ایم ایس-13: امریکہ ’مارا سلواتروچا‘ نامی بین الاقوامی گینگ کے خاتمے میں کیوں ناکام ہے؟
19 جنوری کی صبح 8 بجے، لاس اینجلس میں لا ٹونا وادی میں سڑک کے کنارے پھینکے گئے کوڑے کے ڈھیر سے کوئی شخص کچھ تلاش کر رہا تھا۔ کھائی میں پھینکے گئے فرنیچر، ٹائر اور دیگر ملبے میں سے جو اسے ملا وہ ایک انسانی لاش تھی۔
بعد میں معلوم ہوا کہ مرنے والا شخص 20 برس کا بریان کاہن تویُک تھا، جو گوئٹے مالا سے تعلق رکھتا تھا اور تعیمرات کے شعبے سے وابستہ تھا۔
بریان کاہن کی لاش ملنے کے بعد پولیس نے اس قتل کے شبے میں 19 برس کے گیبریل اوریلانا کو گرفتار کیا، جو پولیس کے مطابق امریکہ میں سرگرم ایک مشہور گینگ ایم ایس-13 (MS-13) کا رُکن تھا۔ اس گینگ کو ’مارا سلواتروچا‘ بھی کہا جاتا ہے اور اس گروہ سے تعلق رکھنے والے گیبرئیل اس سے قبل بھی اغوا اور قتل کی وارداتوں میں پولیس کو مطلوب تھے۔
واضح رہے کہ نام نہاد مارا سلواتروچا گینگ کے جرائم سے متعلق خبریں اکثر امریکی میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں اور اس گینگ کی وارداتیں اخباروں میں شہ سرخیوں کی صورت سامنے آتی رہتی ہیں۔
یہ گینگ 80 کی دہائی میں امریکی ریاست لاس اینجلس میں سامنے آیا تھا۔
وسطی امریکی خطے میں واقع ممالک ایل سلواڈور، گوئٹے مالا اور ہونڈورس کے جرائم پیشہ افراد پر مشتمل اس گروہ کے کارکن لاس اینجلس اور خلیج فرانسسکو سے لے کر برطانیہ، جرمنی اور سپین تک میں ہونے والے جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں، جن میں قتل، اغوا، منی لانڈرنگ، منشیات فروشی، انسانی سمگلنگ جیسے جرائم شامل ہیں۔
اس کے قیام کے تقریباً 40 سال بعد امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وفاقی ایجنسیوں کو اس گینگ کے خاتمے کا اپنے دور حکومت میں ٹاسک دیا تھا۔ یوں اس صدارتی حکم کے بعد امریکہ محکمہ انصاف نے اس گروہ کا قلع قمع کرنا اپنی ترجیح اول قرار دیا تھا۔
لیکن یہاں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تمام تر وسائل اور کوششوں کے باوجود امریکہ وسطی امریکہ کے ایسے منظم جرائم میں ملوث گروہوں کا خاتمہ کیوں نہ کر سکا اور اس میں ناکام کیوں ہے؟
ہزاروں گروہوں میں سے ایک
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایف بی آئی کے ایک سابق پراسیکیوٹر نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’یہ واقعی ایک پیچیدہ سوال ہے۔‘
انھوں نے دیگر ماہرین کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے یہ بتایا کہ ’یہ گروپ امریکہ میں واحد گینگ نہیں اور نہ ہی اس کے کارندے واحد پُرتشدد جرائم میں ملوث ہیں۔‘
محکمہ انصاف کے اندازے کے مطابق اس وقت امریکہ میں 20,000 سے زیادہ جرائم پیشہ گروہ موجود ہیں جن کے 10 لاکھ سے زیادہ ارکان امریکہ کی 50 ریاستوں، ڈسٹرکٹ آف کولمبیا اور اس کے زیر انتظام مختلف علاقوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔
