1977 کا مارشل لا: ذوالفقار بھٹو کے دور حکومت کے خاتمے کو امریکی سفارت خانہ کیسے دیکھ رہا تھا؟
- وقار مصطفیٰ
- صحافی و محقق
بیس دسمبر 1971 سے 13 اگست 1973 تک پاکستان کے صدر اور پھر 14 اگست 1973 سے وزیراعظم رہنے کے باعث ذوالفقار علی بھٹو، 1976 کے اواخر تک اقتدار کے پانچ سال مکمل کر چکے تھے۔
وزارت عظمیٰ کی پانچ سالہ مدت پوری ہونے میں البتہ لگ بھگ ڈیڑھ سال باقی تھا۔ ادھر امریکہ میں ڈیموکریٹ امیدوار جمی کارٹر انتخابات جیت کر صدارت سنبھالنے کو تھے۔ یہ معمول ہے کہ ہر ملک کا سفارت خانہ اپنی تعیناتی کی جگہ کے حالات سے اپنی حکومت کو آگاہ کرتا، اس سے ہدایات لیتا اوراس کی پیغام رسانی کرتا ہے۔
یہ عمل عام طور پر خفیہ رہتا ہے مگر امریکی قوانین کے تحت ایک خاص عرصہ کے بعد اہم پالیسی امور سے متعلق یہ دستاویزات امریکی محکمہ خارجہ کو اپنے دفتر تاریخ کے ذریعہ افشا کرنا ہوتی ہیں۔
مورخ کے بھلے کو بیشتر معاملہ طشت ازبام ہو جاتا ہے کیوںکہ پیغامات یا خطوط کے حاشیہ میں لکھے الفاظ بھی حذف نہیں کیے جاتے۔
امریکہ اور پاکستان کے بنتے، بگڑتے تعلقات کی ہماری آج کی کہانی ڈی کلاسیفائیڈ یا افشا کیے گئے ان ٹیلی گرامز، ایرگرامز(خطوط) اور پیغامات پر مبنی ہے جن کا تبادلہ پاکستان میں امریکی سفارت خانے اور امریکی حکومت کے درمیان پاکستانی تاریخ کے اہم ترین برسوں میں سے ایک ، 1977 میں ہوا۔
چودہ جنوری 1977 کو ایک ٹیلی گرام میں امریکی سفارت خانہ نے بھٹو کے اقتدار کے پانچ سال مکمل ہونے پر کیے گئے تجزیہ پر مبنی ایک روز پہلے بھیجے گئے ایئر گرام کا خلاصہ یوں کیا:
‘وزیر اعظم پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر محیط ہیں اور اس عمل میں ہونے والی ملک کے اداروں کی کایا پلٹ نے اس امر کو ممکن بنانے میں مدد کی ہے۔ پانچ سال میں ان کی روک ٹوک کے بغیر بڑھتی طاقت اور شخصیت پرستی سے گویا اردشاہی بھٹو نے جنم لیا ہے۔ ہمارا اندازہ یہ ہے کہ بھٹو اپنے اقتدار میں آنے کے پہلے دنوں کی نسبت اب کم مقبول ہیں۔ بھٹو نظام، مرکز میں وزیر اعظم کی طاقت ور شخصیت پر بہت زیادہ منحصر ہے، اور یوں ان کے ذاتی انداز کا عکاس ہے۔ امکان ہے کہ موجودہ شکل میں سیاسی منظر سے ان کے چلے جانے کے بعد یہ قائم نہیں رہ پائے گا۔‘
امریکی سفیر ہینری بائروڈ کے اس ٹیلی گرام سے پہلے پانچ جنوری کو حزب اختلاف کی نو جماعتیں پاکستان قومی اتحاد کے نام سے متحد ہو چکی تھیں۔ ذوالفقار بھٹو نے سات مارچ 1977 کو قبل از وقت عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیا۔
بائروڈ، جو 23 اپریل 1977 تک پاکستان کے سفیر رہے، نے اپنے 28 فروری کے ٹیلی گرام میں امریکی وزیر خارجہ سائرس وینس کو لکھا: ’بھٹو اگر معمولی اکثریت سے جیت جاتے ہیں تو قیاس ہے کہ ہم ایک غیر موثر حکومت کے دور میں داخل ہوں گے۔ اگر اپوزیشن جیتی تو حکومت میں انتشار شاید زیادہ ہی واضح ہو کیونکہ حزب اختلاف کے مابین بہت کم ہم آہنگی ہے اور عنانِ اقتدار سنبھالنے یا ملک چلانے کے بارے میں ان کی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں۔‘
