اسرائیل، فلسطین تنازع: اسرائیلی جیل سے فرار ہونے والے فلسطینی قیدی کون ہیں اور اب ان کے ساتھ کیا ہو گا؟
دوبارہ گرفتار ہونے والے چند قیدیوں کو حال ہی میں عدالت میں پیش کیا گیا
رواں ماہ کے اوائل میں اسرائیل کے ایک سخت سکیورٹی والے جیل سے فرار ہو کر دوبارہ گرفتار ہونے والے چھ فلسطینیوں میں سے چار کے مقدمات کی دوبارہ سماعت شروع ہو گئی ہے۔
تو ہم اس پورے واقعے، ان افراد اور ان کے مستقبل کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
جیل بریک
چھ ستمبر کو شمالی اسرائیل کے گلبوا جیل سے چھ فلسطینی قیدی فرار ہو گئے تھے۔
یہ جیل ملک کے محفوظ ترین جیلوں میں سے ہے اور اسے ’دی سیف‘ قرار دیا جاتا ہے۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ ان افراد نے کئی ماہ تک ایک ہی سیل میں رہنے کے دوران باتھ روم کے فرش میں ایک سوراخ کیا تھا۔
سیل کے فرش میں سوراخ کے ذریعے وہ زیرِ زمین موجود خالی جگہ تک پہنچے
اس سے جیل کے نیچے وہ ایک خالی جگہ تک پہنچ گئے جو تعمیر کے دوران ستونوں کے زمین میں گاڑے جانے سے پیدا ہوئی تھی۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ اس خالی جگہ سے رینگ کر جیل کی بیرونی دیوار تک پہنچے اور پھر دوسری جانب ایک کچی سڑک تک ایک سرنگ کھودی جو بالکل محافظوں کی مچان کے نیچے سے نکلی۔
فرار کے بعد مقامی کسانوں نے قریبی کھیتوں میں ’مشکوک افراد‘ کی موجودگی کی اطلاع دی تو حکام نے الارم بجا دیا۔
جب رات چار بجے (عالمی وقت کے مطابق رات ایک بجے) جیل کے عملے نے قیدیوں کی گنتی کی تو اُنھیں معلوم ہوا کہ چھ قیدی کم ہیں۔
محافظوں کو خبر کیوں نہ ہوئی؟
قیدیوں نے فرار کے لیے جیل کی دیوار کے قریب ہی ایک دیہی علاقے تک سرنگ کھودی
اسرائیلی میڈیا نے کئی سکیورٹی خامیوں کو جیل توڑے جانے کی وجہ قرار دیا ہے۔
ان میں جیل کی تعمیر میں شامل نقشہ سازوں کی ویب سائٹ پر جیل کے بلیو پرنٹ کی اشاعت، مغربی کنارے کے شہر جنین کے چھ قیدیوں کو ایک ہی سیل میں رکھنا، جس میں تین قیدیوں کے فرار ہو جانے کا خطرہ موجود تھا، اور جیمرز کا استعمال نہ کرنا شامل ہے۔
اس کے علاوہ سرنگ کے دہانے کے قریب موجود مچان پر تعینات محافظ کے سوئے ہونے کی غیر مصدقہ اطلاعات بھی موجود ہیں۔
اس فرار سے اسرائیل کے سکیورٹی حکام کو سُبکی اٹھانی پڑی مگر فلسطینیوں نے اس کا خوب جشن منایا۔ عسکریت پسند گروہوں نے جیل توڑے جانے کو ’بہادرانہ اقدام‘ قرار دیا۔
کچھ قیدی زوم کے ذریعے عدالتی کارروائی میں شریک ہوئے
قیدی کون ہیں؟
فرار ہونے والوں میں سے ایک ذکریا زبیدی ہیں جو فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی جماعت الفتح کے مسلح گروہ الاقصیٰ بریگیڈ کے سابق کمانڈر ہیں۔
اُنھیں اسرائیلی فوج نے سنہ 2019 میں متعدد فائرنگ حملوں میں ملوث ہونے کے شبہے میں گرفتار کیا تھا اور وہ ٹرائل کا سامنا کر رہے تھے۔