خاص طور پر MS-13 کے بارے میں محکمہ انصاف کا اندازہ ہے کہ اس گروپ کے امریکہ میں 10,000 اراکین ہیں اور اس گروہ نے کیلیفورنیا، نیویارک، نیو جرسی، میری لینڈ، ورجینیا کے شہروں اور مضافاتی علاقوں سمیت میساچوسٹس، اوہائیو، شمالی کیرولائنا، جارجیا، اور ٹیکساس میں اپنی شاخیں قائم کر رکھیں ہیں، جو کسی حد تک چھوٹی اور ایک دوسرے سے آزادانہ وارداتیں کرتی ہیں۔
اکتوبر 2020 میں شائع ہونے والی اس موضوع پر تازہ ترین رپورٹ میں یہی درج ہے۔ اس رپورٹ میں سنہ 2016 سے محکمہ انصاف اور مختلف ایجنسیوں کی جانب سے اس گینگ کا قلع قمع کرنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔
تاہم بی بی سی منڈو نے جن ماہرین سے رابطہ کیا وہ ان اعداد و شمار کے درست ہونے پر سوالات اٹھاتے ہیں۔
اس گروپ پر تحقیق کرنے والے اور کتاب لکھنے والے سٹیون ڈُڈلی کا کہنا ہے کہ ’اس گروپ کے ارکان سے متعلق بہت سطحی انداز میں اندازہ لگایا گیا ہے اور تجرباتی طریقہ کار کو اختیار نہیں کیا گیا، لہذا اس بات کا کوئی صیحح ادراک نہیں کہ آخر یہ معاملہ کتنا گھمبیر ہے۔‘
وہ اس بات پر متفق ہیں کہ MS-13 نیویارک، واشنگٹن، ورجینیا کے میٹروپولیٹن علاقوں اور سب سے بڑھ کر وہ جگہ جہاں اس گروپ نے تشکیل پائی یعنی لاس اینجلس میں اس گروپ کی جڑیں زیادہ مضبوط ہیں۔
مارا سلواتروچا گینگ سنہ 1980 کی دہائی میں ایسے وقت پر تشکیل پایا تھا جب خانہ جنگی سے بے گھر ہونے والے ہزاروں سلواڈور کے شہری کیلیفورنیا شہر کے کچھ وسطی اضلاع میں آباد ہوئے تھے۔
شہر کے سب سے زیادہ آبادی والے اور غریب علاقوں میں آ کر بسنے والے کچھ لڑکے اپنے آپ کو میکسیکن، امریکن جرائم پیشہ گروہوں سے بچانے کی ضرورت کے ساتھ گروہوں میں متحد ہونا شروع ہوئے اور وقت گزرنے کے ساتھ وہ ایک ہی تنظیم، مارا سلواتروچا، یا MS-13 میں ضم ہو گئے۔
جب اس گروپ کے کچھ ارکان کو جلاوطن کیا گیا تو باقی ماندہ گینگ منتشر ہو کر وسطیٰ امریکہ تک پھیل گیا، جہاں اس گروپ نے اپنے قدم جمائے اور پھر یہ ایک منظم گروہ کی صورت میں سامنے آیا لیکن یہ ایک اور کہانی ہے۔
مقامی لڑائی سے لے کر مشترکہ افواج تک
شروع میں تو امریکہ کی مقامی پولیس ہی اس گینگ کا مقابلہ کرنے کی ذمہ دار تھی مگر سنہ 2005 میں اس گروہ کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک مخصوص یونٹ کی ضرورت پڑی اور اس طرح MS-13 گینگ کے خلاف مشترکہ ٹاسک فورس تشکیل دی گئی۔
انسداد دہشت گردی کے ماہر رابرٹ کلفورڈ کو اس وقت کے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر نے اس گروپ کے خاتمے کا ٹاسک سونپا۔ وہ مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ابتدا میں مقامی حکام کو اس مسئلے کی نوعیت اور بڑے پیمانے پر نیٹ ورک کی موجودگی سے متعلق قائل کرنے میں مشکلات پیش آئیں۔
انھوں نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ حکام نے ابتدا میں ان سے کہا کہ ’آپ اس مسئلے کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے ہیں۔‘
