’الحمدللہ، میں ٹھیک ہوں‘: لندن پولیس کا یوٹیوبر عادل راجہ کی گرفتاری کی تصدیق یا تردید سے انکار

عادل راجہ

،تصویر کا ذریعہ@soldierspeaks

  • مصنف, ثقلین امام
  • عہدہ, بی بی سی لندن

گذشتہ ایک روز سے جاری افواہوں اور دعوؤں کے بعد بلآخر یوٹیوبر اور وی لاگر میجر ریٹائرڈ عادل فاروق راجہ منظر عام پر آ گئے ہیں، دوسری جانب لندن کی میٹروپولیٹن پولیس نے اُن کی گرفتاری کی خبروں کے بارے میں تصدیق یا تردید کرنے سے انکار کیا ہے۔

یاد رہے کہ گذشتہ 24 گھنٹے سے تحریک انصاف کے حامی سمجھے جانے والے یوٹیوبر عادل راجہ کی گرفتاری اور ضمانت پر رہائی سے متعلق متعدد دعوے سوشل میڈیا پر کیے جا رہے تھے جبکہ لندن میں موجود عادل راجہ کے وکیل نے بھی اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اُن کے مؤکل کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

تاہم اب سے تین گھنٹے قبل عادل راجہ نے ٹوئٹر پر دو ٹویٹس کے ذریعے اپنی خیریت سے مطلع کیا ہے تاہم انھوں نے اپنی گرفتاری اور رہائی سے متعلق دعوؤں پر کوئی بات نہیں کی ہے۔

اپنے ایک پیغام میں انھوں نے کہا کہ ’میرے اور میری فلاح کے بارے میں بہت سی افواہیں پھیلی ہوئی ہیں۔ الحمدللہ، میں ٹھیک ہوں۔‘

اپنی اس پوسٹ کے ساتھ انھوں نے ایک تصویر بھی شیئر کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وہ اس وقت برطانیہ میں کسی مقام پر رہ رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں فسطائیت کے خلاف اور پاکستان میں جمہوریت کے لیے آواز اٹھانے کے لیے پوری طرح پرعزم ہوں۔ میں حقیقی تبدیلی لانے کے واحد راستے کے طور پر پرامن احتجاج کے عوام کے جمہوری حق کی وکالت کرتا رہوں گا۔۔۔‘

عادل راجہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے سے دس روز بعد پاکستان سے برطانیہ پہنچ گئے تھے۔ ان کے لندن پہنچنے کی خبر آنے سے ایک روز قبل یعنی 20 اپریل 2022 کو اُن کی اہلیہ سبین کیانی نے ٹوئٹر پر ان کے لاپتہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے درخواست کی تھی کہ اگر کسی کو بھی ان کے شوہر سے متعلق معلومات ہوں تو شیئر کی جائیں۔

تاہم اگلے ہی روز یعنی 21 اپریل 2022 کو عادل راجہ نے اپنے لندن پہنچنے کی تصدیق کر دی۔

تصویر

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشن

عادل راجہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے سے دس روز بعد پاکستان سے برطانیہ پہنچ گئے تھے

لندن پہنچنے کے بعد اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے پاکستانی فوج پر شدید تنقید کرتے ہوئے انھوں نے متعدد مواقع پر فوج اور اس کی قیادت کے خلاف متعدد الزامات عائد کیے تھے اور اس نوعیت کے الزامات میں تیزی آنے کے بعد برطانیہ میں ان کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ بھی دائر کیا تھا۔

برطانیہ میں اپنے خلاف دائر ہونے والی شکایتوں اور دعوؤں کے بعد وہ اپنے کئی دعوؤں سے پیچھے بھی ہٹے تھے۔

بدھ کے روز اُن کے وکیل مہتاب عزیز نے لندن میں مقامی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُن کے خیال میں میجر راجہ کو مبینہ طور پر تشدد پر اکسانے کے الزامات کے بارے میں انکوائری کرنے کے لیے حکام نے ان کی موومنٹ کو محدود کر دیا ہے۔

تاہم لندن میٹروپولیٹن پولیس ایک ترجمان جیک گرِفِتھ نے کہا ہے کہ ’یہ ہمارا عمومی طریقہِ کار ہے کہ ہم کسی بھی ایسی گرفتاری کی نہ تصدیق کرتے ہیں اور نہ ہی تردید جس میں ابھی کوئی فرد جرم عائد نہ ہوئی ہو۔‘

میجر عادل فاروق راجہ برطانیہ میں رہتے ہوئے پاکستان کی موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت پر بھر پور تنقید کرتے رہے ہیں۔

ان کے خاندان نے ان کی گرفتاری کے معاملے پر خاموشی اختیار کر رکھی تھی اور اُن کی اہلیہ سبین کیانی جو خود بھی ٹوئٹر پر کافی فعال رہی ہیں، ان کی گرفتاری کی تصدیق یا تردید کے حوالے سے بالکل خاموش رہیں۔

البتہ ان کے وکیل مہتاب عزیز نے مقامی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’میں نے سنا ہے شاید انھیں گرفتار کر لیا گیا ہے، لیکن اس کا ہرگز مطلب نہیں ہے کہ انھوں نے کوئی جرم کیا ہے۔‘

بی بی سی اردو کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں لندن پولیس کے ترجمان مسٹر گرِفِتھ نے کہا کہ ’جب کسی شخص کی گرفتاری کے بارے میں پوچھا جائے تو ہم اُس کی گرفتاری یا اُسے گرفتار نہ کیے جانے کے بارے میں کسی قسم کی کوئی بات نہیں کرتے ہیں۔‘

مسٹر جیک گرِفِتھ نے مزید کہا کہ ’ہم اُس وقت پولیس کی کسی کارروائی کے نتیجے میں گرفتار کیے گئے شخص کا نام لیتے ہیں جب اُس پر فردِ جُرم عائد کر دی جاتی ہے۔‘

یاد رہے کہ میجر عادل راجہ پاکستانی فوج میں خدمات سر انجام دینے کے بعد بھی فوجی منصوبوں سے وابستہ رہے۔

ان کے وی لاگز عموماً موجودہ عسکری قیادت کے خلاف ہوتے ہیں جن میں وہ فوج میں موجود اپنے ’ذرائع‘ جنھیں وہ ’خاموش مجاہد‘ کہتے ہیں، کے حوالے سے دعوے اور الزامات عائد کرتے رہتے ہیں۔

حال ہی میں ان کا یوٹیوب چینل بند کردیا گیا تھا جس کے بارے میں وہ قانونی کارروائی کر رہے تھے۔

برطانوی قانون کے مطابق کسی بھی شخص کو بغیر قانونی کارروائی کے ملک بدر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اور خاص طور کسی ایسے ملک کے حوالے نہیں کیا جا سکتا ہے جہاں مبینہ جرم پر پھانسی کی سزا دی جا سکتی ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