’آپ تاوان نہیں دیں گے تو ہم آپ کی لڑکیوں اور داماد کو قتل کر دیں گے‘، کابل سے یورپ کے پُرخطر سفر کی کہانی

افغان

  • مصنف, سوران قربانی
  • عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس

افغان شہری جو طالبان سے بھاگ کر باہر جا رہے ہیں کو ترکی اور ایران کی سرحد پار کرنے کی کوشش میں جرائم پیشہ گروہوں کی طرف سے اغوا اور تشدد جیسے واقعات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

بی بی سی کی تحقیقات کے مطابق یہ گینگز بعد میں ان مغویوں کی ویڈیو بنا کر ان کے خاندان والوں کو بھیجتے ہیں اور بدلے میں بھاری تاوان کا مطالبہ کرتے ہیں۔

انتباہ: اس مضمون میں چند تفصیلات قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔

ایک پہاڑی کی چوٹی پر زنجیروں میں جکڑا ہوا افغان پناہ گزینوں کا ایک گروپ اپنی رہائی کی بھیک مانگ رہا ہے۔

ایک افغان نوجوان، جس کے ہونٹوں پر خون جما ہوا نظر آ رہا ہے اور چہرا مٹی سے اٹا ہوا ہے، ایسی ہی ایک ویڈیو میں کہتا ہے کہ ’مجھے کل اغوا کیا گیا ہے، یہ ہم سے ہر شخص کی رہائی کے بدلے چار ہزار ڈالر تاوان مانگ رہے ہیں۔ یہ ہمیں دن رات تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔‘

ایک اور ویڈیو میں ان نوجوانوں کے ایک گروپ کو برہنہ دکھایا گیا ہے، جو برف پر رینگتے نظر آتے ہیں اور کچھ لوگ انھیں پیچھے سے مارتے ہوئے آگے کی جانب ہانک رہے ہیں۔

ایک شخص جسے گینگ کے افراد جنسی تشدد کا نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں وہ ویڈیو میں کہتا ہے کہ ’میرا خاندان ہے، میرے ساتھ ایسا نہ کریں، میری ایک بیوی اور بچے ہیں۔ براہ مہربانی مجھ پر رحم کھائیں۔‘

یہ اور اس نوعیت کی دوسری ویڈیوز یہ ظاہر کرتی ہیں کہ کیسے یورپ جانے کے خواہشمند افغان شہریوں کو یہ جرائم پیشہ گروہ ایران میں اغوا کر لیتے ہیں۔ افغانستان سے ایران اور پھر ترکی سے ہو کر یورپ جانے والا راستہ کئی دہائیوں سے نقل مکانی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

درحقیقت میں نے خود 12 برس قبل برطانیہ میں پناہ حاصل کرنے سے قبل ایران سے بھاگ کر یہاں پہنچنے کے لیے اسی راستے کا انتخاب کیا تھا۔ مگر اب یہ راستہ پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک ہو چکا ہے۔

ایران سے ترکی جانے کے لیے گھنٹوں میدانوں اور پہاڑی رستوں سے گزرنا ہوتا ہے جہاں سایہ دینے کے لیے کوئی ایسی پناہ گاہ نہیں ہے جو وہاں گھومتے ہوئے سکیورٹی اہلکاروں کی نظروں سے غیرقانونی طور پر سرحد پار کرنے والوں کو بچا سکے۔

سنہ 2021 میں افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد ہزاروں افغان شہری ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں، جس سے ان جرائم پیشہ گروہوں کو اپنا کاروبار چمکانے کا موقع مل گیا۔

ان میں سے اکثر ان سمگلروں سے مل کر لوگوں کو ایران کی طرف سرحد سے اغوا کرتے ہیں اور ان غریب لوگوں سے رقم بٹورتے ہیں جو پہلے ہی اپنے اس سفر کے لیے کافی پیسے خرچ کر چکے ہوتے ہیں۔

افغان

،تصویر کا ذریعہAFP

بی بی سی کی ٹیم نے سرحد کے ساتھ دس ایسے دس مقامات کے بارے میں سُنا ہے جہاں ان لوگوں کو اس طرح کا تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ایک سماجی کارکن جو گذشتہ تین برس سے ایسی زیادتیوں کی تفصیلات مرتب کر رہے ہیں نے ہمیں بتایا کہ جب زیادہ لوگ اپنا ملک چھوڑ کر اس روٹ سے جا رہے تھے تو انھیں روزانہ ان شہریوں پر اس طرح کے تشدد کی دو یا تین ویڈیوز موصول ہوتی تھیں۔