’یہاں تک کہ خود حکومت کے اندر بھی، حکام یہ ماننے سے ہچکچا رہے تھے کہ لاس اینجلس میں شروع ہونے والا کوئی گینگ ہو سکتا ہے اور اس کا مشرقی ساحل پر اس طرح کا کنٹرول ہے۔‘
یونٹ کے سربراہ کے طور پر اپنے دور میں کلفورڈ نے ایل سلواڈور میں حکام کے ساتھ تعاون کیا اور انھوں نے بین الاقوامی سطح پر بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کیں۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور صدارت میں اپنی تقاریر میں اس گینگ کو خاص طور پر نمایاں کیا۔ اکثر اس گروپ کا نام لیتے ہوئے وہ مائیگریشن اور امریکہ اور میکسیکو کے درمیان جنوبی سرحد پر مشہور دیوار کا واضح حوالہ بھی دیتے تھے۔ انھوں نے وفاقی ایجنسیوں کو حکم دیا کہ وہ خاص طور پر اس گروہ کے ارکان کو گرفتار کرنے کے لیے حکمت عملی پر عمل کریں۔
صدر کے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے جواب میں اٹارنی جنرل جیف سیشنز نے اکتوبر 2018 میں ایک ٹاسک فورس تشکیل دی اور اگست 2019 میں ان کے جانشین ولیم بر نے اس گروپ کے خاتمے کے ہدف کے ساتھ مختلف محکموں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان باہمی رابطہ کاری کے لیے ایک ’جوائنٹ ٹاسک فورس ولکن‘ تشکیل دی۔
محکمہ کے قومی سلامتی ڈویژن اور فوجداری ڈویژن کے وفاقی پراسیکیوٹرز اور دس ریاستوں کے پراسیکیوٹرز کو اس فورس کا حصہ بنایا گیا، جن کا کام ہر وقت اس مقصد کی تکمیل کے لیے پیشرفت پر نظر رکھنا تھا۔
اس گروپ کے خاتمے کے مقصد کے لیے ڈی ای اے، ایف بی آئی اور دیگر ایجنسیوں کی مدد حاصل کرنا تھا۔ میکسیکو اور وسطی امریکہ کے ممالک کے ساتھ ہم آہنگی، تربیت اور مشترکہ آپریشن کے ذریعے اس گروپ کی مکمل بیخ کنی اس فورس کے اہداف میں شامل تھی۔
اس فورس کے قیام کے بعد سنہ 2020 کی رپورٹ کے مطابق،سنہ 2016 سے اب تک محکمہ انصاف نے اس گینگ کے 794 ارکان کے خلاف مقدمات چلائے، جن میں سے 500 کو قید کی سزا سنائی گئی بشمول ان 37 افراد کے جن کو عمر قید کی سزا سُنائی گئی۔
وفاقی فرد جرم بھی پہلی بار ریکیٹیئرنگ، انفلوئنس اینڈ کرپٹ آرگنائزیشنز (RICO ) ایکٹ کے تحت دائر کی گئی، جس سے MS-13 اور اس کے اراکین کے خلاف بطور ریکیٹیئر (جرم کے آلہ کار بننے کا) مقدمہ چلانا ممکن ہوا۔
ولیم بر نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’جوائنٹ ٹاسک فورس ولکن کی کارروائی کے نتیجے میں MS-13 کی قوت کو نمایاں طور پر توڑا گیا جبکہ ابھی مکمل خاتمے کے لیے بہت کام کرنا باقی ہے۔ ان کے مطابق ’محکمہ انصاف MS-13 سے امریکیوں کی حفاظت کے لیے پُرعزم ہے اور ہم اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے جب تک کہ ہم کامیابی سے اس پُرتشدد گروپ کی بیخ کنی نہیں کر دیتے۔‘
اگرچہ دہشتگردی کا یہ نیٹ ورک ابھی تک موجود ہے مگر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ مارا سلواتروچا کے خلاف جنگ امریکہ کی ترجیحات میں شامل ہے۔
