کولمبیا کے خطرناک جنگل میں 40 دن زندہ رہنے والے بچے: ’جنگل کی روح نے انھیں چھپا رکھا تھا‘

جنگل

،تصویر کا ذریعہPRIVATE FILE

،تصویر کا کیپشن

فیبئن ملکیو بھی بچوں کی تلاش کے عمل میں شامل تھے

  • مصنف, ایوفی ویلش اور ونیسا
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

کولمبیا میں ایمازون کے پُرخطر ایمازون جنگل میں 40 دن بعد بچائے جانے والے چار بچوں کی تلاش کا عمل جدید ٹیکنالوجی اور مقامی آبادی کے آباؤ اجداد کے علم کی مدد سے مکمل کیا گیا۔

ایک جانب جہاں سینکڑوں فوجی جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہیلی کاپٹروں اور طیاروں کی مدد سے ان کی تلاش کر رہے تھے تو وہیں ایمازون کے اس گھنے اور پرخطر جنگل میں کوئی اور بھی ان لاپتا بچوں کی تلاش میں مصروف تھا۔

فیبئن ملکیو جو مقامی آبادی کے رکن ہیں، وہ بطور گارڈ رضاکارانہ طور پر اس سرزمین اور یہاں کی مقامی آبادی کا تحفظ کرتے ہیں۔ وہ بھی بچوں کی تلاش کے عمل میں شامل تھے۔

اگرچہ وہ خود ایمازون سے تعلق نہیں رکھتے لیکن وہ 15 روز سے وہاں تھے اور انھوں نے جنگل کے ماحول کا جائزہ لیا۔ جہاز کو حادثہ پیش آنے کے دو دن بعد انھیں گارڈز کی ایک ٹیم تیار کرنے کا کہا گیا تھا اور انھوں نے بچوں کو ریسکیو کرنے کے لیے 60 افراد پر مشتمل ٹیم تیار کی تھی۔

انھوں نے اس آپریشن سے متعلق بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے بچوں کے بچ جانے کے نظریات اور اس تجربے کے بارے میں بتایا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ جنگل بہت وسیع ہے، جیسے ایک خلا ہو جو کبھی ختم نہیں ہوتی‘

وہ کہتے ہیں کہ بچوں کی تلاش اور ریسکیو کا عمل ان کے لیے مشکل تھا۔ ’وہاں طرح طرح کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ رات کے وقت اونچے اونچے درخت جنگل کو گھپ اندھیرے میں گھیر لیتے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ ’جنگل کی روح نے سب کو ڈھانپ لیا ہو۔‘

مالکیوس نے بتایا کہ جہاں سے بچوں کو بازیاب کیا گیا، تلاش کے دوران ریسکیو ٹیمیں تین مرتبہ اس مقام سے گزری لیکن وہ بچوں کو دیکھ نہ سکے۔

’یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہم نے انھیں وہیں سے تلاش کیا جہاں سے ہم کئی بار گزرے تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ٹیم کے ہر رکن نے روزانہ تقریباً 10 کلومیٹر کے رقبے میں بچوں کو تلاش کیا۔ ’ریسکیو اہلکاروں کو قینچی، ربن اور دیگر ایسی نشانیاں ضرور ملیں لیکن ہم بچوں کو دیکھ نہیں پائے۔‘

’ایک دن صبح سات بجے کے قریب ریسکیو اہلکاروں کا ایک گروہ بچوں کی تلاش میں نکلا تو انھوں ایک بچے کے رونے کی آواز آئی تو انھوں نہ فوراً اس علاقے کو گھیر لیا جہاں سے بچے کی رونے کی آواز آ رہی تھی۔ اسی وقت بارش شروع ہو گئی اور بچے کی آواز بارش کے شور میں گم ہو گئی۔‘

کولمبیا طیارہ حادثہ

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

کولمبیا کی فضائیہ کے ارکان نے بچوں کی دیکھ بھال کی

’جنگل کی روح‘

بچے کہاں چھپے ہوئے تھے اس سوال کے جواب میں مالکیوس کا کہنا تھا میں کچھ یقین سے نہیں کہہ سکتا۔

’ہمیں مقامی آبادی کے بزرگوں نے بتایا کہ جنگل کی روح نے انھیں چھپا رکھا تھا اور اس معلومات کے ذریعے ہم اس غار تک پہنچے جہاں وہ بچے موجود تھے۔ ‘

ان کا ماننا ہے کہ جنگل کی یہ روح کسی جانور یا انسان یا کسی اور روپ میں موجود ہو سکتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ رات کے وقت ’آپ اس کے رونے کی آواز سن سکتے ہیں لیکن اسے دیکھ نہیں سکتے۔ آپ صرف اس کی موجودگی کو محسوس کر سکتے ہیں۔‘

’زخمی ماں نے بچوں سے کہا جاؤ اپنی جان بچاؤ‘

کولمبیا میں ایمازون کے پُرخطر ایمازون جنگل میں 40 دن کے بعد بچائے جانے والے چار بچوں کی ماں ان کا طیارہ گرنے کے بعد چار دن تک زندہ رہی۔

مگدلینا مکیٹیو بُری طرح زخمی تھیں۔ انھوں نے اپنے بچوں سے کہا کہ وہ وہاں سے چلے جائیں اور مدد تلاش کریں۔

صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بچوں کے والد مینوئل رانوک نے کہا کہ ان کی بڑی بیٹی نے انھیں بتایا کہ ان کی والدہ نے انھیں جنگل سے باہر نکلنے اور خود کو بچانے کی تلقین کی تھی۔

