امریکہ میں 35 ڈالر میں خریدا گیا پیالہ پانچ لاکھ ڈالر کا کیسے ہو گیا؟

یہی وہ پیالہ ہے جس کو 35 ڈالر میں خریدا گیا اور اب اس کی قیمت 5 لاکھ ڈالر تک بتائی جارہی ہے
نوادارت اپنے مالکان کے لیے اکثر اچھی خبر لے کر آتے ہیں اور جس پیالے کا ذکر اب آپ پڑھنے والے ہیں اس کے مالک کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔
جہاں تک نوادرات کی تلاش کا سوال ہے اس سے بہتر نتیجہ کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔
امریکی ریاست کنکٹیکٹ کے ایک چھوٹے سے بازار سے محض 35 ڈالر میں خریدے گئے ایک پیالے کے بارے میں یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ 15ویں صدی کے ایک نایاب چینی فن کا نمونہ ہے۔
چینی مٹی کے بنے ہوئے سفید رنگ کے اس پیالے پر سب سے پہلے نوادارت کے ایک شوقین کی نظر پڑی تھی جس کے بعد جلد ہی اس بارے میں ماہرین نودارات سے رجوع کیا گیا۔
اپنی تفتیش مکمل کرنے کے بعد ماہرین نے ایک خوش خبری سنائی۔ انہوں نے بتایا کہ اس پیالے کی قیمت تین لاکھ سے پانچ لاکھ ڈالر کے درمیان ہے۔
دراصل ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ پوری دنیا میں اس طرح کے صرف سات پیالے موجود ہیں اور یہ ان میں سے ایک ہے۔ باقی کے چھ پیالے عجائب گھروں کی رونق بنے ہوئے ہیں۔
چینی مٹی کے بنے ہوئے قدیم سازو سامان کی ماہر، اینگلا میکاٹر نے خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس کو بتایا، ‘ہم لوگوں کو بہت جلد یہ احساس ہو گیا تھا کہ ہم ایک بے حد خاص چيز کا معائنہ کر رہے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے:
ان کا مزید کہنا تھا ‘اس پیالے پر کی گئی پیٹنگ کا انداز، پیالے کی شکل، گولائی اور اس پر جو نیلا رنگ استعمال ہوا ہے وہ 15 ویں صدی کے ابتدائی عرصے میں بنائے گئے مٹی کے برتنوں کی ایک اہم خاصیت ہے۔‘
چھ انچ چوڑے اس پیالے میں کوبالٹ نامی دھات سے بنائے گئے نیلے رنگ سے پینٹنگ کی گئی ہے اور اس کے کناروں پر بہت پیچیدہ اور مہین ڈیزائن بنائے گئے ہیں۔
میکاٹر کا مزید کہنا تھا ‘اس پیالے کا گہرائی سے معائنہ کرنے اور اس کی تمام خصوصیات کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کا تعلق چین کی منگ سلطنت سے ہے۔‘
یہ پیالہ ریاست کنکٹیکٹ کے بازار میں فروخت کے لیے کیسے پہنچا یہ اب بھی ایک معمہ ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ منگ سلطنت سے تعلق رکھنے والے کسی ایک ہی خاندان نے نسل در نسل ایک دوسرے کو دیا ہو گیا۔
میکاٹر کا کہنا تھا ‘یہ دیکھنا ہمیشہ کافی حیران کن ہوتا ہے کہ اس طرح کے واقعات آج بھی پیش آتے ہیں اور اس طرح کے نایاب نوادرات کی دریافت اب بھی ممکن ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا، ‘ہم جیسے ماہرین کو یہ جان کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ جن چيزوں کے بارے میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اب وہ وجود نہیں رکھتیں وہ کسی طرح معلوم نہیں کہاں سے ہمارے سامنے نمودار ہو جاتی ہیں”
Comments are closed.