دیگر پانچ قیدی محمود اردہ، ایہام کمامجی، یعقوب قادری اور منادل انفات جنگجو گروہ اسلامک جہاد کے ارکان ہیں۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسلامک جہاد کے چار ارکان اسرائیلیوں کی ہلاکت کا باعث بننے والے حملوں میں ملوث ہونے کے باعث عمر قید کی سزائیں کاٹ رہے تھے جبکہ پانچویں شخص کو نام نہاد انتظامی حراستی حکمنامے کے تحت دو سال سے بغیر کسی الزام کے تحت حراست میں رکھا گیا تھا۔
چار قیدیوں کو فرار کے کچھ ہی دن میں پکڑ لیا گیا تھا۔
انھیں دوبارہ کیسے گرفتار کیا گیا؟
فلسطینیوں نے جیل توڑے جانے کا جشن مناتے ہوئے اسے بہادرانہ اقدام قرار دیا تھا
محمود اردہ اور یعقوب قادری کو 10 ستمبر کو نذرتھ کے جنوبی مضافات میں گرفتار کیا گیا۔
ذکریا زبیدی اور محمد اردہ کو 11 ستمبر کو قریب ہی واقع فلسطینی گاؤں شبلی اُم الغنم میں گرفتار کیا گیا۔
ان افراد کے رشتے داروں نے پولیس پر اُن کے خاندان کے افراد کی گرفتاری کا بھی الزام عائد کیا ہے۔
دیگر دو افراد کے بارے میں پولیس نے 19 ستمبر کو ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ اُنھیں جنین شہر کے مشرقی علاقے سے گرفتار کیا گیا ہے۔
اب کیا ہو گا؟
سوال یہ ہے کہ فرار کی اس کوشش کی یہ چھ افراد کیا قیمت ادا کریں گے۔
ریڈ کراس کے مطابق بین الاقوامی قانون کے تحت فرار کی کوشش کرنے والے قیدیوں کو صرف انضباطی سزا کا سامنا کرنا چاہیے، یہاں تک کہ اگر فرار کی کوشش بار بار کی جائے۔
گلبوا جیل انتہائی سخت سکیورٹی والی جیل ہے اور اسے ’دی سیف‘ بھی قرار دیا جاتا ہے
مگر وکلا نے میڈیا کو بتایا ہے کہ دوبارہ گرفتار کیے گئے فلسطینی قیدیوں کو ممکنہ طور پر اضافی قید اور سخت سزاؤں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کے کمیشن برائے زیرِ حراست افراد کے مطابق 11 ستمبر کو ابتدائی عدالتی سماعت کے دوران چار قیدیوں کے خلاف کئی ابتدائی الزامات عائد کیے گئے: ’فرار، فرار میں مدد، حملے کی سازش، اور دشمن تنظیم کی رکنیت اور اسے خدمات فراہم کرنا۔‘
ان میں سے متعدد قیدیوں کے وکیل خالد مہاجنہ نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ اُن کے مؤکلین کو حراست کے دوران جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
خالد مہاجنہ نے کہا کہ محمد اردہ سے ’20 سے زیادہ اسرائیلی حکام نے تفتیش کی اور اُنھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کے باعث اُن کے پورے جسم پر زخم ہیں۔‘
خالد مہاجنہ نے مزید کہا کہ اُنھیں تفتیش کے دوران زیادہ تر وقت برہنہ رکھا گیا۔
اُن کے مطابق محمد اردہ نے اُنھیں یہ بھی بتایا کہ اسرائیلی سکیورٹی اہلکاروں نے ذکریا زبیدی پر حملہ کیا تھا۔
اسرائیلی پولیس نے ان الزامات پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے مگر اس مسئلے کو حال ہی میں اقوامِ متحدہ میں بھی اٹھایا گیا ہے۔
دوبارہ گرفتار کیے گئے قیدیوں کے وکلا نے کہا ہے کہ اُن کی توقع کے مطابق ٹرائل ایک سال تک جاری رہ سکتا ہے اور قیدیوں کو اپنی موجودہ سزاؤں کے ساتھ مزید کئی سال کی سزا دی جا سکتی ہے۔
Comments are closed.