آنگ سان سوچی: نوبل امن انعام سے روہنگیا قتلِ عام کے الزامات کے دفاع تک
(یہ تحریر پہلی مرتبہ 15 دسمبر 2019 کو شائع ہوئی تھی جسے آج کے دن کی مناسبت سے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔)
ایک زمانے میں خود ظلم کا شکار ہونے والی نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو اب میانمار کی اقلیت روہنگیا کے قتلِ عام کے الزامات کا دفاع کرتے دیکھنا کسی حیران کُن ستم ظریفی سے کم نہیں ہے۔
سنہ 2010 میں جب وہ نظر بندی سے رہا ہوئیں تو اگلے آنے والے برسوں میں دنیا بھر میں شہزادوں، صدور اور وزرائے اعظم نے آنگ سان سوچی کو اپنے عالیٰ شان گھروں میں کھلی بانہوں کے ساتھ خوش آمدید کہا۔
ایک ایسی خاتون کے ساتھ وقت گزارنا جنھوں نے اپنی بالغ زندگی کا زیادہ تر حصہ جمہوریت کے حصول میں وقف کیا، کافی پُر کشش بات تھی۔
دا ہیگ کے پیس پیلس کی شان و شوکت، عالمی ہم آہنگی کی سنگِ مرمر کے فرش والی یادگار میانمار کی نوبل امن انعام یافتہ آنگ سان سوچی کے لیے آرام دہ جگہ بلکہ آبائی رہائش جیسی تھی۔
مگر اب نہیں۔ اس بار لال قالین تھا نہ خوش آمدید کہنے والی کمیٹی اور بینڈ باجا۔
یہ بھی پڑھیے
اس کے بجائے گریٹ ہال آف جسٹس کے رنگین شیشوں سے اندر آنے والی روشنی اکثر ایک آسیب زدہ دکھنے والی شکل پر پڑتی جنھوں نے انتہائی ناقابل تصور حد تک لرزہ خیر مظالم کی تفصیلات خود آ کر سننے کا فیصلہ کیا۔ ایسے افعال جو اُن کی نگرانی میں اُن کے ملک میں ہوئے۔
یہ مقدمہ بین الاقوامی کورٹ آف پبلک اوپینیئن میں دو سال تک چلتا رہا اور اب میانمار کی اُس فوج کی کارروائیوں کا دفاع کر کے آنگ سان سو چی انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں 17 ججوں کے دل جیتنے کی کوشش کر رہی تھیں جنھوں نے 15 سال تک انھیں نظربند رکھا۔
یہ دن بھی آئے گا۔۔۔ پوری دنیا سمیت خود آنگ سان سوچی نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔
عالمی انسانی حقوق کی ماند پڑتی روشن مثال کے قول و فعل کے تضاد کا یہ عالم تھا کہ وہ اُن 740000 روہنگیا مسلمان پناہ گزینوں کی دل دہلا دینے والی گواہیوں کے خلاف دلائل دے رہی تھیں جو ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے تھے۔
مجھے خیال آیا کہ وہ اپنی غیر موجودگی میں نوبل انعام حاصل کرنے کے 28 سال بعد کورٹ میں واپس آئی تھیں۔ یہ تاریخ کا وہ عجیب پہلو تھا جس نے آنگ سان سو چی کے عالمی رتبے میں سست رفتار تبدیلی واضح کی۔
میں اس غیرمعمولی ہفتے کے کچھ مناظر کئی عرصے تک یاد رکھوں گا۔
بنگلا دیش میں دنیا کے سب سے بڑے پناہ گزینوں کے کیمپ کوکس بازار کی مایوس کُن بے رخی کا سامنا کرنے والے روہنگیا سفر کر کے دا ہیگ آئے تھے اور عدالت کے مہمان تھے۔
ہر صبح پناہ گزین بھی سو چی جیسی چمکتی شاندار گاڑیوں میں آئے۔ انھیں بھی چند دنوں کے لیے ہی سہی لیکن یہاں وہی آرام دہ زندگی میسر تھی جو اُن کے لوگوں کو ختم کرنے کی کوشش کرنے کے الزامات بھگتنے والی اُس ملک کی رہنما کو تھی۔
اپنی برادری کے ان تین بے ریاست نمائندوں کے لیے انصاف کے ترازو کچھ گھنٹوں کے لیے برابر ہو گئے۔
پھر وہاں آنگ سن سو چی کا چہرہ نظر آیا۔ وہ شاید پہلی بار اتنی گہری تفصیل میں برما کی فوج کی جانب سے روہنگیا برادری کی نسل کشی کی داستان سن رہی تھیں۔
آنگ سن سو چی کے آمد میں دلچسپی اتنی زیادہ تھی کہ غیرملکی میڈیا کے لیے ایک اور کمرہ کھولنا پڑا۔
جب وکلا نے دا گیمبیا کے روہنگیا پناہ گزینوں جس میں حاملہ خواتین کو مار مار کر ہلاک کرنے، بڑے پیمانے پر ریپ اور بچوں کو آگ میں جھونکنے جیسے واقعات کی تفصیلات پڑھنا شروع کیں تو کمرے میں اداسی سے لوگوں کے سر ہلنے لگے اور ہلکی آہوں کی آوازیں آنے لگیں۔
ہم نے بڑے ٹیلی وژن پر سو چی کا چہرہ دیکھا جو میانمار کے خلاف الزامات سنتے ہوئے اکثر منجمد ہو جاتا۔