تین مارچ 1977 کو نئے امریکی صدر جمی کارٹر نے وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کو خط میں ‘ماضی کی مشکلات اور غلط فہمیوں سےقطع نظر’ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کی مضبوطی، چین کے ساتھ تعلقات اور ایٹمی عدم پھیلاؤ میں مدد کے لیے براہ راست رابطہ کی خواہش کا اظہار کیا۔
دس مارچ کا ٹیلی گرام یہ تھا: ’خلاصہ: انتخابات کے بعد وزیر اعظم بھٹو نے اپنا غالب مقام برقرار رکھا ہے۔۔۔ ہمارا غیر حتمی خیال یہ ہے کہ شاید سات مارچ کو کافی دھاندلی ہوئی تھی۔ گو کہ عام تاثر یہ ہے کہ سات مارچ کو حزب اختلاف کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے ، ہمیں اس امر میں کوئی شک نہیں کہ حکومت جلد ہی اس چیلنج پر قابو پا لے گی۔’
اسلام آباد سے 12 مارچ کو ٹیلی گرام کے ذریعے، سفارت خانے نے اطلاع دی کہ ’پاکستان قومی اتحاد کی قیادت نے پیر 14 مارچ سے پاکستان بھر میں مطالبات پورے ہونے تک مظاہروں کا اعلان کیا۔ پی این اے کے مطالبات یہ ہیں (1) وزیر اعظم ذوالقفار بھٹو کا استعفیٰ ، (2) نئے الیکشن کمیشن کا تقرر، (3) صدر کی جانب سے پی این اے کی مشاورت سے پاکستان میں عبوری حکومت کا قیام ، (4) عبوری حکومت کے ذریعہ فوج کی معاونت سے نئے انتخابات کا انعقاد۔’
تیرہ مارچ کے ٹیلی گرام میں، سفارت خانے نے بھٹو کے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھانے تک مبارکباد کا پیغام ملتوی کرنے کی سفارش کی کیونکہ ‘اب بھیجا ہوا پیغام انتخابات کی متنازع شفافیت کے بارے میں ہمارے سوچے سمجھے فیصلے کا عکاس سمجھا جا سکتا ہے۔’
چودہ مارچ کے ٹیلی گرام کا خلاصہ یہ تھا: ‘بھٹو کواس بڑھتے ہوئے عوامی تاثر کا سامنا ہے کہ انھوں نے سات مارچ کو بڑے پیمانے پر دھاندلی کی۔ ہمیں اس خیال کی حمایت میں رپورٹس موصول ہوتی رہتی ہیں۔ وزیر اعظم نے 12 مارچ کو قوم سے خطاب میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اور الیکشن کمیشن میں اپیلوں کے ذریعہ پی این اے کو قومی اسمبلی میں اپنی نشستوں میں اضافہ کی امید دلائی ہے۔ انھوں نے کہا کہ تشدد کو آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ انھوں نے قومی اتحاد کے رہنما مفتی محمود کو خط میں ‘غیر مشروط’ مذاکرات کی پیش کش کی ہے۔’
‘پاکستانی پریس ،بشمول حکومتی اخبارات کے، حیران کن طور پر اپوزیشن کے بیانات اور سرگرمیوں کو مکمل اور درست کوریج دے رہا ہے اور یہ ابھی تک انتخابی مہم سے پہلے کی حزب اختلاف کی خبروں کے تقریباً بلیک آؤٹ کی روش پر واپس نہیں آیا ہے۔’
23 مارچ کا ٹیلی گرام کچھ یوں تھا: ‘(چند روز پہلے) کراچی میں اس قدر تشدد برپا ہوا کہ امن کی بحالی کے لیے فوج کو بلانا اور مزید تشدد کو روکنے کے لیے سخت کرفیو نافذ کرنا پڑا۔ اپوزیشن کا پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور واحد بندرگاہ کو بند کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بھٹو کو کیسے گھمبیر مسائل درپیش ہیں۔’
25 مارچ کے ٹیلی گرام میں بیان ہے: ‘قومی اتحاد کی جانب سے مذاکرات کی پیش کش مسترد کیے جانے کے بعد بھٹو نے حزب اختلاف سے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بیشتر بڑے رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا ہے اور چاروں صوبوں میں لٹیروں اور فسادیوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔ مظاہرے ہو رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کا اجلاس کل بروز پیر، 26 مارچ کو ہو گا۔’