محکمہ انصاف کے اٹارنی جنرل کے ترجمان تھوم مروزیک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کسی بھی گینگ یا جرائم پیشہ تنظیم کے تباہ کن اثرات کی پیمائش کرنا مشکل ہے لیکن جب قانون نافذ کرنے والے ادارے بین الاقوامی گروہوں کے بارے میں بات کرتے ہیں تو شاید MS-13 اس میں سرفہرست ہوتا ہے۔‘
انسداد دہشت گردی کے ماہر رابرٹ کلفورڈ کا کہنا ہے کہ ’بہت ساری توجہ دیگر مسائل کی طرف مبذول ہو گئی، جیسے سفید فام بالادستی (وائٹ سپریمیسی)، بڑے پیمانے پر فائرنگ، ماحولیاتی جرائم، پولیس کی بدانتظامی لیکن MS-13 کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔‘
ملک میں اس گینگ کا خاتمہ نہ ہونے کی وجوہات کا بلواسطہ ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مسائل کو حل کرنے کے لیے وسائل کے استعمال کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
بین الاقوامی رجحان
رابرٹ کلفورڈ کے مطابق یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور وہ اس چیلنج کا موازنہ ایک دوسرے مسئلے سے کرتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ ’امریکہ نے اپنی سرزمین پر بنیاد پرست اسلامی دہشت گردی کا خاتمہ کیوں نہیں کیا؟‘
’اس کی وجہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ گینگ کے ارکان کی ایک بڑی تعداد امریکہ سے باہر ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہماری سرحدوں سے باہر ہے اور اسی وجہ سے بین الاقوامی تعاون بہت اہم ہے۔‘
لیکن ساتھ ہی وہ اسے مکمل طور پر بیرونی رجحان قرار دینے کے اثرات سے بھی متنبہ کرتے ہوئے اس خیال کو بھی مسترد کرتے ہیں کہ اس گروپ کے ارکان کی ملک بدری سے یہ معاملہ حل ہو سکے گا۔
ان کے مطابق ’جب سنہ 2005 میں، میں نے اپنے انٹیلیجنس عملے سے یہ معلوم کرنے کے لیے کہا کہ ملک کے دس سب سے زیادہ بااثر گینگ کے ارکان کون ہیں، تو ہمیں معلوم ہوا کہ ان میں سے چار امریکی شہری تھے یا پھر وہ امریکہ میں قیام پذیر ہونے کے قانونی طور پر مجاز تھے۔‘
یہ بھی پڑھیے
ایک سماجی مجرمانہ تنظیم
مارا سلواتروچا کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکی حکمت عملی اور اس کے نتائج کے بارے میں پوچھے جانے پر دیگر ماہرین زیادہ تنقید کرتے ہیں۔
محقق سٹیفن ڈڈلی کا کہنا ہے کہ ’امریکہ اور اس کے ماڈل کی پیروی کرنے والے ممالک نے ہمیشہ (MS-13) کو ایک مجرمانہ تنظیم کے طور پر سب سے پہلے دیکھا اور فوری طور پر اس کے مجرمانہ پہلو کا مقابلہ کرنے کے لیے وسائل مختص کیے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’لیکن جس چیز کو وہ مسترد کرتے ہیں یا کم از کم منظم طریقے سے نظر انداز کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ ایک سماجی مجرمانہ تنظیم ہے۔ یہ ایک کمیونٹی ہے۔‘