ترکی کے شہر استنبول میں ایک اپارٹمنٹ میں ہماری ملاقات امینہ سے ہوئی۔ وہ افغانستان میں ایک پولیس افسر تھیں۔ مگر وہ اس وقت ملک چھوڑ کر فرار ہو گئیں جب انھیں اس بات کا ادراک ہوا کہ طالبان جو انھیں دھمکیاں دیتے تھے اب دوبارہ اقتدار میں واپس آنے والے ہیں۔

نرم انداز میں گفتگو کرنے والی امینہ جامنی ہیڈ سکارف پہنے ہوئے ہیں۔ انھوں نے مجھے اپنی روداد سنائی کہ کیسے ایک گینگ نے سرحد پر انھیں اور ان کے خاندان کو مغوی بنا لیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’میں بہت سہمی ہوئی تھی، میں ڈری ہوئی تھی کیونکہ میں حاملہ تھی اور وہاں کوئی ڈاکٹر بھی نہیں تھا۔ ہم نے اغواکاروں کے ہاتھوں بہت سے نوجوان لڑکوں کو ریپ کرنے کے واقعات کے بارے میں سُن رکھا تھا۔

امینہ اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کے اغوا کے بعد ان کے والد حاجی نے ہمیں بتایا کہ اس گینگ نے انھیں ایک ویڈیو بھیجی جس میں ایک افغان شہری کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔

ان کے مطابق میں اس طرح کی صورتحال سے دوچار تھا۔ وہ اس طرح کی ویڈیو بھیج کر مجھے متنبہ کر رہے تھے۔ اگر آپ تاوان کی رقم ادا نہیں کرتے تو ہم آپ کی لڑکیوں اور داماد کو قتل کر دیں گے۔

حاجی نے ہمیں مزید بتایا کہ انھوں نے اس گینگ سے اپنے خاندان کی رہائی کے لیے افغانستان میں اپنا گھر فروخت کر دیا۔ وہاں سے رہائی پانے کے بعد ان کا خاندان ترکی پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔

مگر امینہ کے لیے سرحد پر آٹھ دن کا مشکل وقت بہت کڑا ثابت ہوا اور ان کا حمل ضائع ہو گیا۔

گینگ کے علاوہ امینہ اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو ایک اور بڑی رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا اور وہ تھی ترکی، ایران سرحد پر بنی دیوار۔ یہ دیوار تین میٹر اونچی ہے جس پر خاردار تاریں، ’الیکٹرونک سینسرز‘ اور یورپی یونین کی طرف سے واچ ٹاورز بھی لگے ہوتے ہیں۔

ترکی ایران سرحد پر تعمیر کی گئی دیوار

ترکی نے ملک میں غیرقانونی آمدورفت کو روکنے کے لیے ایران کے ساتھ جڑی اپنی سرحد پر سنہ 2017 سے دیوار کی تعمیر شروع کی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ اس دیوار کے باوجود غیرقانونی آمدورفت ابھی تک جاری ہے۔

امینہ سمیت کئی اور لوگوں نے ہمیں بتایا کہ جب رات کو ترک حکام نے انھیں دوبارہ واپس بھیجا تو پھر وہ ایران کی طرف پرتشدد گروہوں کے ہاتھ لگ گئے۔ یہ ایسا الزامات ہیں، جنھیں انسانی حقوق پر کام کرنے والے اداروں نے بھی رپورٹ کیا ہے۔

محمد کاہان ترکی میں انسانی حقوق سے متعلق متحرک ہیں اور وہ پناہ گزینوں کے مقدمات کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح لوگوں کو واپسی پر مجبور کرنے سے جرائم پیشہ گروہوں کو لوگوں کو استحصال کرنے کا موقع ہاتھ آ جاتا ہے۔

ان کے مطابق اس طرح لوگوں کو پیچھے دھکیلنے سے ان گروہوں کو نہتے انسانوں پر ہر قسم کے ظلم اور تشدد کا موقع ہاتھ آ جاتا ہے۔

ان الزامات سے متعلق ترک حکام نے بی بی سی کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔ تاہم دیگر انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ترک حکام نے اس طرح لوگوں کو سرحد سے واپس بھیجنے کے الزامات کی تردید کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