تیس مارچ کو اسلام آباد بھیجے گئے ٹیلی گرام میں، کارٹر نے بھٹو کو ان کے عہدے پر فائز ہونے پر مبارکباد کا مختصر پیغام بھیجا۔ تیرہ اپریل کے ٹیلی گرام میں ان ‘افواہوں’ کا تذکرہ ہے کہ امریکہ پاکستان قومی اتحاد کی مالی امداد اور حمایت کر رہا ہے۔
اس میں کہا گیا کہ ’پاکستانی فطری طور پر سیاست کو سازشی نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ پی این اے کی اپنے قلیل وسائل سے کہیں زیادہ مہم کے فنڈز اکٹھا کرنے کی ظاہری صلاحیت سے اس شبہ کو تقویت ملی کہ اس میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہے۔ ایسا لگتا ہے (حزب اختلاف کے رہنما) ایئر مارشل اصغر خان کو کسی نہ کسی طرح امریکہ کا ‘قریبی’ ساتھی جاننے اور اس الزام کے باعث کہ امریکہ فطری طور پر ایک ‘قدامت پسند’ پی این اے حکومت کو ‘ترقی پسند’ اور فعال بھٹو حکومت پر ترجیح دے گا تاکہ فرانسیسی ری پروسیسنگ معاہدہ روکا جا سکے امریکہ کے ملوث ہونے کے خیال کو تقویت ملی ہے۔’
‘اس سب میں پاکستان حکومت کے ہاتھ کا تعین کرنا مشکل ہے۔ تاہم ایچ کے برکی کا 26 مارچ کا پاکستان ٹائمز کا اشتعال انگیز مضمون صرف حکومت کی اجازت ہی سے چھپ سکتا تھا۔۔۔ ہمارے لحاظ سےانتہائی پریشان کن لائن حزب اختلاف کی بات کرتے ہوئے یہ تبصرہ ہے کہ ‘احتجاج کی تنظیم اور اس کے حجم اور نہ ختم ہونے والی رقوم سے ایسا لگتا ہے کہ سامراجی طاقتیں جو انڈونیشیا کے آپریشن (ہم سکارنو کی حکومت کا تختہ الٹنے کا حوالہ مانتے ہیں) کے پیچھے تھیں اب پاکستان میں اس خونی مہم جوئی کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔’
دوروز بعد اپنی پہلی تقریر میں بھٹو نے حزب اختلاف کی مالی اعانت کے الزامات سے امریکہ اور دیگر طاقتوں کو پاک قرار دے دیا۔ لیکن وزیر اعظم نے جس طرح سے بات کی اس سے بہت سے لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ امریکہ اس میں ملوث رہا۔
وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ ‘اگر ہمیں 25 کروڑ روپے میں سے آدھے بھی مل جائیں توہم انسانی حقوق پر بھی بات چیت کے لیے تیار ہوں گے’ کو اس کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ (سفارت خانہ اس سے متفق نہیں) ابھی حال ہی میں، کونسل جنرل، کراچی نے اطلاع دی کہ وزیر خارجہ عزیز احمد نے وہاں مسلح افواج کے افسران کو مخاطب کیا اور بتایا کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ نے قومی اتحاد کو 280 ملین روپے فراہم کیے۔ یہاں روئٹرز کے باخبر نمائندے ہمیں بتاتے ہیں کہ عزیز احمد نے ملتان میں افسران کے ایک اجتماع میں بھی ایسا ہی الزام لگایا تھا۔’
انیس اپریل کو اسلام آباد سے اطلاع دی گئی کہ 18 اپریل کو بھٹو کی طرف سے بائروڈ کے لیے الوداعی عشائیے میں، بھٹو نے کہا کہ ‘وہ مجھ پر ذاتی طور پر بھروسہ کرتے ہیں لیکن میرے کچھ لوگوں کی باتوں اور سرگرمیوں کے بارے میں فکر مند ہیں جو شاید میرے علم میں نہ ہوں۔ میں نے ان سے کہا میری کمان میں ہر شخص کو میری سخت ذاتی ہدایات کا علم ہے کہ وہ داخلی سیاست سے مکمل طور پر دور رہیں۔ لوگوں کو موقع پر فارغ کرنے کی میری ساکھ مشہور ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ میری کمان میں کوئی شخص میری حکم عدولی کرے گا۔ (اس میں ایک سطر افشا نہیں کی گئی)
