بلوچستان میں 250 سے زائد سرکاری اسپتالوں کا وجود صرف کاغذات میں ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کی بلوچستان میں صحت کی سہولتوں سے متعلق رپورٹ کے مطابق صوبے میں سرکاری دستاویزات میں 1661 اسپتال، بنیادی مراکزِ صحت، رورل ہیلتھ سینٹرز اور دیگر طبی مراکز ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 257 طبی اداروں کا وجود صرف فائلوں کی حد تک محدود ہے، اس کے علاوہ 656 طبی مراکز جزوی طور پر ہی فعال ہیں۔
اندرونِ صوبہ عوامی نمائندوں کے مطابق بلوچستان کے 50 فیصد بنیادی مراکزِ صحت بند پڑے ہیں۔
صوبے کے 1661 بیسک ہیلتھ یونٹس اور اسپتالوں میں سہولتوں کا جائزہ لیں تو 87 فیصد بلڈنگز تعمیر و مرمت نہ ہونے کی وجہ سے تباہ حال ہیں، 43 فیصد میں طبی آلات جزوی طور پر ناکارہ ہو چکے ہیں۔
بلوچستان کے 887 طبی مراکز اور اسپتالوں میں میڈیکل آلات طبی بنیادوں پر صاف کرنے کی سہولت ہی موجود نہیں۔
صوبائی وزیرِ صحت خود تسلیم کرتے ہیں کہ صوبے میں غیر فعال اسپتالوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے، جن میں ادویات اور سہولتیں دستیاب نہیں ہیں۔
بلوچستان کے بجٹ میں محکمۂ صحت کے لیے ہر سال 40 سے 50 ارب روپے مختص ہونے کے باوجود محکمے کی ابتر حالت حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔
صحت کے شعبے کے حوالے سے حکومتی ترجیحات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ 5 سال میں ایک درجن سے زائد سیکریٹری صحت تبدیل ہو چکے ہیں لیکن محکمے کی کارکردگی میں بہتری نہ آ سکی۔
Comments are closed.