دیوار کی تعمیر سے قبل مقامی لوگ اپنے گزر بسر کے لیے سرحد پار سمگلنگ کرتے تھے۔ اب یہ تجارت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ اب ان میں سے کچھ مقامی لوگ اغوا اور ٹریفکنگ جیسے جرائم میں ملوث ہو گئے ہیں۔

ایران کی سرحد کے قریب وان کا شہر ہے جو اب مہاجرین کی ٹریفکنگ کا گڑھ بن چکا ہے۔ یہاں پر ہم ایک نوجوان افغان شہری سے ملے جن کا نام احمد ہے۔ اب انھوں نے سمگلرز کے ساتھ اپنے معاملات طے کر لیے ہیں۔

احمد کے بھائی کو ان کے خاندان کے دیگر افراد سمیت ایران کی طرف سے اغوا کر لیا گیا تھا۔ وہ گذشتہ برس طالبان کی حکومت سے فرار ہو کر باہر جا رہے تھے۔

احمد اس وقت افغانستان میں ہی تھے۔ انھیں اپنے بھائی اور ان کی فیملی کی رہائی کے بدلے تاوان کی رقم ادا کرنے سے متعلق فون موصول ہوا۔

احمد کے مطابق ’میں نے انھیں بتایا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اغواکاروں نے میرے بھائی کی پٹائی شروع کر دی۔ ہمیں اس تشدد کی آواز سنائی دے رہی تھی۔‘

ایران

احمد نے ان کی رہائی کے لیے اپنے خاندان کی تمام اثاثے فروخت کر دیے۔ تاہم یہ تلخ تجربہ بھی انھیں چھ ماہ بعد اسی سفر پر روانہ ہونے سے نہ روک سکا۔

کابل میں ہماری ملاقات سید سے ہوئی۔ انھوں نے چھ بار ترکی جانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ ان کو جعلی کاغذات پر ترکی بھیجنے کے وعدے کیے گئے۔ ان کے مطابق انھیں ایک گینگ کے ہاتھوں فروخت کر دیا گیا۔ اس گینگ نے انھیں نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ ان سے دس ہزار ڈالر تاوان بھی مانگا۔

ان کے مطابق ’میں بہت سہما ہوا تھا۔ وہ میرے ساتھ کچھ بھی کر سکتے تھے۔ وہ میری آنکھیں، گردے اور دل نکال کر فروخت کر سکتے ہیں۔‘

مگر اس سب سے زیادہ انھیں اپنی عزت اور آبرو کی فکر لاحق تھی۔ انھوں نے گینگ کے افراد کو یہ کہتے سنا کہ وہ کیسے وہ ان کا ریپ کریں گے اور پھر ویڈیو ان کے خاندان والوں کو بھیج دیں گے۔‘

انھوں نے پانچ سو ڈالر دے کر اپنی جان بچائی۔

ہم نے ایرانی حکومت سے کہا کہ وہ سرحد پر متحرک ان گروہوں کے خلاف کیا کارروائی عمل میں لا رہے ہیں۔ مگر ابھی تک ایرانی حکومت سے ہمیں کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

بی بی سی پر ایران میں پابندی عائد ہے۔ اس وجہ سے ہم سرحد عبور کر کے مزید تحقیقات کے لیے ایران نہ جا سکے۔ ہمارے انٹرویو کے چند ہفتے بعد سید نے ہمیں بتایا کہ انھوں نے دوبارہ اپنا سفر شروع کر دیا ہے اور اب وہ تہران پہنچ گئے ہیں۔ انھوں نے آٹھ ماہ پہلے ہمیں یہ بتایا تھا اور اس کے بعد سے اب تک ہم ان سے کچھ نہیں سن سکے کہ وہ کہاں ہیں اور کیسے ہیں۔

امینہ جیسے دیگر لوگ جن سے ہماری ترکی میں ملاقات ہوئی ہے اب اپنے مستقبل کے لیے بہت پُرامید ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں اپنی جدوجہد جاری رکھوں گی۔ مجھے معلوم ہے کہ اب میں ماں بن جاؤں گی۔ مجھے معلوم ہے کہ میں مضبوط ہوں گی۔‘

اس انٹرویو میں کچھ لوگوں کے نام ان کی حفاظت کے پیش نظر تبدیل کیے گئے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