20 اپریل کے ٹیلی گرام کا خلاصہ یہ تھا: ’بھٹو اور اپوزیشن کے مابین تنازع بڑھتا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے اب پاکستان قومی اتحاد کے پیروکاروں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے حامیوں کو سڑکوں پر بھیج دیا ہے۔ بھٹو اپوزیشن سے مذاکرات کی پیش کش اب بھی کر رہے ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ حزب اختلاف تشدد میں اضافہ اور ضروری عوامی خدمات میں خلل ڈال کر ملک کو مفلوج کرے گی۔ مفتی محمود نے اب نئے انتخابات کے لیے صدارتی نظام کا مطالبہ کیا ہے۔ حالات کا بگاڑ جاری ہے۔ فوج تنازع کی طرف راغب نہیں ہونا چاہتی اور آئینی حل چاہتی ہے۔ فوج کو اقتدار سنبھالنے یا بدامنی ہوتے دیکھتے رہنے میں کسی ایک راستہ کا انتخاب کرنا پڑا تو وہ ہچکچاتے ہوئے اول الذکر کا انتخاب کرے گی۔’
چھبیس اپریل کو امریکی سفارت خانے کو بھیجے گئے امریکی محکمہ خارجہ کے ٹیلی گرام میں سفیر صاحب زادہ یعقوب خان کی انڈر سیکرٹری فلپ حبیب سے ایک روز پہلے کی ملاقات کا احوال ہے۔ ’حبیب نے اس امید کا اظہار کیا کہ اپوزیشن کے ساتھ بات چیت ہوگی لیکن زور دیا کہ امریکہ پاکستان کی داخلی فیصلہ سازی میں خود کو شامل نہیں کرے گا۔ یعقوب نے بتایا کہ پاکستان میں ایک ‘باضابطہ رائے’ موجود ہے کہ ایک غیر ملکی طاقت، جسے اکثر امریکا کے طور پر جانا جاتا ہے ، مالی یا کسی اور طرح سے حزب اختلاف کی حمایت کر رہا ہے۔ آنسو گیس کی کھیپ معطل کرنے کے امریکی فیصلے کو امریکا کے اس معاملہ میں فریق بننے کی مثال کے طور پر استعمال کیا گیاحالانکہ انھیں ذاتی طور پر اس بات کا یقین ہے کہ ایسا نہیں ہے۔’
یہ بھی پڑھیے
وینس کے ٹیلی گرام کے آخر میں کہا گیا کہ امریکی حکومت کے بارے میں پاکستانی حکومت کی واضح تشویش کے پیش نظر اعلیٰ ترین مناسب عہدہ دار اپنی پوزیشن واضح کریں۔
واشنگٹن سے 27 اپریل کوصدر کے معاون برائے قومی سلامتی امور (زبگنیو برزنزکی) کی صدر کارٹر کے لیے یادداشت میں کہا گیا کہ کل ہمارے نائب سفیر نے سیکریٹری خارجہ آغا شاہی سے بڑھتے ہوئے امریکہ مخالف بیانات پراحتجاج کیا۔ سیکرٹری خارجہ نے جواب دیا کہ امریکہ مخالف نعروں کو وزیر اعظم سمیت کسی بھی صاحب اختیار کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ اسلام آباد سفارت خانے کے خیال میں احتجاج سے امریکہ مخالف الزامات مکمل طور پر تو نہیں رکیں گے لیکن اس سے حکومت احتیاط کی ضرورت پر قائل ہو جائے گی اور اس میں اضافہ رک جائے گا۔ اس خفیہ یادداشت کے اوپری حصہ پر کارٹر کے مختصر دستخط ہیں۔
ستائیس اپریل کو اسلام آباد سے ٹیلی گرام میں، (پیٹر) کانسٹیبل نے اسی ملاقات کے حوالہ سےکہا کہ انھیں شاہی نے بتایا: ‘حکومت کو ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصہ سے قومی اتحاد کو غیر ملکی رقوم دیے جانے کی اطلاعات مل رہی ہیں اورانھوں نے جان بوجھ کر یہ معاملہ امریکہ کے ساتھ نہیں اٹھایا۔’
