بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

’رنگ گورا کرنے والی کریم کے باعث والد مجھے پہچان ہی نہیں سکے‘

رنگ گورا کرنے والی کریم: ’میرے والد مجھے پہچان ہی نہیں سکے انھوں نے التجا کی کہ میں ان کریموں کا استعمال چھوڑ دوں‘

  • غزل عباسی اور جولیا برائسن
  • صحافی

رنگت

،تصویر کا ذریعہGrazia

دس برس سے زیادہ عرصے تک جلد کو گورا کرنے والی کریم استعمال کرنے کے بعد ایک خاتون کی رنگت اتنی بدل گئی کہ ان کے والد بھی انھیں نہیں پہچان پائے۔

بریڈ فورڈ سے تعلق رکھنے والی گرازیا نے 18 برس کی عمر میں روزانہ کی بنیاد پر سٹیرائڈ کریم کا استعمال کرنے کے بعد گذشتہ برس اسے ترک کر دیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ان کے والد نے جب انھیں دیکھا تو وہ دنگ رہ گئے کیونکہ ان کی رنگت بہت سفید ہو گئی تھی۔

بی بی سی کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو کریمیں عموماً ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر نہیں خریدی جا سکتیں، وہ دکانوں پر کھلے عام فروخت ہو رہی ہیں۔

یہ کریمیں عموماً تھوڑے عرصے کے لیے جلد کی خاص بیماریوں جیسا کہ ایگزیما کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔

برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کے مطابق ان کریموں کو ایک ہفتے سے زیادہ عرصے تک لگاتار استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔

ان کریموں کے ضمنی اثرات یہ ہوتے ہیں کہ وہ جلد کی رنگت کو گورا کر دیتی ہیں، چنانچہ بہت سے لوگ اسے بیوٹی پراڈکٹ سمجھ کر استعمال کرتے ہیں۔

جلد کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ لوگوں کو اس قسم کی کریموں کے استعمال سے جلد کے دیرپا مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

کیا یہ واقعی تم ہو؟

گرازیا کی عمر اب 29 برس ہے اور وہ آٹھ برس قبل اٹلی سے بریڈفورڈ منتقل ہوئیں جہاں پر انھوں نے کلوبٹاسول کریم کا استعمال جاری رکھا۔

ملک سے باہر رہنے کی وجہ سے وہ کئی برس تک اپنے والد کو نہیں دیکھ پاتیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’میرے والد نے مجھ سے ایک بار کہا کہ وہ مجھے پہچان ہی نہیں سکے کیونکہ ہم اتنے عرصے سے نہیں ملے تھے۔ وہ بہت ناراض تھے اور انھوں نے مجھ سے التجا کی کہ میں ان کریموں کا استعمال کرنا چھوڑ دوں۔‘

جب گرازیا نے 18 برس کی عمر میں ان کریموں کا استعمال کرنا شروع کیا تو ان کی جلد کی رنگت بالکل مختلف تھی۔

‘میں یہ سوچتی تھی کہ میں بدصورت ہوں اور اب میں پریشان ہوں کہ میں نے اتنے عرصے تک اسے استعمال کیا۔ میرے خیال میں خود کو پسند کرنا ایک عمل ہے۔‘

کنسلٹنٹ ڈرمٹالوجسٹ ڈاکٹر ولایت حسین نے گرازیا کا معائنہ کرنے کی حامی بھری تاکہ وہ اس سٹیرائڈ کریم کے دیرپا نقصانات کے بارے میں پتا لگا سکیں۔

جب انھوں نے 18 برس کی عمر میں گرازیا کی تصویر اور ان کی اصل رنگت دیکھی تو انھیں یقین نہیں آیا۔ انھوں نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ واقعی آپ کی تصویر ہے؟

خفیہ طور پر کام کرنے والے صحافیوں کو سات میں سے چھ بیوٹی اینڈ ہیئر سیلونز پر یہ کریمیں رکھی ہوئی ملیں جبکہ ساتویں سٹور پر یہ کریم سٹاک میں موجود نہیں تھی۔

گوری رنگت

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ڈاکٹر حسین کہتے ہیں کہ یہ بات بہت پریشان کن ہے کہ یہ کریمیں اتنی آسانی سے مل رہی ہیں۔

‘یہ نسخے پر ملنے والی دوائی ہے۔ آپ کو یہ اتنی آرام سے نہیں ملنی چاہیے کیونکہ اس کے نقصانات بہت ہی سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔‘

