’اگر ہمیں پتا چل گیا کہ آپ ہم جنس پرست ہیں تو آپ کو 20 سال تک جیل میں رہنا پڑے گا‘

ہم جنس پرست

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, کینی پیری
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

یہ افریقہ کے ملک ایتھوپیا میں ہونے والی ایک ڈانس پارٹی کا ذکر ہے جہاں رقص کرنے والے دو افراد کا ویڈیو کلپ ٹِک ٹاک پر سامنے آیا تو اس جوڑے کے خلاف ایک طوفان سا آ گیا۔ معاملہ اس حد تک پہنچ گیا کہ ان میں سے ایک کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔

پارٹی میں ڈانس کرنے والے اس جوڑے کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ ان کی ویڈیو بنائی جا رہی ہے۔ ان کی ویڈیوز ابتدائی طور پر انسٹاگرام پر پوسٹ کی گئیں جہاں سے کسی نے ٹِک ٹاک پوسٹ بنانے کے لیے ان کا سکرین شاٹ لیا جو وائرل ہو گیا۔

ان میں سے ایک آرنلڈ (تحفظ کی خاطر نام تبدیل) نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں اس (ہم جنس پرست کے طور پر) طرح نہیں دیکھا جانا چاہتا تھا، لیکن سوشل میڈیا نے میری شناخت ظاہر کر دی۔‘

ایتھوپیا کے 20 سالہ طالب علم کا کہنا ہے کہ ’اب ہر کوئی جانتا ہے کہ میں کون ہوں، اور میری جنسی شناخت کیا ہے۔‘

اقوام متحدہ کے مطابق ایتھوپیا میں ہم جنس پرستی غیر قانونی ہے اور اس کی سزا 10 دن سے لے کر تین سال تک قید ہے۔

آرنلڈ کا کہنا ہے کہ ’ایک ایسے ملک میں شناخت یا جنسیت کے بارے میں کھل کر سامنے آنا خطرناک ہو سکتا ہے جہاں آپ کے پڑوسی قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہوں۔‘

ان کا زندگی بدل دینے والا رقص دارالحکومت ادیس ابابا میں مئی کے مہینے میں منعقدہ ایک سماجی تقریب میں سامنے آیا تھا۔

اس تقریب میں لوگوں کی دلچسپی کے لیے دستکاری کے نمونے تھے اور گیت و موسیقی کے انتظامات تھے۔

ہم جنس پرست

،تصویر کا ذریعہGetty Images

آرنلڈ نے کہا کہ ’ہم شراب پی رہے تھے، مزے کر رہے تھے۔ ہم اپنے آپ میں مگن تھے۔‘

دو دن بعد ہی انھیں پتا چل گیا کہ اس شام کی ان کی ویڈیوز ان کی رضامندی کے بغیر آن لائن پوسٹ کی گئی ہیں اور پوسٹ کرنے والے شخص ممکنہ خطرات سے بے خبر تھے۔

انھوں نے بتایا کہ ’کچھ لوگوں نے اسے ٹِک ٹاک پر دیکھا۔ میں (یہ جان کر) بہت خوفزدہ ہو گيا اور مجھے خطرہ محسوس ہوا۔‘

جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا۔ کچھ دن بعد آرنلڈ کو لنچ بریک کے دوران نشانہ بنایا گیا۔

انھوں نے بتایا کہ ’جب میں ریستوران سے نکلا تو کچھ لوگوں نے مجھے گھیر لیا اور کہنے لگے کہ انھوں نے مجھے اس ویڈیو میں دیکھا ہے اور مجھ سے کہا کہ میں یہ تسلیم کروں کہ میں ہم جنس پرست نہیں ہوں۔‘

’مجھے 12 لوگ گھیرے ہوئے تھے، پھر ان میں سے دو نے مجھے مارنا شروع کر دیا۔ میں بھاگنے میں کامیاب ہو گیا لیکن انھوں نے مجھے دوبارہ پکڑ لیا اور میرے چہرے پر مارا اور میرے گال کی ہڈی توڑ دی۔‘

