سپریم کورٹ آف پاکستان نے پی ٹی آئی کے بلے کے نشان کے کیس کو 10 جنوری کو سماعت کے لیے مقرر کر دیا۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے وکلاء بیرسٹر گوہر اور حامد خان نے رجسٹرار سپریم کورٹ سے ملاقات کی ہے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ پی ٹی آئی کے وکلاء نے رجسٹرار سپریم کورٹ سے بلے کے نشان کی درخواست آج ہی سماعت کے لیے مقرر کرنے کی استدعا کی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے وکلاء بیرسٹر گوہر اور حامد خان کا مؤقف ہے کہ یہ اہم نوعیت کا مقدمہ ہے، جس پر فوری سماعت کی جائے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں لیول پلیئنگ فیلڈ کیس میں پی ٹی آئی کی توہینِ عدالت کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے بلے کے نشان کیس میں وکیل حامد خان کو بلا لیا۔
پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین نے عدالت سے درخواست کی کہ استدعا ہے کہ آج ہی کیس سماعت کے لیے مقرر کر کے سنا جائے، کل پشاور ہائی کورٹ میں بلے کے نشان سے متعلق سماعت ہے ، آج کسی بھی وقت کیس کی سماعت کر لیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسارکیا کہ حامد خان کہاں ہیں؟ انہیں بلائیں، اگر آپ اٹھ کر کمرۂ عدالت آنے کی زحمت نہیں کریں گے تو ہم کیا کریں؟ سب سے زیادہ درخواستیں پی ٹی آئی کی آ رہی ہیں اور سنی بھی جا رہی ہیں، کیس بھی لگوانا ہے اور اٹھ کر عدالت بھی نہیں آنا ہے۔
اس موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان کمرۂ عدالت میں پہنچ گئے اور روسٹرم پر آ گئے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے حامد خان سے سوال کیا کہ کیا آپ کی درخواست کل مقرر کر دیں؟
پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے استدعا کی کہ آج ہی سماعت کے لیے مقرر کر دیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آج 9 ممبر کا بینچ بھی ہے اور ایک خصوصی بینچ بھی ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے استدعا کی کہ ہماری ترجیح آج ہے، نہیں تو پھر کیس پرسوں لگا دیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ فیصلے کے خلاف آئے یا 184/3 کی درخواست ہے؟
پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ پشاور ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف 185/3 میں سپریم کورٹ آئے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بس پھر معاملہ ججز کمیٹی کے پاس نہیں جانا تو پرسوں کیس مقرر ہو گیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے پی ٹی آئی کے بلے کے نشان کے کیس کو 10 جنوری کو سماعت کے لیے مقرر کر دیا۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔
Comments are closed.