اٹھائیس اپریل کو امریکی محکمہ خارجہ نے ایک ٹیلی گرام میں سائرس وینس کا پاکستانی وزیراعظم کے لیے پیغام پاکستان میں اپنے سفارت خانہ کو بھیجا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ ‘یہ جان کر تشویش ہوئی کہ 28 اپریل کو پارلیمان میں ایک تقریر میں آپ نے امریکہ پر شدید تنقید کی اور ہم پر پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کیا۔ (وینس نے ایک یادداشت میں کارٹر کو بتایا کہ بھٹو نے قومی اسمبلی کو آگاہ کیا ہے کہ امریکہ ان کے مخالفین کے لیے بڑی تعداد میں ڈالر بھیج رہا ہے۔ انھوں نے امریکہ کے لیے صرف ایسی ‘سپرپاور’ کی ترکیب استعمال کی جو پہلے ویت نام میں ملوث تھی۔ بھٹو نے کہا کہ ‘اسلامی ملک پاکستان کے خلاف عالمی سازش ہو رہی ہے۔’ انھوں نے الزام لگایا کہ دو امریکی سفارت کاروں نے سات مارچ کے انتخابات کے بعد فون پر ہونے والی گفتگو میں کہا ‘کھیل ختم ہو چکا۔اب اسے جانا ہوگا۔’ ان تین جملوں کے بعد کارٹر نے بائیں حاشیہ میں اپنے مختصر دستخط کیے۔)
‘امریکہ کی حکومت پاکستان کے داخلی معاملات میں کسی بھی طرح کی مداخلت میں ملوث نہیں ہے اور نہ اس میں ملوث ہونے کا کوئی ارادہ ہے۔ ہم نے پاکستان میں کسی بھی سیاسی تنظیم یا فرد کو مالی ، یا کسی اور طرح کی کوئی امداد نہیں دی ہے۔’
‘میری تجویز ہے کہ ہم عوامی الزامات سے بچنے کے طریقے تلاش کریں کیونکہ یہ صرف ہمارے تعلقات ہی کو نقصان پہنچائیں گے۔’
تیس اپریل کو اسلام آباد سے ٹیلی گرام میں، غیر ملکی صحافیوں سے موصول اطلاعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ‘بھٹو پنڈی میں گھوم رہے ہیں، گلی کوچوں میں رک رہے ہیں اور ہجوم سے خطاب کر رہے ہیں۔ تقریر کے ایک حصے کے طور پر، وہ ایک کاغذ کا ٹکڑا لہرا رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ سکریٹری وینس کا خط ہے۔’
تیس اپریل کو امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے اپنے سفارت خانے کو لکھا گیا ٹیلی گرام خفیہ ہی رکھا گیا ہے۔
تین مئی کے ٹیلی گرام کے مطابق، وینس کا 28 اپریل کو بھٹو کو لکھا گیا خط تین مئی کو محکمہ خارجہ کی پریس بریفنگ کے دوران جاری کردیا گیا تھا۔
چار مئی کو امریکی محکمہ خارجہ نے سفیر بائیروڈ کے لیےٹیلی گرام بھیجا۔ اس میں بھٹوکے وینس کو لکھے گئے خط کا متن شامل تھا۔اس خط میں کہا گیا کہ ‘ہمیں حالیہ دنوں میں امریکہ کے کردار، جس نے پاکستان کے استحکام کو متاثر کیا ہے، اس خطے کی سلامتی پر اس کے ممکنہ اثرات جس پر پہلے ہی سوویت دباؤ بڑھ رہا ہے ، اور ہمارے دو طرفہ تعلقات پر اس کے منفی اثرات پر تشویش ہے۔’
تیرہ مئی کی صدر کارٹر کے لیے یادداشت میں قائم مقام سیکریٹری خارجہ وارن کرسٹوفرنے لکھا: ‘بھٹو نے کل اعلان کیا کہ حزب اختلاف نے بات چیت کے ذریعہ تنازع کے حل، غالباً نئے انتخابات بھی اس میں شامل ہیں، کے امکان کا دروازہ بند کر دیا ہے۔ انھوں نے ایک غیر معینہ تاریخ پر قومی ریفرنڈم کے انعقاد کااعلان کیا تاکہ یہ طے کیا جاسکے کہ آیا انھیں عہدے پر رہنا چاہیے یا نہیں۔ انھوں نے نئے انتخابات کو پاکستان کے لیے انتہائی پریشان کن اور ‘غیر ملکی طاقتوں’ کو مداخلت کا موقع فراہم کرنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ ریفرنڈم کی تجویز سے بنیادی سیاسی صورتحال میں تبدیلی کا امکان نہیں لیکن اس سے بھٹو کو احتجاج اور فوج کی مایوسی میں اضافے کے تناظر میں کچھ وقت اور مل سکتا ہے۔’
