ ہوتی ہیں۔‘
رائل ہولو وے یونیورسٹی کی سوشل ورک کی پروفیسر اینا گُپتا کہتی ہیں کہ ’بچوں کو جنم دینے والی مائیں اور ان بچوں کو گود لینے والے والدین دونوں کا حق ہے کہ وہ خط لکھنے کے لیے مدد حاصل کریں، لیکن اس سہولت کے کوئی واضح خدوخال نہیں ہیں۔ بعض مقامی حکومتوں نے خطوط لکھنے اور رابطے میں مدد کے لیے کوئی ایک اہلکار تعینات کیا ہوا ہو گا، تاہم بعض نے اس کام کی انجام دہی کے لیے کسی ادارے سے ٹھیکہ کر لیا ہوتا ہے جبکہ بعض مقامی حکومتوں نے کسی بھی قسم کا کوئی ابھی انتظام نہیں کیا ہوتا ہے۔‘
’اگر حنا کو کسی مائیک ہینکوک جیسے شخص کی کئی برسوں سے سہولت حاصل ہوتی تو ان کے حالات مختلف ہوتے۔ شاید وہ اپنے بچوں کو خط لکھنے اور انھیں باقاعدگی کے ساتھ ارسال کرنے میں کامیاب رہتی اور جواباً وہ بھی ان سے خطوط وصول کرتی رہتی۔‘
حنا اور ان کے شوہر ہر برس اپنے ان بچوں کی سالگرہ مناتے جو انھوں نے دوسرے والدین کے حوالے کر دیے تھے۔ وہ یہ جانے بغیر ان بچوں کے لیے گیت گاتی ہیں کہ آیا وہ بچے ان کے بارے میں اب مزید کچھ جانتے بھی ہیں یا نہیں۔
‘کئی برس تک میں ان کے لیے ہریشان رہی، میں ڈراؤنے خـواب دیکھتی کہ انھیں ہلاک کر دیا گیا ہے۔۔۔۔ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا، کیا کوئی مجھے بتائے گا؟‘
’مجھے بالآخر اپنے بچوں سے سب کہنے کا موقع مل گیا‘
جب حنا کو معلوم ہوا کہ وہ اپنی مہلک بیماری کی وجہ سے عنقریب مر جائیں گی تو انھوں نے پوچھا کہ کیا اُن کے بچوں کو ان کی موت کی اطلاع دی جائے گی؟ انھوں نے اپنی مقامی حکومت کو مطلع کیا کہ اس کے گردے فیل ہو گئے ہیں اور ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ وہ چھ ماہ زندہ رہ سکیں گی، اور وہ اپنے جڑواں بچوں سے رابطہ کرنا چاہتی ہیں تو جواب میں انھیں کچھ نہیں بتایا گیا۔
حنا کہتی ہے کہ دو ماہ بعد انھیں اس کے بچوں کو گود لینے والے والدین کی جانب سے لکھے گئے پرانے 12 خطوط کا ایک بنڈل موصول ہوا اور بتایا گیا کہ یہ گم ہو گئے تھے، اور بس۔
پھر ایک برس کے بعد ان سے پی اے سی کے اہلکاروں نے کچھ اور وجوہات کی بنا پر رابطہ کیا اور انھیں اس کی کہانی بتائی۔ پی اے سی کے اہلکاروں نے سوشل سروسز کے محکمے کے ساتھ ان کا رابطہ کروا دیا جنھوں نے حنا کے بچوں کو گود لینے والے والدین کو تلاش کیا اور انھیں حنا کی مہلک بیماری سے آگاہ کیا۔
اس دوران پی اے سی نے حنا کی اپنے بچوں کو خط تحریر کرنے میں مدد کی تاکہ ان کا بچوں کے ساتھ رابطہ بحال ہو سکے۔ بالآخر ڈاکٹروں کو ان کی موت کے ممکنہ وقت کا اندازہ لگانے کے بعد یہ خط مقامی حکومت کو بھیجا گیا۔
وہ کہتی ہے کہ ‘مجھے بالآخر اپنے بچوں سے بہت ساری باتیں، جو میرے ذہن میں تھیں کہ انھیں معلوم ہونا چاہیے، وہ سب کہنے کا موقع مل گیا۔‘