وہ خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ ایک گمراہ کمیونٹی ہو سکتی ہے، جسے تشدد اور مجرمانہ کارروائیوں کے ذریعے تقویت ملتی ہے لیکن یہ اب بھی ایک کمیونٹی ہے۔ اس لیے جب تک اس کو اس طرح نہیں سمجھا جاتا تو یہ مسئلہ ایسے ہی موجود رہے گا ان کے مطابق یہ کوئی ایسی چیز نہیں، جسے جیل کے ایک دھچکے سے ختم کیا جا سکتا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ جب تک اس بات پر توجہ نہیں دی کہ اس کمیونٹی کو کس چیز نے ترقی دی ہے، جیسے تنہائی، تشدد، پولیس کی بربریت، ایسے علاقوں میں رہنا جہاں دوسری ہم خیال مجرمانہ کمیونٹیز بستی ہیں، مواقع کی کمی، صحت تک رسائی، مناسب سہولیات، سماجی خدمات وغیرہ، ان کے مطابق آپ ہر اس شخص کو گرفتار کر سکتے ہیں جسے آپ چاہیں مگر اس طرح آپ کو کسی مسئلے سے چھٹکارا نہیں ملے گا۔‘
ان کے مطابق گذشتہ چار دہائیوں سے صرف ایسی پالیسیز ہی بنائی گئی ہیں جو ایسے گروہوں کی مجرمانہ کارروائیوں کی بیخ کنی کر سکیں مگر دیگر مسائل کا ادراک نہیں کیا گیا اور اس حوالے سے حکمت عملی نہیں تشکیل دی گئی کہ وہ یہ سب کرنے پر مجبور کیوں ہیں۔
یہ وہ چیز ہے جسے ایلیکس سانچیز بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 50 برس ہے۔ وہ ماضی میں لاس اینجلس میں MS-13 کے ممبر رہ چکے ہیں۔ وہ شاید ایسے کارکنوں میں سے بہت مشہور ہیں جو معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں اور جرم کی دنیا ترک کر چکے ہیں۔۔
انھوں نے 20 سال قبل ہومیز یونیڈوس (Homies Unidos) تنظیم کی بنیاد رکھی، جو گینگ کے ان ارکان کو امدادی خدمات فراہم کرتی ہے جو جرائم کی دنیا سے باہر آنا چاہتے ہیں اور دوسرے نوجوانوں کو ان تنظیموں میں شامل ہونے سے روکنے کے لیے کام کرتے ہیں۔
ایلیکس سانچیز کے مطابق مارا سلواتروچا کی تقریر عوامی دشمن کے طور پر گینگ کو طاقت دیتی ہے، جو اس رجحان سے نمٹنے کے لیے امریکہ کی ’ابھی اور ہمیشہ کے لیے‘ حکمت عملی پر بہت تنقید کرتے رہے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ جس چیز پر توجہ نہیں دی گئی وہ یہ تھی کہ کیوں اتنی بڑی تعداد میں نوجوان اس گروہ کا حصہ بن رہے ہیں، وہ اپنے حقوق کے لیے لڑنا ترک کر کے اپنی جان کو دوسرے کے ہاتھ گروی رکھ لیتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’گینگ تو ایسے نوجوانوں کے لیے بہت سارے سماجی مسائل سے باہر نکلنے کا ایک رستہ ہے اور اگر آپ ان مسائل کی جڑ کو نہیں پکڑتے تو آپ انھیں کس طرح مات دیں گے اور کیسے ان سے گینگ چھوڑنے کی توقع کریں گے۔‘
’ایسے گینگ انھیں وہ سب دیتے ہیں جو انھیں معاشرے سے نہیں مل سکا۔‘
ان کے مطابق ’ایک نوجوان جس نے خود کو مکمل طور پر ایک گینگ کے حوالے کر دیا ہے، وہ اسے صرف اس لیے نہیں چھوڑے گا کہ کوئی اسے کہے کہ وہ اسے جیل میں ڈال دیں گے۔‘
اس کے علاوہ، ایک گینگ کے رکن کے لیے، جیل ایک معمول کی بات ہے جو ان کی حیثیت میں مزید اضافے کا باعث بن جاتی ہے۔
ان کے مطابق ’ہم یہ نہیں مانتے کہ مسئلے کو حل کرنے میں کوئی حقیقی دلچسپی ہے۔ ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم تشدد میں کمی کو یقینی بنا سکیں اور ہم ایک خاص طریقے سے مداخلت کریں تاکہ نوجوان جو جینا چاہتے ہیں انھیں مواقع مل سکیں لیکن اتنے نوجوانوں کو روکنا بہت مشکل ہے جو گینگز میں شامل ہو جاتے ہیں۔‘
Comments are closed.