5 ملین ڈالر، 12 لاشیں اور دہائیوں پر محیط تحقیقات: امریکی تاریخ کی وہ ڈکیتی جس میں ملوث ہر ملزم یا تو قتل ہوا یا لاپتہ

ڈکیتی میں استعمال ہونے والی وین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, وقار مصطفیٰ
  • عہدہ, صحافی و محقق، لاہور

نیویارک کے جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ کے باہر کالے رنگ کی چوری شدہ فورڈ وین میں بیٹھے نقاب پوش افراد جس اشارے کے منتظر تھے، وہ انھیں رات تین بج کر 12 منٹ پرملا۔

اشارہ ملتے ہی ہتھیار لیے یہ افراد تیزی سے ڈیلیوریز گیٹ سے لُفتھانزا ایئر لائنز ٹرمینل میں داخل ہوئے اور 64 منٹ بعد وین میں 50 لاکھ ڈالر کی نقدی اور 10 لاکھ ڈالر کا سونا لاد کر فرار ہو گئے۔

11 دسمبر 1978 کا سورج نکلنے سے بہت پہلے امریکی سرزمین پر اس وقت کی تاریخ کی سب سے بڑی ڈکیتی ہو چکی تھی۔ آج کے حساب سے اُس ڈکیتی میں لوٹی گئی رقم کی مالیت 2.8 کروڑ ڈالر بنتی ہے۔

کیٹی سیرینا کی تحقیق ہے کہ 1970 کی دہائی میں نیویارک میں بہت سے واقعات ایسے ہوئے جو آج کے دورمیں نہیں ہو سکتے۔

’نیویارک مافیا کے پانچ خاندانوں بونانو، کولمبو، گیمبینو، جینوویس، اور لوچیز میں سے کم از کم ایک تقریباً ہر بڑے جرم کے پیچھے ہوتا تھا۔ لفتھانزا ڈکیتی کا تعلق بھی لوچیز خاندان سے تھا۔‘

لوچیز اس سے جڑے کیسے؟

نوجوانی سے لوچیز خاندان کے لیے کام کرتے جیمز برک نے ڈکیتی کا یہ منصوبہ بنایا تھا۔

نکولس پلیجی اپنی کتاب ’وائز گائی‘ میں لکھتے ہیں کہ لفتھانزا کے کارگو سپروائزر لوئس ورنر پر جُوئے کا قرض 20 ہزار ڈالر تک بڑھا توانھوں نے بُک میکر مارٹن کرگمین کو یہ رقم ادا کرنے کی بجائے اپنے ہی ٹرمینل پر ڈکیتی کا مشورہ دے دیا۔

’یہ اطلاع دیتے ہوئے کہ جرمنی سے آئے ناقابل شناخت ڈالرعارضی طور پر ایئر لائن کے ایئرپورٹ والٹ میں رکھے جاتے ہیں، انھوں نے کرُگمن سے ایسے لوگ جمع کرنے کو کہا جو وہاں ڈکیتی کر سکیں۔‘

کرُگمن کے اشارے پر گینگسٹر ہنری ہِل نے اپنے سرپرست برک کو اس بارے میں بتایا جن کے ساتھی ایئرپورٹ کارگو ٹرک لوٹنے کے لیے جانے جاتے تھے۔‘

برک، لوچیز کرائم فیملی کے ایک خوفناک کیپو(سربراہ) پال ویریو کے ماتحت تھے۔

چونکہ گینگ کو فوری نقد رقم کی ضرورت تھی اس لیے انھوں نے ڈکیتی کی اجازت دے دی۔ ایک بھاری رقم کے بدلے برک لوچیز کے لیے ڈکیتی کرنے پر مانے۔

نکولس پلیجی کے مطابق ڈکیتی کا یہ منصوبہ کوئینز میں واقع ہوٹل رابرٹ لاؤنج میں بنا۔ برک کی ملکیت یہ ہوٹل مجرموں کا مرکز تھا۔

ڈکیتی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ڈکیتی کا منصوبہ مہینوں میں بنا

