چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ اگر کوئی فیصلہ چیلنج نہیں ہوتا ہے تو وہ حتمی ہوتا ہے، آئین کے ساتھ کھڑے ہیں تو سپریم کورٹ کا ساتھ دینا ہوگا۔
لاہور میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات جاری ہیں، دیکھتے ہیں اب کیا ہوگا، عدالتیں ایگزیکٹو آرڈر پاس نہیں کرسکتیں، عدالتوں کے فیصلوں کی اخلاقی اتھارٹی ہوتی ہے، آئین کا تحفظ ہمارے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ججوں کو انصاف فراہم کرنا ہے تو ان میں جسٹس کارنیلیئس جیسے اوصاف ہونے چاہئیں، جسٹس کارنیلیئس کی زندگی دیگر ججز کےلیے مثال ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس کارنیلیئس 1960 سے 1968 تک چیف جسٹس رہے۔ جسٹس کارنیلیئس جب ریٹائر ہوئے تو ان کے کوئی اثاثے نہیں تھے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جسٹس کارنیلیئس نے گورنرجنرل کے اسمبلی توڑنے کو غیر قانونی قرار دیا تھا، جسٹس کارنیلیئس کی زندگی ججز کے لیے مثال ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس کارنیلیئس نے کہا ایگزیکٹو آفیسر بنیادی حقوق کا فیصلہ نہیں کرسکتے، عدالتوں کے فیصلوں کی اخلاقی اتھارٹی ہوتی ہے، آئین کا تحفظ ہمارے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 1964 میں دو صوبوں نے جماعت اسلامی پر پابندی لگائی، مولانا مودودی کیس میں پابندی ہٹادی گئی، جسٹس کارنیلیئس نے کہا یہ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان کے تحت ہر ایک کو مذہبی آزادی حاصل ہے، پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے، پاکستان کا آئین اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا ضامن ہے، تین دہائیوں کے دوران انتہا پسندی کے باعث بےشمار جانیں گئیں۔
Comments are closed.