آرنلڈ نے سوچا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صورتحال ٹھیک ہو جائے گی لیکن پھر جولائی میں ایک اور ٹِک ٹاک ویڈیو پوسٹ کی گئی جسے لاکھوں افراد نے دیکھا۔

اس میں آرنلڈ سمیت پارٹی کے لوگوں کی تصاویر کے ساتھ ایک سلائیڈ شو تھا اور اسے اس عنوان کے تحت شائع کیا گيا تھا کہ ’یہ ایتھوپیا میں آزادانہ طور پر رہنے والے ہم جنس پرست لوگ ہیں۔‘

ایسا لگا جیسے کوئی نہ رکنے والی آگ جل اٹھی ہو۔ ’یہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور انھوں نے خاص طور پر میرا نام اور میرا پتہ جاننے کی کوشش کی۔‘

’میرا نام پورے سوشل میڈیا پر چھایا ہوا تھا۔ میں گھر سے بھاگ کھڑا ہوا۔ وہ میری زندگی کے سب سے خوفناک دن تھے، اگر میں انھیں مل جاتا تو وہ 100 فیصد مجھے مار ڈالتے۔‘

ہم جنس پرست

،تصویر کا ذریعہAFP

ایک ماہ بعد ادیس ابابا پیس اینڈ سکیورٹی آفس نے ہوٹلوں اور شراب خانوں میں ہم جنس پرست سرگرمیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان کیا اور ایک ہاٹ لائن کھولی، جس میں عوام پر زور دیا گیا کہ وہ اگر کوئی ایسی ’گھناؤنی حرکت‘ دیکھتے ہیں تو اس کی رپورٹ کریں۔

ایک دوست کے یہاں چھپنے کے بعد آرنلڈ کا یورپ میں مقیم ایتھوپیا کے پانچ رضاکاروں کے ایک گروپ سے رابطہ کرایا گیا۔

اس گروپ کو ’ہاؤس آف گورامائل‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور وہ ایتھوپیا سے ایل جی بی ٹی کیو پلس لوگوں کو محفوظ طریقے سے نکالنے کا کام کرتے ہیں اور ان کے لیے فنڈز اکٹھا کرتے ہیں۔ انھوں نے آرنلڈ کو ملک سے فرار ہونے میں مدد کی۔

یہ رضاکار ان پہلے لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے لوگوں کو ہراساں کرنے اور ان کی ڈوکسنگ کرنے کے ٹِک ٹاک ویڈیوز دیکھیں اور نجی معلومات کے آن لائن لیک ہونے کے رجحان کو دیکھا۔

فارس کوچی گیزاہگن اپنے لیے ’ہم‘ کو ذاتی ضمیر کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ ہاؤس آف گورامائل کے شریک بانی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آرنلڈ کا سوشل میڈیا پر ظاہر ہونا ایک ایسی بات ہے جس سے بہت سارے افریقی تعلق رکھ سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ویانا میں اپنے اپارٹمنٹ سے گیزاہگن کہتے ہیں: ’ہمارے لیے اپنی جنسی شناخت ظاہر کرنا زیادہ تر وقت ہمارے لیے اچھا نہیں ہوتا ہے۔‘ ایل جی بی ٹی پلس کی حمایت والی سرگرمیوں نے جب ان کی جان کو خطرے میں ڈال دیا تو وہ آسٹریا بھاگ گئے۔

ان رضاکاروں نے 110 ٹِک ٹاک ویڈیوز مرتب کی ہیں جو کہ اب ڈیلیٹ کر دی گئی ہیں۔ ان میں وہ ویڈیوز بھی شامل ہیں جنھوں نے آرنلڈ کی مشکلات بڑھا دی تھیں۔

کچھ ویڈیوز میں لوگوں کو سرعام مارے پیٹے جانے، لاتیں یا گھونسے مارے جاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ بعض میں لوگوں کی تصاویر کے ساتھ ان کے نام اور پتے کمنٹس میں پوچھے جا رہے ہیں۔

