سپریم کورٹ آف پاکستان میں سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت انتخابات کے بعد تک ملتوی کر دی گئی۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ بھٹو ریفرنس کی سماعت کر رہا ہے۔
لارجر بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اپنی ہمشیرہ آصفہ بھٹو زرداری کے ہمراہ سپریم کورٹ پہنچے ہیں۔
بلاول بھٹو کی سپریم کورٹ کے داخلی دروازے پر پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ سے ملاقات ہوئی۔
بلاول بھٹو زرداری پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ سے گرمجوشی سے بغل گیرہوئے ۔
لطیف کھوسہ کو دیکھ کر بلاول نے قہقہہ لگا کر کہا کہا ’دیکھو دیکھو مجھے کون نظر آیا؟‘
پی ٹی آئی رہنما اور وکیل لطیف کھوسہ بھی بلاول بھٹو کو دیکھ کر مسکراتے رہے۔
سماعت شروع ہوئی تو پیپلز پارٹی کے رہنما، سینیٹر و وکیل رضا ربانی روسٹرم پر آ گئے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے رضا ربانی سے سوال کیا کہ کیا آپ عدالتی معاون ہیں؟
رضا ربانی نے جواب دیا کہ میں عدالتی معاون نہیں، صنم بھٹو، بختاور اور آصفہ کا وکیل ہوں، کیس میں فریق بننے کی درخواست جمع کرائی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ٹھیک ہو گیا، اس درخواست کو دیکھتے ہیں، عدالتی معاونین کو پہلے سننا چاہیے کیونکہ پچھلے حکم نامے میں سوالات کیے تھے۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ صدارتی ریفرنس ہے تو بہتر ہوتا اگر اٹارنی جنرل کو پہلے سن لیتے کہ اس کیس میں حکومت کہاں کھڑی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو ریفرنس واپس لینے کی ہدایات نہیں تو ان کا مؤقف آ چکا۔
عدالت کی جانب سے مقرر معاون زاہد ابراہیم نے عدالتی معاونت سے معذرت کر لی اور بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے پوتے ذوالفقار بھٹو جونیئر اور فاطمہ بھٹو نے مجھے وکیل کیا ہے۔
اس موقع پر عدالتی معاون صلاح الدین احمد روسٹرم پر آ گئے، جنہوں نے کہا کہ میری اہلیہ نواب احمد قصوری کی نواسی ہیں، عدالت فریقین سے پوچھ لے کہ میری معاونت پر کوئی اعتراض تو نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اہلیہ نے اعتراض اٹھایا ہے تو پھر بڑا سنجیدہ معاملہ ہے۔
وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ذوالفقار بھٹو کے ورثاء کو بیرسٹر صلاح الدین پر اعتراض نہیں۔
عدالتی معاون خواجہ حارث نے کہا کہ بھٹو کیس میں میرے والد ڈی جی ایف ایس ایف مسعود محمود کے وکیل تھے، اگر مجھ پر بھی کسی کو اعتراض ہو تو بتا دیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ پر کسی فریق کو اعتراض نہیں، آپ فیئر ہیں اس کا یقین سب کو ہے۔
عدالتی معاون مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس صدارتی ریفرنس میں 4 سوالات پوچھے گئے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے انہیں ہدایت کی کہ سب سے پہلے آئین کا آرٹیکل 186 پڑھیں جس کے تحت یہ ریفرنس بھیجا گیا، کیا ہمارے پاس اس صدارتی ریفرنس کو نہ سننے کا آپشن ہے؟
عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کہا کہ آئینی طور پر تو عدالت کے پاس ریفرنس پر رائے دینے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں، مگر ریفرنس میں پوچھا گیا سوال مبہم ہو تو عدالت کے پاس دوسرا آپشن ہو گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالت کی رائے ہو کہ سوال مبہم ہے تو بھی عدالت کے پاس آپشن رائے دینا ہی ہو گا۔
عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت کے سامنے ایک منفرد کیس ہے، چیف جسٹس نے اسی کیس میں ایک انٹرویو کا ٹرانسکرپٹ بھی طلب کر رکھا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بنیادی طور پر اس ریفرنس کی بنیاد سابق جج نسیم حسن شاہ کا انٹرویو ہے۔
دورانِ سماعت احمد رضا قصوری روسٹرم پر آ گئے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے احمد رضا قصوری کو بات کرنے سے روک دیا اور کہا کہ آپ اپنی نشست پر بیٹھ جائیں، پہلے عدالتی معاون کو بات مکمل کرنے دیں، آپ کو ان کی کسی بات پر اعتراض ہے تو لکھ لیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ ہمارے سامنے قانونی سوال کیا ہے؟ کیا ایک انٹرویو کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لے کر رائے دیں؟ کیا عدالت ایک انٹرویو کی بنیاد پر انکوائری کرے؟ انٹرویو ایک جج کا تھا جبکہ بینچ میں دیگر ججز بھی تھے، کیا ہم انٹرویو سے متعلقہ لوگوں کو بلا کر انکوائری شروع کریں؟ ہم صرف ایک انٹرویو کی ویڈیو دیکھ کر تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ ہوا تھا، آرٹیکل 186 کے تحت عدالت صرف قانونی سوالات پر رائے دے سکتی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ یہ بھی بتا دیں کہ بھٹو ریفرنس میں کیا قانونی سوال پوچھا گیا ہے؟