آنگ سان سو چی شاید اپنی قانونی ٹیم اور وفد کے ساتھ بیٹھی ہوں مگر اکثر وہ بہت تنہا لگتیں۔ انھوں نے اپنے آپ کو اپنے مغربی دوستوں سے الگ کرکے چین کی طاقتور گرفت میں پناہ لی ہے جو انھیں اہم معاشی حمایت کے ساتھ ساتھ اقوامِ ممتحدہ کی سکیورٹی کونسل میں سیاسی پناہ فراہم کرتا ہے۔
یہ میانمار کے مبینہ جرائم کے حوالے سے کسی بھی ووٹ پر چین کی ویٹو طاقت ہی ہے جس نے روہنگیا برادری کے لیے انصاف کا سب سے اہم راستہ بند کیا ہوا ہے۔
میں کورٹ کے باہر سو چی کی حمایت اور مخالفت میں کھڑے ہجوم کو یاد رکھوں گا۔ پانچ ہزار میل دور میانمار سے آئے 100 سے زائد حمایتیوں نے ہاتھوں میں بینر اٹھا رکھے تھے اور وہ ‘مدر سو (والدہ سو)’ کے نعرے بلند کر رہے تھے۔
یہ میانمار کے مبینہ جرائم کے حوالے سے کسی بھی ووٹ پر چین کی ویٹو طاقت ہی ہے جس نے روہنگیا برادری کے لیے انصاف کا سب سے اہم راستہ بند کیا ہوا ہے۔
مجھے کوئی شک نہیں ہے کہ سوچی کے لیے یہ محبت حقیقی تھی۔ وہاں پر کوئی کمیونسٹ حکومت کے طرز کا ہجوم نہیں تھا جہاں لوگوں میں خوف ہوتا ہے اور کوئی بھی نہیں چاہتا کہ وہ پہلا شخص ہو جو تالیاں بجانا بند کرے۔
بلکہ انھوں نے ایک پرانا گیت گایا جو گذشتہ فوجی آمریت پر تنقید تھی۔
اس کے علاوہ گیتوں کی ایک منظور شدہ فہرست دی گئی اور سو چی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) نامی پارٹی کے پرچم لہرانے پر پابندی لگائی گئی۔ شاید یہ اس لیے کیا گیا تاکہ دا ہیگ میں سو چی کے آنے سے این ایل ڈی کو فائدہ ہونے کا تاثر ختم کیا جا سکے۔
لیکن کسی شبے میں نہ رہیں، قوم کے دفاع نے انھیں میانمار میں اگلے سال کے عام انتخابات سے پہلے ہی بڑا حوصلہ دے دیا ہے۔
میں نے کورٹ میں تین تصاویر دیکھیں جو اہم معلوم ہوئیں۔ اِن دِن نامی گاؤں میں قتل کیے گئے 10 روہنگیا مردوں کی قبر میں لی گئی تصویر کورٹ میں دکھائی گئی۔ یہ قتلِ عام روئیٹرز کے نامہ نگار یا سو او اور وا لون نے فاش کیا۔ انھیں پولیٹزر پرائز سے نوازا گیا لیکن میانمار نے انھیں جیل میں 500 دن سے زیادہ کی سزا سنائی۔
آنگ سان سو چی کی قانونی ٹیم کے مطابق یہ تصویر بے معنی اور واہیات تھی۔
جب نوبل امن انعام یافتہ سو چی کی باری آئی تو انھوں نے رخائن ریاست میں ماؤنگ ٹاؤن شپ میں ایک فٹبال میچ کے دوران مسکراتے ہجوم کی تصویر لگائی۔ بدھ مت کے پیروکار اور مسلمان، شانہ بشانہ۔
یہ اِن دِن کی تصویر کے سامنے ایک عجیب، بچگانہ اور کمزور جواب تھا۔
تیسری تصویر رنگون سے ایک ساتھی نے بھیجی۔ مجھے یہ تب موصول ہوئی جب آنگ سان سو چی کورٹ میں آخری بار بیان دے رہی تھیں۔ تصویر میں سڑک پر ایک ٹینک کھڑا تھا۔
میں ساکت رہ گیا۔ کیا یہ فوجی بغاوت تھی؟ کیا یہ طاقتور جرنیلوں کی طرف سے ملک کو دوبارہ چھیننے کی کوشش تھی جبکہ جمہوری طور پر نامزد کی گئی رہنما دنیا کے سامنے اپنی فوج کا دفاع کر رہی تھیں؟
بعد میں پتا چلا کہ ٹینکوں کو ایک نئے بیس پر منتقل کیا جا رہا تھا لیکن ابھی تک غیرمستحکم جمہوریت والے ملک میں ایک بار دھڑکنیں تیز ضرور ہو گئیں۔
آنگ سان سو چی کے یہاں آنے سے یہ تو پتا چل گیا کہ یہ منظر ہمیشہ دیکھنے لائق ہو گا۔ اور مغرب کی وہ امیدیں دم توڑ گئیں کہ شاید سو چی خود کو ایسی فوج سے دور رکھیں جس پر وہ حکمرانی نہیں کرتیں۔
روہنگیا کے لیے اپنے اخلاقی اختیار کو استعمال کرنے میں ناکام ہونے پر دو سال کی بین الاقوامی تنقید کے بعد، اب وہ بدترین بدسلوکیوں کے قانونی دفاع کا مستقل چہرہ بن گئی ہیں۔
دی ہیگ کی سردیوں سے دور اور اب تک محفوظ رہنے والے جرنیلوں نے امن کی نوبل انعام یافتہ کو بہت سے لوگوں کی نظر میں ناقابل معافی مظالم کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
انھیں اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیے ہو گا؟
Comments are closed.