سٹیرائڈ کی مارکیٹ میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والا پراڈکٹ یہی رنگ گورا کرنے والی کریمیں ہیں۔ یہ ان کریموں سے زیادہ تیز ہیں جو کہ آپ کو ایگزیما کے لیے آرام سے مل جاتی ہیں اور جو کہ غیر قانونی بھی نہیں۔ ان کریموں میں ہائیڈرو کارٹیسون ہوتا ہے۔

‘آپ صرف یہ سوچیں کہ بغیر کسی سمجھ بوجھ کہ آپ اسے استعمال کر کے اپنی جلد کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔ یہ بہت ہی تشویش ناک ہے۔ ایک عام صارف کو یہ بات پتہ نہیں ہوگی کہ کلوبیٹاسول پروپیونیٹ کیا ہوتا ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسے رنگ گورا کرنے والی کریم کے طور پر بیچا جا رہا ہے لیکن اصل میں وہ ایک اتنا طاقتور سٹیرائڈ خرید رہے ہیں جس کہ استعمال سے آگے چل کر انھیں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

لیڈز میں فلاحی ادارے بلیک ہیلتھ انیشیئٹیو سے تعلق رکھنے والی ہیتھر نیلسن کہتی ہیں کہ رنگ کو گورا کرنے والی کریموں کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔

ہم اس کا صحیح طور پر اندازہ نہیں لگا سکتے کیونکہ بہت سے لوگ اس کے استعمال کے بارے میں نہ تو بتاتے ہیں اور نا ہی اسے تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن وہ کیوں اس کا استعمال کرتے ہیں؟ کیونکہ وہ یورپی خوبصورت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اپنے شعبے میں ترقی کرنا چاہتے ہیں تو انھیں ایک خاص طریقے سے نظر آنا چاہیے۔

بنتی آسومانی 2013 میں اپنے خاوند اور بچوں کے ہمراہ جب تنزانیہ سے برطانیہ منتقل ہوئیں تو انھوں نے جلد کو گورا کرنے والی کریم کا استعمال کرنا شروع کیا۔

یہ بھی پڑھیے

وہ کہتی ہیں ‘میں اپنی رنگت گوری کرنا چاہتی تھی کیونکہ میری سہیلیاں گوری تھیں۔ تو میں نے سوچا کہ میں کیوں نہ خوبصورت نظر آؤں۔‘

جب انھوں نے اپنی دوستوں سے پوچھا کہ یہ کریم کہاں دستیاب ہے تو انھوں نے آسومانی کو مقامی مارکیٹ کا پتا بتایا جہاں اس طرح کی کریمیں فروخت کی جاتی ہیں۔

لیکن دو برس تک ان کریموں کے استعمال کرنے کے بعد انھیں منفی اثرات محسوس ہونا شروع ہوگئے۔

’میرے چہرے پر دانے نکلنا شروع ہوگئے اور جب بھی میں اس کریم کا ڈھکن کھولتی تو میرے آنکھوں میں جلن ہوتی اور آنسو آ جاتے۔‘

جب وہ ڈاکٹر کے پاس گئیں اور انھوں نے انھیں اپنی کریم دکھائی تو انھیں بتایا گیا کہ وہ اس کا استعمال فوری طور پر ترک کر دیں۔ لیکن اس سے ان کی خود اعتمادی پر اثر پڑا۔

گوری رنگت

،تصویر کا ذریعہBinti asumani

’جلد گورا کرنے اور خوبصورت بننے میں وقت لگتا ہے، لیکن اس عمل کو روکنے میں وقت نہیں لگتا۔ دو ماہ کے اندر میری اصل رنگت واپس آگئی۔ میں دو ماہ تک گھر کے اندر ہی رہی کیونکہ میرے رنگت بہت سیاہ ہوگئی تھی۔‘

اب وہ مقامی دکان سے ایک سٹیرائڈ کریم استعمال کرتی ہیں جسے وہ دوسری کریم کے ساتھ ملا کر اپنی جلد پر لگاتی ہیں۔ بقول ان کے وہ اپنی ’سیاہ رنگت کی طرف واپس نہیں جانا چاہتیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ اپنی بیٹی کے لیے وہ چیزوں کو تبدیل کرنا چاہتی ہیں اس سے پہلے کہ ان کی بیٹی بھی انہی کی راہ پر چل پڑے۔

’خوبصورتی کی وجہ سے خود کو مسلسل تکلیف دینے کا کیا فائدہ؟ مجھے امید یہ کہ میری بیٹی اس بات کو سمجھ گئی کہ میں ان کریموں کو استعمال کرنے کے نقصانات سے گزر چکی ہوں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.