برطانیہ کے شہر بریڈفورڈ میں مقیم پاکستانی برادری میں’کزن میرج‘ کے رجحان میں بڑی کمی آئی ہے۔
’بورن اِن بریڈفورڈ‘ کے نام سے کی گئی ایک ریسرچ کے مطابق گزشتہ 10 سالوں کے دوران بریڈفورڈ میں مقیم پاکستانی برادری میں’کزن میرج‘ کے رجحان میں بڑی کمی آئی ہے اور اس کی ممکنہ وجوہات اعلیٰ تعلیم کا حصول، نئے خاندانی رجحانات اور امیگریشن کے قوانین میں تبدیلی ہے۔
بریڈفورڈ کی رہائشی جویریہ احمد نے’کزن میرج‘ کے حوالے سے اپنے بچوں کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بارے میں انکشاف کیا کہ میرے بچوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں ان کے والد سے کیسے ملی تھی؟ تو میں ان پر ہنسی اور اُنہیں بتایا کہ میں خود ان کے والد سے نہیں ملی تھی کیونکہ ہماری شادی والدین کی مرضی سے ہوئی تھی۔
جویریہ احمد نے بتایا کہ جب میں نے اپنے بچوں کو یہ بتایا کہ میرے والدین مجھے پاکستان لے کر گئے اور وہاں جا کر مجھے بتایا کہ فلاں شخص سے میری شادی ہونی ہے تو میں یہ تو جانتی تھی جس سے میری شادی ہو رہی ہے وہ کون ہیں لیکن پہلی بار میں ان سے ٹھیک طرح سے شادی کے موقع پر ہی ملی تھی تو میرے بچوں نے کہا کہ’ یہ انتہائی ناگوار طریقہ ہے‘ اور ساتھ ہی مجھ سے یہ سوال بھی کیا کہ ’کیا اب آپ ہمارے ساتھ تو ایسا کچھ کرنے کا نہیں سوچ رہیں؟‘
یاد رہے کہ 10 سال پرانی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ پاکستانی برادری 60 فیصد بچوں کے والدین ایسے تھے جو فرسٹ یا سیکنڈ کزن تھے، جبکہ اب حالیہ تحقیق میں’کزن میرج‘ کے رجحان میں 46 فیصد تک کمی دیکھی گئی ہے۔
Comments are closed.