ایلن مے نے لکھا ہے کہ ورنر اوران کے ساتھی گروئن والڈ اس سے قبل 1976 میں لفتھانزا سے غیر ملکی کرنسی میں 22,000 ڈالر چرانے میں کامیاب رہے تھے۔

ایوان رومان کے مطابق ورنر نے برک کو یہ معلومات بھی دیں کہ کہاں گاڑی پارک کرنا ہے، کس وقت داخل ہونا ہے اور انھیں کب تک اندر رہنا چاہیے۔

’یوں برک کو یہ کام آسان لگا۔ پھر بھی کئی مہینوں تک، انھوں نے ورنر، کرُگمن اور ایئرپورٹ اور سکیورٹی کے کام سے واقف دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی جاری رکھی۔‘

برک نے گیمبینو خاندان سے پاؤلو لی کیسٹری کے ساتھ ٹومی ڈی سیمون، اینجلو سیپے، لوئس کیفورا، جو سیویٹیلو سینئر، ٹونی روڈریگز، جوزف ایم کوسٹا، جو مینری، اور رابرٹ مکمہون کو لوچیز خاندان سے منتخب کیا۔

برک نے گاڑی چلانے کے لیے اپنے بیٹے فرینک اور ان کے ساتھی پارنل ’سٹیک‘ ایڈورڈز کو چُنا۔

ڈی سیمون، سیپے، کیفورا، سیویٹیلو ، روڈریگز، کوسٹا، مینری، مکمہون اور لی کاسٹری کو ایک چوری شدہ فورڈ ایکونولین وین میں خود ہی ڈکیتی کرنا تھی۔ اس وین کو ایڈورڈز کو چلانا تھا۔

فرینک برک کو ایئرپورٹ کے باہر ایک کار میں انتظار کرنا تھا جو ڈکیتی کے دوران پولیس کی کسی گاڑی کے ٹرمینل کے قریب پہنچنے پر اس سے ٹکرا جاتی۔

ویریو کے بیٹے پال کو لوچیز کا حصہ وصول کرنا تھا۔ بونانو خاندان کے کرائم کریو چیف ونسنٹ آسارو کو بھی حصہ ملنا تھا کیونکہ لوچیز لوگوں کو یہ جرم بونانو کے علاقے میں کرنا تھا اور جمی برک کو اس منصوبے کو مربوط رکھنا تھا۔

ایلن مے کا کہنا ہے کہ ڈکیتی میں اپنے اپنے کردار کے مطابق ہر شریک کو 10,000 سے 50,000 ڈالرکے درمیان حصہ ملنا تھا۔

یہ حصے اس اندازے کے مطابق تھے کہ ڈکیتی میں بیس لاکھ کی رقم ہاتھ لگے گی تاہم اصل رقم اس سے تین گنا رہی۔ ورنر کو ڈکیتی کی مجموعی رقم کا 10 فیصد ملنا تھا۔

ڈکیتی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ایف بی آئی کی ٹیم واردات کے بعد جائے وقوعہ سے تفصیلات حاصل کر رہی ہے

اطلاع اور اس پر عمل

عدالتی دستاویزات کے مطابق ورنر نے متنبہ کیا کہ نقد رقم کی ایک بڑی کھیپ جمعہ، 9 دسمبر کو ٹرمینل پر پہنچی ہے اور یہ رقم ویک اینڈ (اختتام ہفتہ) پر کارگو سٹوریج میں ہی موجود رہے گی۔

چنانچہ منصوبے کے مطابق 10 اور 11 دسمبر کی درمیانی رات چوری شدہ وین لفتھانزا ٹرمینل کے باہر کھڑی تھی۔

رات تین بج کر 12 منٹ پر پر کارگو ایجنٹ کیری وہلن نے مشکوک وین دیکھی تو پتا کرنے آگے بڑھے مگر وین میں موجود افراد نے ان پر پستول سے حملہ کیا اور انھیں وین کے اندر گھسیٹ لیا گیا۔ ان کا پرس لے لیا گیا اور انھیں دھمکیاں دی گئیں۔ کوئی چارہ نہ ہونے پر وہلن تعاون کرنے پر راضی ہو گئے۔