ٹک ٹاک

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایک ویڈیو میں ایک مشہور انجیلی مسیحی پادری یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ’ایل جی بی ٹی کیو پلس لوگوں کو برہنہ کرکے عوام میں کوڑے مارے جانے چاہیے۔‘

ان کی یہ ویڈیوز حذف ہونے سے پہلے ہفتوں تک ٹِک ٹاک پر گشت کرتی رہیں، اس دوران انھیں لاکھوں بار دیکھا گیا۔

گیزاہگن نے اس قسم کے مواد کے ہٹانے میں تاخیر کا سبب بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس قسم کے زیادہ تر مواد ہماری مقامی زبانوں امہاری اور بعض اوقات افان اورومو اور ٹگرینیا زبانوں میں بھی تیار کی جا رہی ہیں۔‘

ہاؤس آف گرامائل اب سوشل میڈیا کمپنی کے ساتھ ایسی ویڈیوز کی نشاندہی کرنے کے لیے کام کرتا ہے جن میں ایل جی بی ٹی کیو پلس کے زمرے میں آنے والے لوگوں کو ہراساں کرنے اور ان پر تشدد کرنے کی بات ہوتی ہے۔

گیزاہگن کا کہنا ہے کہ جس طرح سے مواد کی نگرانی کی جاتی ہے اس کی فعال تنظیم نو کے بغیر ان کا پکڑ پانا بہت مشکل ہوگا۔

بی بی سی نے اس مضمون کے لیے ٹک ٹاک سے انٹرویو لینے کی بات کی تو اس نے انکار کر دیا لیکن اس نے کمیونٹی گائیڈ لائنز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم یہ دیکھنے کے لیے پرعزم ہیں کہ ہماری پالیسیاں اور طریقے منصفانہ اور مساوی ہیں، اسی لیے ہم نئی پالیسیاں بناتے وقت عالمی اداروں کے ساتھ مشاورت کرتے ہیں۔ ہم موجودہ پالیسی کو اپ ڈیٹ کرتے ہیں اور نئی حفاظتی فیچرز بناتے وقت اس بات کا خیال رکھتے کہ اس سے ایل جی بی ٹی کیو پلس برادری کے اراکین کو فائدہ ہو سکے۔‘

ٹِک ٹاک سے منسلک یہ مسائل ایتھوپیا تک محدود نہیں ہیں۔

ہم جنس پرست

یوگینڈا کی ہم جنس پرست خاتون سیلیا کہتی ہیں کہ انھیں بھی اس قسم کے تجربات کا سامنا کرنا پڑا۔ انھوں نے اپنے تحفظ کے لیے اپنا نام تبدیل کرنے کی درخواست بھی کی۔

یوگنڈا میں سنہ 1962 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد سے ہی ہم جنس تعلقات غیر قانونی ہیں۔ لیکن رواں سال حکومت نے ہم جنس پرستوں کے خلاف اضافی سخت قانون سازی کی ہے اور اس کے تحت اب جو بھی ہم جنس پرستی میں ملوث ہونے کا مرتکب پایا جائے گا اسے عمر قید ہو گی اور جو حد سے زیادہ اس میں ملوث پایا گیا یعنی بچوں اور کمزور لوگوں کے ساتھ ایسا کرتا پایا گیا تو اسے سزائے موت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

سیلیا کہتی ہیں کہ دارالحکومت کمپالا میں ایک پڑوسی کی طرف سے اطلاع دیے جانے کے بعد انھیں اور ان کی گرل فرینڈ کو گرفتار کر لیا گیا۔ ’انھوں نے (پولیس) ہم سے کہا کہ اگر ہمیں پتا چل گیا کہ آپ ہم جنس پرست ہیں، تو آپ کو 20 سال تک جیل میں رہنا پڑے گا۔‘

