ایران کی اسرائیل کے خلاف کارروائی کی دھمکی: ایران اور حماس کے درمیان تعلقات اتنے گہرے کیسے ہوئے؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, ہوگو بچیگا
- عہدہ, نامہ نگار مشرق وسطیٰ، بی بی سی
ایران کے وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہ اسرائیل کو غزہ پر حملوں کی اجازت نہیں دی جائے گی اور خبردار کیا کہ آئندہ چند گھنٹوں میں اگر ’فلسطینیوں پر حملے‘ نہ رکے تو ’پیشگی کارروائی‘ کی جا سکتی ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ اگر غزہ میں اسرائیل کے ’فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم‘ بند نہ ہوئے تو ’مزاحمتی فورس‘ اگلے چند گھنٹوں میں ’پیشگی کارروائی‘ کر سکتی ہے۔
’مزاحمتی محاذ‘ یا فورس خطے میں فورسز کا ایک اتحاد ہے جس میں حزب اللہ بھی شامل ہے جو لبنان کا طاقتور گروہ ہے اور اسے ایران کی حمایت حاصل ہے۔ ’مزاحمتی محاذ‘ میں وہ گروہ بھی شامل ہیں جن کی ایران، شام میں حمایت کرتا ہے اور شام کی سرحد بھی اسرائیل سے ملتی ہے۔
گذشتہ ہفتے حزب اللہ اور اسرائیلی فوج کے درمیان لبنان اسرائیل سرحد پر فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس سے خدشہ پیدا ہوا کہ یہ حالیہ کشیدگی کا ایک اور محاذ بن سکتا ہے۔
حالیہ دنوں میں ایران نے متعدد بار اسرائیل اور حماس جنگ کے بڑھنے کے خطرے کی بات کی ہے۔ لیکن ایرانی وزیر خارجہ کا تازہ بیان اس حوالے سے ابھی تک کی سب سے سخت دھمکی ہے کہ یہ لڑائی پھیل سکتی ہے اور ایک علاقائی تنازع میں بدل سکتی ہے۔
حزب اللہ کے پاس ہتھیاروں کا ایک وسیع ذخیرہ ہے، جس میں اسرائیلی علاقے میں اندر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھنے والے میزائل اور دسیوں ہزار تربیت یافتہ جنگجو ہیں۔
مغربی ممالک نے تہران کو صورتحال کو مزید خراب کرنے سے خبردار کیا ہے اور اب تک سرحد پار سے تشدد پر قابو پایا جا چکا ہے۔
لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر اسرائیل غزہ میں زمینی کارروائی کرتا ہے تو یہاں کے عسکریت پسند یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اسرائیل کو جواب دینا چاہیے۔
امریکہ کی جانب سے ایران کو اس تنازع کو بھڑکانے سے روکنے کے لیے انتباہ جاری کیا گیا ہے اور اسرائیل کا کہنا ہے کہ اگر حزب اللہ بھی تنازع کا حصہ بن جاتا ہے تو وہ اسے منھ توڑ جواب دینے کے لیے تیار ہے۔
گذشتہ ہفتے کے دوران حزب اللہ اور اسرائیلی فوج کے درمیان سرحد پر فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے لیکن اب تک لڑائی کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
گذشتہ رات اسرائیلی فوج کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ اس نے ایسے اہداف کو نشانہ بنایا ہے جو عسکریت پسند گروہ حماس کے ساتھ منسلک ہیں۔ تاہم اس دوران ہلاکتیں رپورٹ نہیں کی گئیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایران اور حماس کے درمیان تعلقات اتنے گہرے کیسے ہو گئے؟
غزہ کی پٹی کے قریب اسرائیلی فوجی اڈوں اور شہریوں پر حماس کے ناقابل یقین حملے کے بعد سے اس اچانک کارروائی میں ایران کے کردار اور فلسطینی گروہوں کے ساتھ اس کے تعلقات کے بارے میں قیاس آرائیوں میں شدت آئی ہے۔
موجودہ تنازع سات اکتوبر کو اس وقت شروع ہوا جب حماس نے صبح سویرے اسرائیلی فوج اور شہریوں کو نشانہ بناتے ہوئے حملہ کیا۔ اس حملے میں ایک ہزار سے زائد اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں اور حماس نے تقریباً 200 افراد کو یرغمال بنا لیا ہے۔
اس کے جواب میں اسرائیل نے گنجان آباد غزہ پٹی پر فضائی حملے کیے۔ اب تک تقریباً 3000 فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کر دیا۔ اب نہ دوائیں ہیں، نہ بجلی ہے اور نہ کھانا۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ آہستہ آہستہ مزید علاقوں تک پھیل رہی ہے۔
اسرائیلی ڈیفنس فورس، آئی ڈی ایف، کو گولان کی پہاڑیوں سے ملحقہ علاقے میں فائرنگ کا سامنا ہے۔ حزب اللہ اب بھی جنوبی لبنان میں اسرائیل کے لیے ایک درد سر بنی ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عراق میں ایران کے حمایت یافتہ گروہ امریکی اڈوں کے لیے خطرہ بن رہے ہیں اور یمن میں حوثی گروپ نے فلسطینی گروہوں کو فوجی امداد کی پیش کش بھی کی ہے۔