لفتھانزا ڈکیتی شروع ہو چکی تھی۔

ورنر کی دی گئی چابی کے ساتھ وہ لوگ عمارت میں داخل ہوئے اور خون آلود اور پٹِے ہوئے وہلن کو اپنی سنجیدگی کے ثبوت کے طور پر استعمال کرتے ہوئے باقی ملازمین کو ہانک کر ایک کمرے میں لے گئے اور وہاں بند بند کر دیا۔

لوچیز کے ایک رکن نے کسی بہانے ایک سینیئر کارگو ایجنٹ روڈی ایلریچ کو بلانے کا حکم دیا۔ ورنر کے مطابق ایلریچ کے پاس والٹ کے دو دروازوں والے نظام سے گزرنے کے کوڈز تھے۔

ورنر نے بتایا تھا کہ دوسرا دروازہ کھلنے سے پہلے، پہلے دروازے کو کھولنا، پھر بند کرنا اور دوبارہ لاک کرنا ہے۔ باہر نکلنے پر، پہلا دروازہ دوبارہ کھولنے سے پہلے دوسرا دروازہ بند اوراسے تالا لگانا ہے۔

کسی بھی غلطی سے سکیورٹی سسٹم فعال ہو سکتا ہے، جس پر فرار کا کوئی امکان نہیں ہو گا۔ پورٹ اتھارٹی پولیس 90 سیکنڈ سے بھی کم وقت میں ایئرپورٹ کو لاک ڈاؤن کر سکتی ہے۔

ایلن مے نے لکھا ہے کہ ایلریچ کو جب دروازے کھولنے پر مجبور کیا گیا تو وہ حیران ہوئے کہ نقاب پوشوں کو اس نظام کا اس قدر وسیع علم تھا۔

یہ بھی پڑھیے

احتیاط کے طور پر برک کے آدمیوں نے ایلریچ سے پہلا دروازہ کھلوایا، انھیں بندوق کی نوک پر زمین پر لیٹنے پر مجبور کرتے ہوئے 40 یا اس سے زیادہ پارسلز کا انتخاب کر کے ان سے دوسرا دروازہ کھولنے کے لیے کہا گیا۔ اس کے بعد سامان کو چیمبر میں لاد کر دوسرا دروازہ دوبارہ بند کر دیا گیا۔

بیرونی دروازہ کھلنے کے بعد ایک آدمی ایلریچ کو بندوق کی نوک پر اس کمرے میں لے گیا جہاں باقی ملازمین کو پہرے میں رکھا گیا تھا۔ رات سوا چار بجے تک تمام کارگو باہر وین میں لاد دیا گیا تھا۔ ملازمین کو ساڑھے چار تک کوئی فون کال نہ کرنے کی ہدایت کی گئی۔

ادھر موت کے خطرے کے تحت ملازمین نے حکام کو آگاہ کرنے کے لیے 14 منٹ انتظار کیا۔

جب تک حکام پہنچے وہاں برک کے آدمیوں کا کوئی نشان نہیں تھا۔ صرف 64 منٹ میں ملک کی سب سے بڑی ڈکیتی ہو چکی تھی۔ کوئی گولی نہیں چلی۔ کوئی بھی شدید زخمی یا ہلاک نہیں ہوا۔

ورنر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

قتل کا سلسلہ ڈکیتی کے بعد شروع ہوا

ڈکیتی کے دو دن بعد 13 دسمبر کو پولیس کو ایک موبائل افسر نے کال کر کے بتایا کہ بروکلین میں نو پارکنگ زون میں ایک بڑی وین کھڑی ہے جو ڈکیتی میں استعمال ہونے والی لفتھانزا وین جیسی ہے۔

پولیس کے تفتیش کار اور فنگر پرنٹ ماہرین فوری طور پر وہاں پہنچے اور کار کو ضبط کر لیا۔ مزید تفتیش پر اس سے پارنل ایڈورڈز کی انگلیوں کے نشانات ملے۔