انھوں نے دو دن جیل میں گزارے۔ گرفتاری کی سرکاری دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ انھیں منشیات رکھنے کے شبے میں گرفتار کیا گیا تھا۔

سیلیا کہتی ہیں: ’انھوں نے (میری فائل پر) مجھے رہا کرنے کے لیے یہی لکھا تھا، کیونکہ ان کے پاس ہمارے ہم جنس پرست ہونے کے شواہد نہیں تھے۔‘

فعال ٹِک ٹاک استعمال کرنے والے اس جوڑے کو گرفتاری کے بعد آن لائن بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ جب بھی کوئی چیز پوسٹ کرتے انھیں ٹرول کیا جاتا اور انھیں دھمکیاں بھی موصول ہوئیں۔ اپنی حفاظت کے خوف سے وہ مارچ میں کینیا فرار ہو گئیں۔

افریقہ میں ٹِک ٹاک کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے ساتھ افریقی براعظم کے آس پاس کے متعدد ممالک سے مواد کو معتدل بنانے یا سنسر کرنے کی بات کہی جا رہی ہے۔ اگست میں سینیگال اور صومالیہ دونوں نے سوشل میڈیا ایپ پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا۔

ہم جنس پرست

،تصویر کا ذریعہEMPICS

سینیگال میں یہ پابندی بنیادی طور پر سیاسی بنیادوں پر تھی جہاں حزب اختلاف ٹِک ٹاک کو مظاہروں کو منظم کرنے کے لیے استعمال کر رہی تھی۔ صومالی حکام نے کہا کہ اسے دہشت گرد گروپ اور ’غیر اخلاقی مواد پھیلانے کے ذمہ دار‘ دوسرے لوگ استعمال کر رہے ہیں۔

سماجی طور پر قدامت پسند کینیا میں ایک تاجر نے اگست میں ارکان پارلیمنٹ سے ٹِک ٹاک کو غیر قانونی قرار دیے جانے کی درخواست کی، اور متنبہ کیا کہ کچھ مواد ’کینیا کی ثقافتی اور مذہبی اقدار کے لیے سنگین خطرہ‘ ہو سکتے ہیں۔

اس کی وجہ سے کینیا میں مواد کے تخلیق کاروں کو دھچکہ پہنچا تاہم وہاں سراسر پابندی کے بجائے ریگولیٹری فریم ورک نافذ کرنے کی بات کہی گئی۔ رواں سال ستمبر میں کینیا کے صدر ولیم روٹو نے ٹِک ٹاک کے سی ای او شو زی چیو سے مختلف قسم کے حدود عائد کرنے کے لیے بات کی۔

ورچوئل میٹنگ کے بعد صدر روٹو کے دفتر نے کہا کہ ’نامناسب یا جارحانہ مواد کو پلیٹ فارم سے خارج کر دیا جائے گا۔‘

اگرچہ ایل جی بی ٹی کیو پلس برادری کے اراکین کو ملک بدر کرنے اور ہراساں کرنے کے لیے ٹِک ٹاک کا استعمال کیا گیا اس کے باوجود متاثرہ افراد اس پر پابندی لگانے کے خلاف ہیں۔

سیلیا کہتی ہیں: ’ہمیں یہاں بہت ساری پریشانیوں کا سامنا ہے لیکن میرے خیال سے اپنے بارے میں بتانے کے لیے ٹِک ٹاک ایک اچھا پلیٹ فارم ہے کہ ہم کون ہیں اور یہ کہ ہم کسی کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے۔‘

’ہم صرف انسان ہیں۔‘

آرنلڈ ان سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ امید کرتے ہیں کہ ایک دن وہ ایتھوپیا اپنے گھر واپس آئيں گے اور وہ اپنے تجربے کو مثبت انداز میں استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’میں نفسیات اور انسانی حقوق کا مطالعہ کرنا چاہتا ہوں کیونکہ یہ مجھے اپنی کمیونٹی کی مدد کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔‘

’میں نہیں چاہتا کہ کوئی اس سے گزرے جس سے میں گزرا ہوں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