مخدوم علی خان نے سید شریف الدین پیرزادہ کا خط پڑھ کر سنایا اور کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی بہن نے صدرِ مملکت کے سامنے رحم کی اپیل دائر کی تھی، ذوالفقار علی بھٹو نے بذاتِ خود کوئی رحم کی اپیل دائر نہیں کی تھی، عدالت کے سامنے سوال ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر عمل درآمد کا نہیں ہے، بد قسمتی سے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی واپس نہیں ہو سکتی، عدالت کے سامنے معاملہ ایک دھبے کا ہے، ذوالفقار علی بھٹو کو چار تین کے تناسب سے پھانسی کی سزا دی گئی، بعد میں ایک جج نے انٹرویو میں کہا کہ میں نے دباؤ میں فیصلہ دیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ اس کیس میں عدالت نے کوئی فیصلہ کیا تو کیا اپنے ہر فیصلے پر یہی کرنا ہو گا؟
سپریم کورٹ نے جسٹس (ر) نسیم حسن شاہ کا ’جیو نیوز‘ کو دیا گیا انٹرویو کمرۂ عدالت میں چلا دیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایک قانونی سوال جو میں سمجھا ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس کا فیصلہ غلط تھا، اس کیس میں صرف 1 جج کا انٹرویو آیا دیگر ججز بھی خاموش رہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہر فوجداری کیس میں جہاں سیاست ہو اور انصاف نہ ہو تو عدالت کو دوبارہ سننا چاہیے۔
چیف جسٹس نے مخدوم علی خان سے کہا کہ آپ نے کہا کہ یہ منفرد کیس ہے، باقی کیسز سے الگ عدالت اسے دیکھے، آپ نے کہا کہ اس وقت مارشل لاء تھا تو ایک سابق وزیرِاعظم کو پھانسی لگا دی گئی، آپ محنت کریں اور بتائیں کہ یہ عدالت باقی کیسز کو دوبارہ کیوں نہیں کھول سکتی؟ صدرِ مملکت بھی باقی کیسز کے ریفرنس بھیجیں، اس کیس میں ایک جج کا انٹرویو ہے، باقی کیسز میں کچھ اور موجود ہو گا۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ فوجداری کیسز میں جہاں سیاست شامل ہو انصاف نہ ہو، انہیں درست ہونا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس میں نظرِ ثانی کا دائرہ اختیار استعمال ہو چکا، اب کیا طریقہ کار بچا ہے کہ اس عدالت کا دائرہ اختیار ہو؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت اس وقت ایک شخص کی عزت اور تاریخ کی درستگی دیکھ رہی ہے، عدالت بہتر مثال قائم کرنا چاہتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ واحد نکتہ یہی ہے کہ اُس وقت عدلیہ آزاد نہیں تھی، ہم کیسے اس مشق میں پڑیں کہ بینچ آزاد نہیں تھا؟
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ایک جج کے انٹرویو سے پوری عدالت کا تاثر نہیں دیا جا سکتا کہ تب عدلیہ آزاد نہیں تھی، دوسرے ججز بھی تھے جنہوں نے اپنے نوٹس لکھے اور اختلاف کیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس کیس میں ایک جج کی رائے کو نظر انداز نہیں کر سکتے، بھٹو کیس میں بینچ کا تناسب ایسا تھا کہ ایک جج کی رائے بھی اہم ہے، ایک جج کے اکثریتی ووٹ کے تناسب سے ایک شخص کو پھانسی دی گئی۔
چیف جسٹس پاکستان نے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے ’جیو نیوز‘ کو انٹرویو کی کاپیاں بنانے اور کاپی پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کو دینے کی ہدایت کی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ کا پورا انٹرویو نہیں سن سکتے متعلقہ پارٹ لگا دیں۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں نے جو سی ڈی دی اس میں صرف وہی حصہ ہے جو ذوالفقار علی بھٹو سے متعلق ہے۔
عدالت نے فاروق ایچ نائیک کی جانب سے جمع کرائی گئی سی ڈی لگانے کی ہدایت کی۔
احمد رضا قصوری نے کہا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنی کتاب میں سارا واقعہ لکھا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے احمد رضا قصوری سے کہا کہ آپ متعلقہ حصہ ڈھونڈ لیں، عدالتی وقت ضائع نہ کریں۔
احمد رضا قصوری نے کہا کہ کتاب میں جو لکھا گیا اگر ان پر دباؤ تھا تو استعفیٰ دے دیتے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ ہمیں نہ سمجھائیں جو پڑھنا ہے پڑھ لیں، جج صاحب سے یہ انٹرویو کب لیا گیا؟ نوٹ کر لیں کہ 3 دسمبر 2003ء کو یہ انٹرویو چلایا گیا۔