انھوں نے اس خط میں اپنے بچوں کو بتایا کہ وہ انھیں ہر روز شدت سے یاد کرتی تھیں، ان کی وہ تمام اشیا سنبھال کے ابھی تک رکھی ہوئی تھیں جو اُن کے جھولنے میں ہوتی تھیں اور ان کی تصویریں گھر میں کئی جگہوں پر لگائی ہوئی ہیں۔
انھوں نے بچوں کے نام خط میں لکھا کہ ’جب یہ تمام اشیا اُن سے جدا کی گئیں تھیں تو انھیں بے ہوش کرنے والی دوائی دی گئی تھی کیونکہ وہ اس تکلیف کو برداشت نہیں کر سکتی تھی۔‘
لیکن جب یہ خط سوشل سروسز کے محکمے کو بھیجا گیا تھا تو حنا کو ایک مرتبہ پھر جواب ملا کہ یہ خط آگے نہیں بھیجا جائے گا تاہم اس خط کو ریکارڈ میں اس کی فائل میں محفوظ کر لیا جائے گا تاکہ اُس کے بچے دو برس بعد، جب اٹھارہ برس کے ہو جائیں گے، تو پھر وہ اسے دیکھ اور پڑھ سکیں گے۔
اس طویل خط کی جگہ مقامی حکومت نے ایک مختصر خط آگے بھیجا دیا۔ اس مرتبہ حنا کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ اپنے بچوں سے اپنی محبت کی شدت کا اظہار کر سکتی ہے اور وہ اپنی صحت کے بارے میں کچھ مسائل کا ذکر کر سکتی ہے، لیکن وہ یہ نہیں لکھ سکتی تھی کہ وہ شدید بیمار ہے۔
’اس خط میں انھوں نے مجھے یہ لکھنے کی اجازت نہیں دی تھی کہ میری حالت بہت خراب ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ پچھلے خط میں اتنا کچھ لکھ دیا گیا تھا کہ دوبارہ لکھنے سے وہ بچوں کو پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے۔۔۔۔ انھیں یہ معلوم نہیں ہے کہ میں چار موقعوں پر موت کے منھ سے بچی ہوں۔‘
لیٹر باکس کے قواعد و ضوابط
نو فیلڈ فیملی جسٹس آبزرویٹری کی ریسرچ کے مطابق، لیٹر باکس رابطے کی نوعیت ایک مقامی حکومت کے مقابلے میں دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔
کچھ صرف خطوط کی اجازت دیتی ہیں، دیگر تصاویر، چھوٹے تحائف، ڈرائنگ، آرٹ یا کارڈ کے تبادلے کی اجازت دیتی ہیں۔ کچھ معاملات میں صرف بڑوں کے درمیان خط و کتابت کی اجازت ہوتی ہیں، اور کچھ میں گود لیے گئے بچے کو براہِ راست ان معاملات میں شامل کرنے کی اجازت بھی دیتی ہیں۔
سنہ 2018 کی ایک تحقیق میں پروفیسر اینا گپتا نے یہ بھی دیکھا تھا کہ مقامی حکومت کے اہلکاروں میں ’مناسب مواد‘ کی تعریف پر کوئی اتفاقِ رائے نہیں ہے۔
کچھ گود لینے والے والدین کو بھیجے گئے تمام خطوط کو پڑھیں گے اور اگر کسی چیز کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہو تو خط کے مصنف کے پاس واپس بھیج دیں گے۔
جبکہ بعض دیگر مقامی حکومتیں ایسا نہیں کر سکتی ہیں۔ گپتا کی تحقیق میں ایک انٹرویو لینے والے نے بتایا تھا کہ انھوں نے اپنے بچپن میں موصول خطوط کے کچھ حصے کاٹ ڈالے تھے ۔۔۔ لیکن میں ان تحریروں کی روشنائی میں چھپے ہوئے ان جذبات کو دیکھ سکتی ہوں کہ بچے کو جنم دینے والی ماں ان سے کتنی شدت سے پیار کرتی ہیں۔
