سمیع چوہدری کا کالم: بے خطر کرکٹ ہی طریقہ بن گئی تو ون ڈے میں پاکستان کے دن بدلنے کو ہیں
فخر زمان کی سنچریوں نے پاکستان کو فتح دلوانے میں اہم کردار ادا کیا
پاکستان بمقابلہ جنوبی افریقہ میچز کی تاریخ دیکھی جائے تو یہ سیریز کچھ زیادہ مختلف نہیں رہی۔ جوڑ برابر کا رہا اور حسبِ سابق بات آخری میچ پر آن ٹھہری جو ماضی میں عموماً پاکستان کی ہار پر منتج ہوا کرتا تھا۔
لیکن بابر اعظم نے بازی پلٹ دی اور جب فخر زمان کی وکٹ گرنے کے بعد تاریخ خود کو دہرانے کے موڈ میں نظر آئی تو بابر مردِ بحران بن گئے۔
یہ وکٹ ایسی نہیں تھی کہ کوئی بھی بلے باز فوراً ہم آہنگ ہو کر اپنے شاٹس کھیلنے لگے۔ یہاں سنبھلنے کے لیے وقت درکار تھا اور وقت ہی تو تھا جو پاکستانی مڈل آرڈر کے اعصاب پر طاری ہوا اور بحران کے وسوسے اٹھنے لگے۔
اور وہ مرحلہ آ گیا کہ جہاں 350 کا مجموعہ باآسانی جڑتا نظر آ رہا تھا، وہیں 300 بھی پہنچ سے باہر ہوتا دکھائی دیا۔
شومئی قسمت کہ ٹیمبا باووما کی ٹیم جو ون ڈے سپر لیگ کے ٹیبل میں زمبابوے اور آئر لینڈ سے بھی نیچے جا چکی ہے، اس اہم ترین میچ میں اپنے پانچ بہترین کھلاڑیوں سے محروم تھی۔ اس کے ’کاریگر‘ لوگ آئی پی ایل کے بائیو سکیور ببل میں پہنچ چکے تھے اور رہی سہی کسر وان ڈر ڈوسن کی انجری نے پوری کر دی۔
یہ بھی پڑھیے
لیکن اس کے باوجود اگر یہ کہا جائے کہ جنوبی افریقہ نے اس مقابلے کے لیے درست الیون نہیں چنی تو بے جا نہ ہو گا۔ گو سینچورین کی پچ کی وجۂ شہرت پیس اور باؤنس ہی ہے مگر شاید یہ موسمِ خزاں کا آغاز ہے یا کچھ اور، کہ اس میچ میں سپنرز کو زیادہ گرفت ملتی نظر آئی۔
ٹیمبا باووما اگر کیشو مہاراج کا ساتھ دینے کو ایک اور ریگولر سپنر کھلا لیتے تو شاید کہانی تھوڑی مختلف رہتی۔ مگر باووما نے پیس کو ترجیح دی۔ اس کے برعکس بابر اعظم نے میچ سے پہلے بھی پچ کا بہتر تجزیہ کیا اور محمد نواز کو دوسرے سپنر کے طور پر میدان میں لے آئے۔
جب ربادا، نگدی اور نورکیہ جیسے کہنہ مشق پیسرز دستیاب نہ ہوں تو مخالف بلے بازوں کی زندگی ویسے بھی قدرے سہل ہو جاتی ہے اور فخر زمان تو پچھلے میچ سے ہی جو فارم لے کر چلے تھے، اس میں سے ایک متنازعہ رن آؤٹ کو منہا کر دیا جائے تو سینچورین کی یہ اننگز اسی تسلسل سے جڑی نظر آتی ہے جو ڈی کوک کی ’چالاکی‘ پر ٹوٹا تھا۔
امام الحق اور فخر زمان نے جو پلیٹ فارم پاکستان کو مہیا کر چھوڑا تھا، اس کے جواب میں اگر باووما جُز وقتی بولرز کو سامنے نہ لاتے تو شاید بیچ کے اوورز کا وہ انہدام ممکن نہ ہو پاتا جہاں پاکستان نے صرف 51 رنز کی خاطر پانچ وکٹیں قربان کر دیں۔
یہی وہ مرحلہ تھا جہاں عموماً پاکستان ایسے مقابلوں پر اپنی گرفت ڈھیلی کر بیٹھتا ہے۔ مڈل آرڈر میں جو الجھنیں پاکستان کو درپیش تھیں، وہ اس میچ میں بری طرح کھلنے لگیں اور یہی وہ موقع تھا جہاں پاکستان کو بابر اعظم کے جیسے قابلِ بھروسہ کردار کا سہارا چاہیے تھا۔
بابر اعظم کو تیسرے ون ڈے میں مین آف دی میچ کا ایوارڈ دیا گیا
پرانی گیند کے ساتھ سپنرز کو وکٹ سے خوب مدد مل رہی تھی اور جیسے مہاراج نے اپنے کنارے سے بلے بازوں کو باندھ رکھا تھا، باووما نے دوسری جانب سے بھی مانگ تانگ کر سپن کا کوٹہ پورا کرنا بہتر سمجھا۔ اور یہ سب وہ نہیں تھا جو بابر اعظم جیسے سٹروک میکر کو چاہیے ہوتا ہے۔ سٹروک بنانے کے لیے گیند پر رفتار سودمند رہتی ہے۔
لیکن باووما نے آخری 10 اوورز میں بھی سپن کا کوٹہ بھاری رکھا۔
باووما کا یہ پلان بہت حد تک کامیاب بھی رہا مگر آخری اوورز میں حسن علی کی وہ یلغار شروع ہوئی جس نے پاکستانی بولنگ کا اعتماد بڑھا دیا۔
عثمان قادر اور محمد نواز نے اس سے کہیں زیادہ کر دکھایا جو کیشو مہاراج اور ان کے جُزوقتی ساتھیوں نے نبھایا تھا۔
پاکستان ہی وہ پہلی ایشیائی ٹیم تھی جو جنوبی افریقی سرزمین پر پہلی بار کوئی ون ڈے سیریز جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی اور اس وقت پاکستان وہ پہلی ٹیم بن چکی ہے جو ان کنڈیشنز میں دوسری ون ڈے سیریز جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
اس سیریز کے آغاز سے قبل پاکستان کی حالت بھی جنوبی افریقہ کی سی ہی تھی۔ یہ ٹیم ون ڈے سپر لیگ میں کافی نیچے موجود تھی۔ نئی مینیجمنٹ اور قیادت کے تحت پچھلے دو سال سے نئی ٹیم بنانے کا عمل جاری تھا اور پاکستان مسلسل تجربات کی بھٹی میں سے گزر کر اپنا بہترین کمبینیشن ڈھونڈنا چاہ رہا تھا۔
اس سیریز کی جیت نے کئی نوجوانوں کو تو اعتماد دیا ہے اور بابر اعظم کی نوآموز کپتانی کو بھی معتبر کر دیا ہے۔ گو سوچنے کو ابھی کئی پہلو باقی ہیں مگر یہ جیت ان کی قیادت کے باب میں کسی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔
سیریز سے پہلے بابر نے کہا تھا کہ بے خطر کرکٹ ہی ان کا آئندہ لائحہ عمل ہے۔ اس نتیجے نے بابر کے لائحہ عمل کی تجرباتی تصدیق کر دی ہے۔ یہی لائحہ عمل اگر مستقلاً اس ٹیم کا طرزِ عمل بن گیا تو یقیناً ون ڈے کرکٹ میں پاکستان کے دن بدلنے کو ہیں۔
Comments are closed.