13، نو، پانچ اور ایک سال کی عمر کے چار بہن بھائیوں کو جمعہ کو جنگل سے بچا کر ہوائی جہاز سے باہر لایا گیا۔ انھیں ملک کے دارالحکومت بوگوٹا کے ایک فوجی ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

رانوک نے ہسپتال کے باہر نامہ نگاروں کو بتایا کہ مرنے سے پہلے، ان کی ماں نے انہیں کچھ اس طرح کہا کہ تم لوگ یہاں سے چلے جاؤ، تمہارے والد تمہیں اتنا ہی پیار دیں گے جتنی محبت میں دیا کرتی تھی‘۔ انھوں نے مزید کہا کہ 13 سالہ لیسلی نے یہ واضح کیا ہے کہ، درحقیقت، ان کی والدہ چار دن تک زندہ تھیں‘۔

جنگل میں بچوں کے وقت اور ان کے معجزانہ طور پر بچ جانے کے بارے میں تفصیلات سامنے آ رہی ہیں۔

ریسکیو ورکر نکولس آرڈنیز گومز نے اس لمحے کو یاد کیا جب انھوں نے بچوں کا پتہ لگایا ۔

’انھوں نے سرکاری ٹی وی چینل آر ٹی وی سی کو بتایا کہ سب سے بڑی بیٹی لیسلی چھوٹے بچے کو اپنی گود میں لیکر میری جانب بھاگتی ہوئی آئی اور کہا کہ میں بھوکی ہوں‘۔

دو لڑکوں میں سے ایک لیٹا ہوا تھا۔ اس نے اٹھ کر مجھ سے کہا کہ میری ماں مر گئی ہے‘۔ انھوں نے کہا کہ امدادی کارکنوں نے ان سے انتہائی نرمی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم تمہارے دوست ہیں اور ہمیں تمہارے گھر والوں نے بھیجا ہے‘۔

آرڈنیز گومز نے کہا کہ لڑکے نے کہا ’مجھے کچھ روٹی اور ساسیج چاہیے‘۔

یہ بچے مقامی گروپ ہیوٹو کے رکن ہیں اور ان کے دادا نے کولمبیا کے میڈیا کو بتایا کہ کھانے کے پھل اور بیجوں کے بارے میں ان کا علم ان کی بقا کی وجہ بنا ہے۔

اپنے بہن بھائیوں کو زندہ رکھنے کا سہرا سب سے بڑی بچی 13 سالہ لیسلی کے سر ہے۔

کولمبیا طیارہ حادثہ

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

چار بہن بھائیوں کو جمعہ کو جنگل سے بچا کر ہوائی جہاز سے باہر لایا گیا

امدای ٹیم میں شامل ایک مقامی شخص ہنری گوریرو، جنھوں نے آخر کار بچوں کو تلاش کیا، نے کہا کہ جنگل میں وہ ایک چھوٹی سی پناہ گاہ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔

انھوں نے ترپال سے ایک چھوٹا سا خیمہ بنایا تھا اور زمین پر ایک تولیہ رکھا تھا۔ وہ ہمیشہ دریا کے پاس رہتے تھے اور لیسلی سوڈا کی ایک چھوٹی بوتل لے کر جاتی تھی جس میں وہ پانی بھرتی تھی‘۔

بچوں کو بچانے کی اتوار کو جاری کی گئی فوٹیج میں، چاروں بہن بھائی جنھوں نے کئی ہفتے جنگل میں تنہا گزارے تھے بے حال نظر آئے۔

گوریرو نے کہا کہ ’ ان کے ذہن میں صرف ایک ہی چیز تھی کہ کھانا، کھانا اور کھانا، جب وہ مل گئے تو وہ چاول کی کھیر کھانا چاہتے تھے، وہ روٹی کھانا چاہتے تھے‘۔

مگدلینا مکیٹیو اور ان کے بچے یکم مئی کو سیسنا 206 ہوائی جہاز میں ایمازون میں سنجوس ارار کیوارا صوبے سے ڈیل گویئر جا رہے تھے۔

وہ وہاں اپنے بچوں کو ان کے والد سے ملوانے لے جا رہی تھیں جو باغی گروپ کی جانب سے دھمکیاں ملنے کے بعد اپنے گھر سے فرار ہو گئے تھے۔

جہاز کا انجن خراب ہوا اور جہاز جنوبی کولمبیا کے گھنے جنگل میں گر گیا۔ امدای ٹیم کو جہاز کا ملبہ تلاش کرنے میں دو ہفتے لگے۔

جہاز میں موجود بچوں کی ماں اور دو پائلٹوں کی لاشیں فوج کو جائے حادثہ سے ملی تھی لیکن ایسا لگتا ہے کہ بچے مدد کی تلاش کے لیے جنگل میں بھٹک گئے تھے۔

لاپتہ بچے ایک بڑے ریسکیو آپریشن کی تلاش کا مرکز بن گئے جس میں 100 سے زیادہ فوجی، مقامی لوگ اور سونگھنے والے کتوں نے حصہ لیا۔

تلاش کرنے والی ٹیموں نے جنگل میں کئی جگہ نشانات دیکھے، جن میں پیروں کے نشانات اور پھلوں کے ٹکڑے بھی شامل تھے جنھیں کاٹا گیا تھا، جس کی وجہ سے انھیں یقین ہوا کہ بچے حادثے میں بچ گئے تھے۔

ہیلی کاپٹروں نے اس علاقے پر پرواز کی اور ہوئی ٹوٹو زبان میں ان کی دادی کی جانب سے ریکاڑڈ کیا ہوا پیغام نشر کیا جس میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ کوئی سراغ چھوڑیں تاکہ ان کا پتا لگایا جا سکے۔

بچوں نے اپنے ریسکیورز کو بتایا کہ انھوں نے ہیلی کاپٹر اور پیغام سنا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