یہ خط بھیجنے کے فوراً بعد ہی حنا کے بچوں کو گود لینے والے والدین کی جانب سے انھیں بچوں کی تصویریں موصول ہوئیں۔
’جس دن مجھے بچوں کی تصویریں موصول ہوئیں جن کا میں آپریشن میں جانے سے پہلے انتظار کر رہی تھی۔ مجھے اتنا خوف تھا کہ یہ آپریشن غلط ہو جائے گا ۔۔۔ مجھے یہ جاننے کی ضرورت تھی کہ آیا انھیں میرا خط مل گیا ہے۔ اس نے مجھے مزید حوصلہ دیا کہ میں کبھی ہار نہیں مانوں گی۔‘
تب سے ان کے پاس اپنے دونوں بچوں کی طرف سے ایک ایک خط آیا ہے جس میں وہ انھیں اپنی پڑھائی اور مشاغل کے بارے میں بتا رہے تھے، لیکن اُن میں ان کی بیماری کا کوئی ذکر نہیں تھا، لہٰذا انھیں شبہ ہے کہ ان کے بچوں کو ان کی بیماری کے بارے میں کچھ بتایا نہیں گیا ہے۔
لیٹر باکس کے رابطے میں یہ ہمیشہ بچے کو گود لینے والے والدین ہی ہوتے ہیں جو خط وصول کرتے ہیں اور یہ ان پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ بچوں کو کیا بتائیں۔
پروفیسر اینا گپتا، جنھوں نے 30 سال تک ایک سماجی کارکن کی حیثیت سے کام کیا، کا کہنا ہے کہ آیا حنا کے بچوں کو ان کی بیماری کے بارے میں بتایا جانا چاہیے اور ان بچوں کو مرنے سے پہلے جنم دینے والی ماں سے ملنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔۔۔ اور انھوں نے خبردار کیا کہ شاید اس سے بچے ناراض ہو سکتے ہیں۔
’میرے نزدیک یہ بچے اپنی زندگی کے ایک بہترین موقع سے محروم ہو رہے ہیں۔ اگر میں سماجی کارکن ہوتی تو میں ان کو گود لینے والے والدین سے بات کرتی اور ان سے پوچھتی کہ کیا وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے کو برسوں بعد اس صدمے کا احساس ہو کہ وہ جنم دینے والی ماں سے مل نہ سکے۔ انھیں جنم دینے والی اُن کی ماں سے ملنے کے آخری موقع سے اُنھیں محروم کر دیا گیا تھا۔‘
گپتا کی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ بہت سے گود لینے والے بچے اپنی زندگی کے کسی نہ کسی موقع پر جنم دینے والی اپنی ماں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔
‘نوجوان لوگوں کا ایک بہت بڑا پیغام یہ تھا کہ ہمیں گود لینے والے والدین کو اس بات کے لیے آمادہ کرنے کی ضرورت ہے کہ انھیں اس چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ ان کے اور والدین کی حیثیت سے ان کی صلاحیتوں کے بارے میں بات نہیں ہے، بلکہ یہ اس احساس کے بارے میں ہے کہ گود لیے گئے بچے کون ہیں اور وہ کہاں سے تعلق رکھتے ہیں۔‘
ایک ایسی خاتون جس کا اینا گپتا کی تحقیق کے دوران انٹرویو کیا گیا اور جو چار سال کی عمر میں گود لی گئی تھی کے متعلق بتاتی ہیں کہ ’وہ اب ایک کامیاب کاروباری شخصیت تھیں اور ان کو گود لینے والا خاندان بہت اچھے لوگ تھے لیکن وہ روز اپنے آپ سے پوچھتی کہ میں کون ہوں؟ اس کے باوجود وہ اس وقت کو یاد کرتی ہے جب پولیس نے اُسے اس کی ماں کی بانہوں سے علحیدہ کیا تھا۔‘