ان تمام گروہوں کو ایک ہی ملک کی حمایت حاصل ہے اور وہ ہے ایران۔
اگرچہ ایرانی حکام نے اسرائیل پر حماس کے حملے کو فلسطین کی فتح قرار دیا ہے لیکن انھوں نے اس حملے کی منصوبہ بندی میں تہران کے ملوث ہونے کی واضح تردید کی ہے۔ دوسری جانب امریکہ اور اسرائیل نے بھی ایسے کوئی ٹھوس شواہد ملنے کی تردید کی ہے جو اس حملے میں ایران کے کردار کو ثابت کرتے ہوں۔
ایران کے فلسطینی گروہوں کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے زمینی اور فضائی محاصرے کے پیش نظر غزہ میں موجود گروپوں کو برقرار رکھنے کے لیے ایران کی مالی معاونت اور دیگر عسکری مدد انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
موجودہ جنگ کے درمیان یہ پوچھنا ضروری ہے کہ ایران فلسطینی انتہا پسند گروہوں کی حمایت کرنے والا سب سے طاقتور ملک کیسے بن گیا اور اس حمایت کی عکاسی اس کے طرز عمل میں کیسے ہوتی ہے۔
،تصویر کا ذریعہReuters
حمایت کی تاریخ
سنہ 1979 میں ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد سے تہران فلسطینی مشن کی حمایت بڑے فخریہ انداز سے کرتا آ رہا ہے۔
اس انقلاب سے قبل ایران دوسرا مسلم اکثریتی ملک تھا جس نے اپنے حکمران محمد رضا پہلوی کی حکومت میں اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔
لیکن اب ایران مشرق وسطیٰ کے ممالک میں بالکل مختلف ڈگر پر ہے اور اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی خطے کے دیگر مسلم ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا شروع کر دیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی آیت اللہ روح اللہ خمینی نے اسرائیل کا موازنہ ’کینسر‘ جیسی بیماری سے کیا ہے۔ انھوں نے مسئلہ فلسطین کو مسلم دنیا میں اپنی حکومت کی قانونی حیثیت بڑھانے اور شیعہ سنی تقسیم سے بالاتر ہو کر اسلامی اتحاد کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا۔
امام خمینی نے ہر سال رمضان کے آخری دن کو فلسطین کی حمایت میں ’یوم القدس‘ کے طور پر منانا شروع کیا۔
ایران فلسطین لبریشن آرگنائزیشن، پی ایل او، کے مفادات میں سے ایک تھا۔ تاہم پی ایل او کے ساتھ ایران کے تعلقات اس وقت خراب ہوئے جب پی ایل او کے رہنما یاسر عرفات نے ایران کی عراق کے ساتھ جنگ میں عراق کا ساتھ دیا تھا۔
سنہ 1988 میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خمینی نے انھیں غدار اور احمق قرار دیا تھا۔ اس وقت یاسر عرفات اسرائیل کے ساتھ سیاسی معاہدے کی جانب بڑھتے دکھائی دے رہے تھے لیکن ایران کی قیادت اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے امن مذاکرات کے خلاف تھی۔ علی خامنہ ای اب بھی ایران کے سپریم لیڈر ہیں۔
اسرائیل کو قبول کرنے پر جب فلسطینی دھڑوں میں تقسیم شروع ہوئی تو ایران نے اپنی توجہ پی ایل او اور اس کے بااثر دھڑے فتح سے ہٹ کر زیادہ سخت گیر اور حریف حماس اور فلسطینی اسلامی جہاد، پی آئی جے، پر مرکوز کردی۔
سنہ 2007 کے انتخابات کے بعد سے حماس نے غزہ کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور فتح نے مغربی کنارے کا کنٹرول سنبھالا ہوا ہے۔ فلسطینی علاقوں میں سیاسی قوتوں کے درمیان اس تقسیم کے پیش نظر، ایران کی حمایت اب بنیادی طور پر غزہ کی پٹی پر حکمرانی کرنے والے دھڑے یعنی حماس اور پی آئی جے کو حاصل ہے۔
یہ انتہا پسند گروہ خطے میں ایران کے دوسرے اتحادیوں جیسے اسرائیل اور امریکہ کے خلاف متحد ہو کر حزب اللہ اور شامی تنظیموں میں شامل ہو گئے۔
سنہ 2011 میں جب شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو ایران نے صدر بشار الاسد کی حمایت کی تھی لیکن حماس نے مخالفت کا اعلان کیا تھا۔
حماس کے رہنما، جو طویل عرصے سے شام میں رہ رہے ہیں، نے دمشق میں اپنے دفاتر بند کر دیے ہیں۔ اس کے بعد حماس نے شام کے صدر بشار الاسد کی جانب سے حزب اختلاف کے گروپوں کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن پر تنقید کے پیش نظر سنہ 2012 میں قطر کو اپنا نیا بیس بنایا تھا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
