افغانستان میں طالبان حکومت کی مشکلات: امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا نیا دور آئندہ ہفتے سے قطر میں
طالبان حکومت کے عبوری وزیرخارجہ امیر خان متقی
امریکی حکومت اور افغان طالبان کے درمیان افغانستان کے معاشی بحران اور دہشت گردی سمیت اہم معاملات پر بات چیت آئندہ ہفتے قطر میں شروع ہو گی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران بتایا کہ دوحہ میں ہونے والے یہ مذاکرات دو ہفتے جاری رہیں گے اور امریکی صدر کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان ٹام ویسٹ داعش اور القاعدہ کے خلاف انسداد دہشت گردی میں تعاون، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مالی امداد، افغانستان کے معاشی بحران کے علاوہ ان امریکی اور افغان شہریوں کے انخلا پر بھی طالبان سے بات چیت کریں گے جو بیس سالہ جنگ کے دوران افغانستان میں امریکہ کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ مذاکرات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب افغانستان میں طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی حال ہی میں امریکی کانگریس کو لکھے گئے خط میں تنبیہ کر چکے ہیں کہ اگر امریکہ نے نو ارب ڈالر مالیت کے منجمد اثاثے جاری نہ کیے تو افغانستان کا مالی بحران شدت اختیار کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر دنیا بھر میں افغان شہری ہجرت کر سکتے ہیں۔
‘امریکہ افغان طالبان سے قومی سلامتی امور پر بات چیت کرتا رہے گا’
امریکہ محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ ‘ہم نے مسلسل کہا ہے کہ ہم طالبان کے ساتھ عملی بنیادوں پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ بلاشبہ اس امر کو یقینی بنانا کہ افغانستان دوبارہ کبھی بین الاقوامی حملوں کے لیے بطور لانچ پیڈ استعمال نہ ہو، امریکہ کے بنیادی قومی مفاد کا معاملہ ہے۔’
امریکی محکمہ خارجہ کی بریفنگ کے دوران ان سے یہ سوال بھی کیا گیا تھا کہ آیا امریکہ کو ان مذاکرات میں کوئی کامیابی حاصل ہوئی جن کے تحت افغانستان میں انسداد دہشت گردی کے لیے آپریشنز میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک سے تعاون حاصل ہونا تھا تاہم نیڈ پرائس نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکی خصوصی ایلچی برائے افغانستان ٹام ویسٹ دوحہ میں افغان طالبان کے ساتھ ان تمام امور پر بات چیت کریں گے جو امریکہ کے لیے اہم ہیں۔ ‘افغانستان میں جاری معاشی اور انسانی بحران بھی ان مذاکرات کا ایک اہم حصہ ہو گا۔’
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ افغان باشندوں کی مدد کے لیے 474 ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کر چکا ہے جس کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنایا جا رہا ہے کہ زمین پر امداد ضرورت مندوں تک پہنچ سکے جس کے لیے افغانستان کے ہمسایہ ممالک سے بھی رابطہ رکھا جا رہا ہے۔
افغانستان میں دولت اسلامیہ کی جانب سے حالیہ دنوں میں حملوں میں اضافہ ہوا ہے
واضح رہے کہ امریکی خصوصی ایلچی برائے افغانستان ٹام ویسٹ اس سے پہلے پاکستان میں بھی افغان طالبان رہنماؤں سے مذاکرات میں حصہ لے چکے ہیں لیکن اب تک امریکہ کی جانب سے افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا گیا۔
افغان طالبان امریکہ سے کیا چاہتے ہیں؟
افغانستان میں طالبان کی حکومت کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج معاشی بحران ہے۔ اسی لیے طالبان کی حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے امریکی کانگریس کو ایک کھلا خط لکھا تھا جس میں افغانستان کے منجمند اثاثوں کو جاری کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔
اس خط میں امیر خان متقی نے تنبیہ کی تھی کہ اگر امریکہ نے نو ارب ڈالر مالیت کے اثاثے جاری نہیں کیے اور معاشی پابندیاں ختم نہیں کی گئیں تو انسانی بحران شدت اختیار کر سکتا ہے۔
اس خط میں انہوں نے لکھا تھا کہ ‘ان کی حکومت نے ملک میں سیاسی استحکام پیدا کیا ہے اور امن قائم کیا ہے لیکن بڑھتی ہوئی معاشی مشکلات پہلے سے موجود انسانی بحران میں اضافہ کر رہی ہیں۔’
‘اس معاشی بحران کی جڑ امریکہ کی جانب سے ان اثاثوں کو منجمد کرنا ہے جو ہمارے عوام کے ہیں۔’ امیر خان متقی کے مطابق موجودہ صورت حال میں افغانستان میں طالبان کی حکومت اور عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو گا جس کی وجہ سے خطے اور دنیا میں بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کریں گے۔
افغانستان میں بڑھتا ہوا معاشی اور انسانی بحران
واضح رہے کہ امریکہ کے علاوہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی جانب سے بھی مالی امداد کی مد میں سوا ایک ارب ڈالر کی رقم کو موخر کر دیا گیا تھا جو اسی سال جاری ہونی تھی۔
کروڑوں افغان اب عالمی ادارہ خوراک سے ملنے والی خوراک پر منحصر ہیں
اس مالی بحران کے باعث نا صرف افغانستان میں طالبان کی حکومت کو سرکاری ملازمین سمیت ڈاکٹرز اور اساتذہ کی تنخواہیں دینے میں مشکلات کا شکار ہے بلکہ اس کا اثر نچلی سطح پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ سالوں سے جاری خانہ جنگی اور طویل ہوتے قحط افغانستان کی چار کروڑ آبادی میں سے نصف کے لیے اس موسم سرما میں فاقوں کا باعث بن جائیں گے۔
ناروے کی ریفیوجی کونسل کے مطابق تقریبا تین لاکھ افغان شہری ایران جا چکے ہیں جب کہ پانچ ہزار شہری روزانہ کی بنیاد پر غیر قانونی راستوں سے افغانستان کے ہمسایہ ممالک جا رہے ہیں۔
Comments are closed.