گپتا کا کہنا ہے کہ اسے اس بات کا یقین نہیں دلایا جا سکتا ہے کہ آیا وہ اپنی ماں سے مل سکے گی یا نہیں۔
اسی موضوع کے ایک اور ماہر، یونیورسٹی آف ایسٹ انگلیا کی پروفیسر بیتھ نیل کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ لیٹر بکس رابطے، اگر اس کا نظم و ضبط اچھی طرح سے کیا جائے تو، اس سے بچے کو اپنے جنم دینے والی ماں اور گود لینے والے خاندان کو جاننے ساتھ ساتھ، اپنی نئی شناخت کو سمجھنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔
اس سے انھیں یقین حاصل ہوتا ہے کہ انھیں مسترد نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی انھیں فراموش کیا گیا ہے لیکن اس کی تحقیق سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ لیٹر بکس کا رابطہ اکثر ٹوٹ جاتا ہے، جیسا کہ حنا کے معاملے میں ہوا تھا۔
نیل کو معلوم ہوا کہ رابطے کے زیادہ تر لیٹر باکس انتظامات بچپن میں غیر فعال رہے، اور بہت سے انتظامات تو آغاز ہی میں غیر فعال تھے۔ بہت سارے بچے لاعلم تھے کہ خط و کتابت بھی ہو رہی تھی۔
لہٰذا باضابطہ عمل اور مدد کو نظرانداز کرتے ہوئے ۔۔۔ گود لیے گئے بچوں اور ان کو جنم دینے والے والدین کے مابین رابطے سوشل میڈیا پر بڑھ رہے ہیں۔ سنہ 2018 میں، برطانیہ کے بچوں کو گود لینے کے ایک جائزے سے معلوم ہوا کہ گذشتہ سال گود لیے گئے نوعمر بچوں کی ایک چوتھائی تعداد میں انھیں جنم دینے والی ماؤں سے اُن کے بے قاعدہ قسم کے رابطے قائم تھے۔
یہ کیفیت لیٹر باکس رابطے میں ممکنہ بہتری لانے کے بارے میں سوالات کو جنم دیتی ہے۔
کچھ لوگوں کا استدلال ہے کہ جس دور میں خط لکھنا کم عام ہو گیا ہے وہاں دوسری قسم کے رابطوں کا پیدا ہونا لازمی اور زیادہ مناسب ہوسکتا ہے۔ کم از کم ایک مقامی حکومت اب یہ رابطے ویڈیو کانفرینسنگ کے ذریعہ یا تو ذاتی طور پر یا موجودہ وبا کی وجہ سے، پہلے ہی متعارف کروا چکی ہے۔
مستقبل میں حنا جیسی ماؤں کے لیے یہ ایک خوشخبری ہو سکتی ہے۔ تاہم آج کی حنا کے لیے، جو ابھی صرف 32 سال کی ہیں، وہ جس چیز کی بہتر امید کر سکتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنی بگڑتی ہوئی صحت کے باوجود زندہ رہے جب تک کہ اُس کے اپنے جنم دیے گئے بچے خود اسے تلاش کرنا شروع نہیں کر دیتے ہیں۔
’میں زندگی کے لیے موت سے لڑتی رہوں گی۔ جب تک میرا وقت پورا نہیں ہو جاتا، میں کہیں نہیں جاؤں گی۔ میرا اگلا قدم اپنے بچوں سے ملنا ہے۔‘
’اگر میں زندہ ہوں تو وہ مجھے ڈھونڈ سکتے ہیں۔ اگر نہیں تو جب بھی وہ مجھے تلاش کریں گے تو انھیں عدالتی کاغذات نظر آئیں گے جن سے یہ ظاہر ہو جائے گا کہ میں نے ان سے ملنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا تھا اور ہر راستے پر تلاش کیا تھا۔‘
(حنا ایک فرضی نام ہے)
(تصویریں ایما لنچ کی بنائی ہوئی ہیں)
Comments are closed.