احمد رضا قصوری نے استدعا کی کہ مجھے بلاول بھٹو کی اضافی دستاویزات کی کاپی دی جائے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ آپ کو عدالتی عملہ کاپی دیدے گا، ہم ریفرنس سن رہے ہیں، آپ کا کیس نہیں، آپ مہربانی فرما کر بیٹھ جائیں۔
اس موقع پر جسٹس نسیم حسن شاہ کا ’جیو نیوز‘ کو دیا گیا انٹرویو عدالت میں دوبارہ چلایا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس انٹرویو میں تو مکمل بات ہی نہیں ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یو ٹیوب سے اصل پروگرام ہٹا دیا گیا ہے، آپ ایسا کریں کہ ’جیو‘ ٹی وی والا ڈیٹا کاپی کرا لیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے فاروق ایچ نائیک کو ہدایت کی کہ آپ سارے انٹرویو کو دیکھ کر متعلقہ حصہ ہمیں دے دیں، ہم ابھی عدالتی معاون مخدوم علی خان کو سن لیتے ہیں۔
عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کہا کہ یہ فیصلہ انصاف سے زیادتی ہے۔
جس پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا اس میں سپریم کورٹ قصوروار ہے؟ یا پھر پراسیکیوشن اور اُس وقت کا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر قصور وار ہے؟
مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سمیع اللّٰہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی کا فیصلہ لکھا گیا، سمیع اللّٰہ بلوچ کیس کا فیصلہ لکھنے والے جج اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹتے گئے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ سمیع اللّٰہ بلوچ کیس کے فیصلے کا اس ریفرنس سے کیا تعلق ہے؟
مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ تعلق یہ ہے کہ فیصلہ غلط ہو تو ججز اپنے طے کردہ اصول سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں، اگر عدالت سمجھتی ہے کہ بھٹو کیس میں انصاف کا قتل ہوا ہے تو اس کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے، اس سے عدالت کی ساکھ بہتر ہو گی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ اگر عدالت ایسا کرتی ہے تو پھر فیصلوں کی حتمی شکل کیا ہو گی؟ اگر آج صدراتی ریفرنس پر از سرِ نو جائزہ لیا تو کل کو کوئی صدر بھی ریفرنس بھیج دے گا، یہ اصول طے ہو گیا تو فیصلوں کی آئینی حیثیت کیا رہ جائے گی؟
مخدوم علی خان نے کہا کہ بھٹو کیس میں مخصوص بینچ نے مخصوص طریقے سے جلد بازی میں فیصلہ کیا، اُس مخصوص بینچ کی جلد بازی سے انصاف کا قتل ہوا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مخدوم علی خان صاحب! آئین کا آرٹیکل 189 پڑھیں، کل کوئی سیشن جج ذوالفقار علی بھٹو کیس کے فیصلے کے تحت ٹرائل کر دے پھر کیا ہو گا؟ آئین کے آرٹیکل 189 کے تحت ماتحت عدلیہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی پابند ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ہمیں تاریخ درست کرنے کی ضرورت ہے، یہ سیاہ داغ صرف ایک خاندان پر نہیں کچھ اداروں پر بھی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے مخدوم علی خان کو ہدایت کی کہ آپ تحریری معروضات بھی جمع کرا دیں، اس کیس کو انتخابات کے بعد نہ رکھ لیں؟
وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ مجھے ہدایات ہیں کہ کیس کو جلد سنا جائے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ 2 الیکشن تو پہلے ہی گزر چکے ہیں۔
وکیل فاروق ایچ نائیک نے استدعا کی کہ عدالت پہلے معاونین کو سن لے، اٹارنی جنرل، مجھے اور رضا ربانی صاحب کو بعد میں سنا جائے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے حکم نامے میں کہا کہ عدالتی معاونین سمیت تمام فریقین کے وکلاء کو سنیں گے، رضا ربانی، صنم بھٹو، بختاور اور آصفہ بھٹو زرداری کی نمائندگی کریں گے، خواجہ حارث کے والد وعدہ معاف گواہ مسعود محمود کے وکیل تھے۔
رضا ربانی نے خواجہ حارث کے عدالتی معاون ہونے پر اعتراض اٹھا دیا جس پر خواجہ حارث نے خود کو بطور عدالتی معاون مقدمے سے الگ کر لیا۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار بھٹو جونیئر کی نمائندگی زاہد ابراہیم کر رہے ہیں، آئندہ سماعت کی تاریخ بعد میں بتائی جائے گی، انتخابات قریب ہیں، اہم مقدمات آنے کی وجہ سے یہ کیس جلد نہیں سن سکتے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت انتخابات کے بعد فروری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کر دی گئی۔
Comments are closed.