تعلقات میں سردمہری کے بعد پھر گرمجوشی
فلسطینی گروہوں خاص طور پر حماس کے ساتھ ایران کے تعلقات گہرے ہو گئے کیونکہ یہ گروپ اب بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ ہو چکا تھا۔
شام میں بشارالاسد کی شکست تقریباً ناممکن لگ رہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی مصری حکومت سینا اور غزہ کے درمیان اہم سرنگوں کو بند کر رہی تھی۔ اس سے حماس مالی طور پر کمزور ہو رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حماس کا جھکاؤ ایک بار پھر ایران کی طرف زیادہ ہو گیا۔
حماس اب بھی ایران کے توسیع یافتہ اتحادیوں میں شامل نہیں ہے، لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا حماس کے ایران کے اتحادی شام کے ساتھ تعلقات بہتر ہوتے ہیں یا نہیں۔
مشرق وسطیٰ میں ہونے والی نئی پیش رفت کے پیش نظر حماس کے پاس اب چند ممکنہ اتحادی رہ گئے ہیں۔ متحدہ عرب امارات، مراکش، بحرین اور سوڈان جیسے عرب اور مسلم ممالک نے سنہ 2020 اور سنہ 2021 کے درمیان اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنایا ہے۔
ان ممالک کے سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے پر بھی تبادلہ خیال کر رہا ہے۔
تاہم حماس کے حالیہ حملے اور پھر غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے جاری حملے نے ان مذاکرات کو ختم کر دیا ہے۔ سعودی میڈیا نے حماس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ خطے میں قیام امن کی سعودی عرب کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے ایران کے ایجنڈے کو پورا کر رہی ہے۔
اب تک کے شواہد سے پتا چلتا ہے کہ حماس نے اکیلے لڑنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن اگر تنازع بڑھتا ہے تو یہ فلسطینی دھڑے اور ایران کے مشترکہ مفادات کو پورا کر سکتا ہے، جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے مکمل مخالف ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایران فلسطینی گروہوں کی حمایت کیسے کرتا ہے؟
خیال کیا جاتا ہے کہ غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی گروہ قدس فورس کے ذریعے فوجی امداد حاصل کر رہے ہیں، جو ایرانی پاسداران انقلاب، آئی آر جی سی، کا حصہ ہے۔
سات اکتوبر کے حملے کے بعد پاسداران انقلاب کے سابق کمانڈر حسین کنانی نے حماس کو ایران کی مدد کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کیں۔ اس میں حماس کو اعلیٰ کارکردگی کے میزائل اور ڈرون بنانے میں مدد دینا بھی شامل ہے، جو فضائی تحفظ کے نظام سے بچ سکتے ہیں۔
سنہ 2021 میں المانیٹر نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں غزہ میں ہتھیاروں کی سمگلنگ کے ایران کے کچھ طریقوں پر بات کی گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق ایران مصر سے زمینی اور سمندری رستے سے اسلحہ بھیجتا ہے، جسے فلسطینی منزل مقصود تک پہنچاتے ہیں۔ حال ہی میں قدس فورس نے مغربی کنارے میں اور اس کے پار ہتھیاروں کی ترسیل کے لیے ڈرونز کا بھی استعمال کیا تھا۔
ایران کی حماس کے لیے حمایت کے کوئی درست اعداد و شماردستیاب نہیں ہیں۔ اپریل 2023 میں اسرائیلی وزیر دفاع گیلنٹ نے ایک اندازے کی بنیاد پر کہا تھا کہ ایران حماس کو سالانہ دس ارب ڈالر امداد بھیجتا ہے۔ اس میں سے کروڑوں روپے پی آئی جے کو بھی جاتے ہیں۔
حماس کی تازہ ترین کارروائی سے قبل پاسداران انقلاب کے کمانڈر ان چیف میجر جنرل حسین سلامی نے سنہ 2022 میں اعلان کیا تھا کہ ’میزائل اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ میں ٹرننگ پوائنٹ نہیں ہوں گے بلکہ اسرائیل کے خلاف اصل جنگ زمین پر ہو گی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’آج فلسطینیوں کے پاس زمین پر جنگ کرنے کی صلاحیت ہے جبکہ اسرائیل کی سب سے بڑی کمزوری زمینی جنگ ہے۔
’میزائل حملے جنگ کے ’ٹرننگ پوائنٹ‘ کا تعین نہیں کریں گے۔ کسی کو ڈرانے کے لیے میزائل بہتر ہوتے ہیں مگر میزائل زمینی جنگ کا متبادل نہیں ہو سکتے۔‘
Comments are closed.