نایاب تیندوا گلگت بلتستان اور ہزارہ ڈویژن کے خوبصورت علاقوں کا حسن ہے، لیکن جب اس خوبصورت مگر خطرناک جانور کا انسان سے سامنا ہوجائے تو اکثر اسے بے دردی سے مار دیا جاتا ہے۔
ایبٹ آباد میں کچھ ہی دن قبل ایک تیندوے کو لوگوں نے ڈنڈوں سے مار مار کر ہلاک کردیا تھا۔
لیکن آخر تیندوے اور انسان کا آمنا سامنا کیوں ہوتا ہے؟ کیا انسان تیندوے کی خوراک ہے؟ یا کیا تیندوے کے لیے جنگلات میں شکار ختم ہوگئے ہیں؟
ان سب سوالات کے جواب میں سب ڈویژنل فاریسٹ آفیسر وائلڈ لائف سردار محمد نواز نے بتایا کہ انسان تیندوے کی خوراک بالکل نہیں، وہ اپنی حفاظت میں انسان پر حملہ کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر جانور فوڈ چین کے ساتھ ایک دوسرے پر انحصار کرتا ہے، گلیات میں تیندووں کو بیرونی خوراک کی ضرورت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کی پیدائش کے 6 ماہ بعد جب بچوں کو الگ کیا جاتا ہے تو تیندوا نئے ساتھی کی تلاش میں انجانے علاقوں کا رُخ کرتے ہیں۔
سردار محمد نواز کے مطابق تیندوا اگر کسی انسان کو زخمی کرے یا مار دے تو پھر اس کا معاوضہ دینے کے لیے خیبر پختونخواہ حکومت کی پالیسی بھی موجود ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ تیندوے کو نقصان پہنچانے کی صورت میں سزا بھی دی جاتی ہے۔
دوسری طرف سینٹرل نیشنل قراقرم پارک کے اعداد و شمار کے مطابق بلتستان ڈویژن میں 14 نایاب تیندوے موجود ہیں، جن میں سے گھانچے میں 9، اسکردو میں 4 اور شگر میں 6 تیندوے پائے جاتے ہیں۔
ہنزہ نگر میں کچھ عرصہ قبل چیتے کو مارنے کے جرم میں دو افراد محمد اور بلال دو دو سال قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔
تھر پارکر میں گذشہ ماہ ایک تیندوے نے 7 افراد کو زخمی کردیا تھا تو لوگوں نے اسے مار دیا، جس کے بعد وائلڈ لائف نے علاقے میں سروے شروع کردیا ہے۔
ماہرین کے مطابق تیندووں کی موجودگی کی اطلاع بروقت دی جائے اور نقصان پہنچانے سے گریز کیا جائے تو تیزی سے معدوم ہوتی جنگلی حیات کو بچایا جاسکتا ہے۔
Comments are closed.