اکتیس مئی کو امریکی صدر کارٹر کے لیے ‘شام کی رپورٹ’ میں وزیرخارجہ وینس نے بتایا کہ ‘میں نے آج پاکستانی وزیر خارجہ عزیز احمد سے ملاقات کی۔ انھوں نے کہا کہ امریکی مفادات کےلیے پاکستان نے بہت قربانیاں دی ہیں مگر امریکہ نے اکثر اسے بیچ منجدھار چھوڑا۔ آخر کار، عزیز احمد نے یہ الزام دہرایا کہ حالیہ انتخابات میں پاکستان کے پاس حزب اختلاف کی جماعتوں کے لیے وسیع پیمانے پر امریکی حمایت کے بہت ثبوت موجود ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ ثبوت ان کے پاس ہیں اگر ہم دیکھنا چاہیں۔ میں نے ان کے پاس موجود شواہد دیکھنےکی خواہش نہیں کی۔
عزیز احمد نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات ایک دوراہے پر ہیں۔ محاذ آرائی کی صورت میں انھوں نے سنٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن سے پاکستانی دستبرداری ، سوویت آپشن کی طرف رجوع کرنے، اور بھٹو کی امریکہ مخالف مہم کے تسلسل کا اشارہ دیا۔ عزیز احمد نے زور دے کر کہا کہ پاکستان چاہے گا کہ ماضی کا باب بند کر کے تعمیری جذبے سےمستقبل کے تعلقات استوار کیے جائیں۔
میں نے واضح کیا کہ پاکستانی داخلی امور میں امریکی مداخلت کے الزامات بے بنیاد ہیں اور کہا کہ پاکستانیوں کے پاس جو بھی ثبوت موجود ہیں وہ ہمارے مابین غلط فہمی پیدا کرنے کی مہم کا نتیجہ ہوسکتے ہیں۔’
اس ملاقات میں امریکہ کے نام زد سفیر آ رتھر ہمل نے بھی شرکت کی۔ ہمل آٹھ جون 1977 سے 19 جولائی 1981 تک پاکستان میں تعینات رہے۔
گیارہ جون کے سفارت خانہ کے ٹیلی گرام کا خلاصہ یہ تھا: ’10 جون کو قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے بھٹو نے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی خواہش کے ساتھ ہی امریکی مداخلت کے اپنے دعوے کا اعادہ کیا۔ انھوں نے قومی اتحاد کے رہنما اصغر خان کی سات جون کی پریس کانفرنس میں کارٹرکی انسانی حقوق پالیسی کی تعریف کا حوالہ دیتے ہوئے انھیں بالواسطہ طور پر ایک سامراجی ‘کٹھ پتلی’ قراردیتے ہوئے ہدف تنقید بنایا۔’
جنرل ضیاء الحق
واشنگٹن سے پانچ جولائی کوصدر کے معاون برائے قومی سلامتی امور (زبگنیو برزنزسکی) کی صدر کارٹر کے لیے یادداشت میں کہا گیا کہ ‘ظاہری طور پر اس نتیجہ پر پہنچنے کے بعد کہ چار ماہ پرانے سیاسی بحران کے مذاکرات کے ذریعہ کسی حل کی کوئی امید نہیں، پاکستانی فوج نے کل رات اقتدارسنبھال لیا۔وزیراعظم بھٹو اوراہم اپوزیشن رہنماوں کو’عارضی حفاظتی تحویل’ میں لے لیا گیا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ جنرل ضیاالحق فوجی حکومت کے سربراہ ہیں۔
وینس کی صدر کارٹر کے لیے پانچ جولائی کی یادداشت میں کہا گیا: ‘شہر پُرسکون ہیں۔ مبینہ طور پر کوئی امریکی یا دوسرے غیر ملکی متاثر نہیں ہوئے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران نے فوجی قبضہ پر نجی طور پرکچھ حدتک سکھ کا اظہار کیا ہے۔( اس پیراگراف کے اگلے دائیں حاشیہ میں، کارٹر نے لکھا: ‘ہمارے دیرینہ دوست بھٹو کے ساتھ بہت برا ہوا!’)
لغت کہتی ہے ایسا طریقہ اظہار طنزیہ ہوتا ہے۔ !
Comments are closed.