ایڈورڈز سے پولیس کبھی پوچھ گچھ نہ کر سکی کیونکہ اُن کی غلطی کی وجہ سے انھیں ان کے اپارٹمنٹ میں مارا جا چکا تھا۔ رات کے کھانے کے بیچ میں مرغی کی ایک بوٹی ایڈورڈز کے منہ میں تھی جب ان کے سر میں پانچ گولیاں ماری گئیں۔

رقم منتقل ہونے کے بعد ایڈورڈز کو فورڈ ایکونولین کو ٹھکانے لگانے کا کام سونپا گیا تھا۔ کباڑیے کے پاس نیو جرسی جانے کی بجائے، ایڈورڈز نے کینارسی، بروکلین میں اپنی گرل فرینڈ کے گھر کا چکر لگایا اور نشے میں وین کو ایک نو پارکنگ زون میں کھڑا کر کے بھول گئے۔

ڈکیتی کے تین دن کے اندر فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) برک کے لوگوں کو ممکنہ مجرموں کے طور پر شناخت کر چکی تھی۔

پلیجی لکھتے ہیں کہ اس کی بڑی وجہ وین کی دریافت اور رابرٹ لاؤنج میں ان لوگوں کے ساتھ ایڈورڈز کے پہلے سے قائم روابط تھے۔

’ایف بی آئی نے ہیلی کاپٹروں میں ان کا پیچھا کرتے ہوئے ان کی گاڑیوں، رابرٹ لاؤنج میں موجود فونز اور یہاں تک کہ بار کے قریب کے پے فونز کی بھی بھاری نگرانی کی۔ ایف بی آئی پس منظر کے شور کے باوجود کچھ باتیں ریکارڈ کرنے میں کامیاب رہی، جیسے سیپے نے ایک نامعلوم آدمی کو ’لفتھانزا سے براؤن کیس اور ایک بیگ‘ کے بارے میں بتایا اور انھوں نے اپنی گرل فرینڈ کو بتایا کہ ’میں دیکھنا چاہتا ہوں، دیکھو کہاں رقم ہے، پچھلے لان میں ایک گڑھا کھودیں۔۔۔‘

تاہم یہ سب برک کے لوگوں کو ڈکیتی سے قطعی طور پر جوڑنے کے لیے کافی نہیں تھا اور یوں کوئی وارنٹ جاری نہیں کیے گئے۔

ایڈورڈز کو ’غلطی کی سزا‘ دینے کے بعد ہل کے مطابق برک نے عہد کیا کہ وہ ہر اس شخص کو قتل کر دیں گے جو انھیں لفتھانزا ڈکیتی میں ملوث کر سکتا ہو اور برک نے بالکل وہی کیا۔

چھ ماہ کے اندر اندر ڈکیتی میں ملوث تقریباً ہر شخص حتیٰ کہ فرینک برک، جمی کا بیٹا بھی مر گیا یا لاپتا ہو گیا، یا تو برک کے اپنے ہاتھ سے یا ان کے کسی ساتھی کے ہاتھوں۔

کرگمن نے چوری شدہ نقد رقم کا ایک بڑا حصہ مانگا تھا۔ ہل نے بتایا کہ برک اور سیپے نے ڈکیتی کے ایک ماہ بعد کرُگمن کو مار کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ۔ ان کی لاش کبھی نہیں ملی۔

ڈکیتی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

لوئس ورنر کو ڈاکوؤں کو ٹرمینل لے آؤٹ کے حوالے سے معلومات فراہم کرنے پر ڈکیتی کے چار ماہ بعد گرفتار کیا گیا۔ ورنر کی گرل فرینڈ اور مستقبل کی بیوی جینیٹ باربیری نے ایک بڑی جیوری کے سامنے ان کے خلاف گواہی دی۔ پیٹر گرون والڈ نے بھی اپنے دوست اور ساتھی کے خلاف بیان دیا۔

مئی 1979 میں سزا سنائے جانے کے بعد ورنر نے 15 سال قید کاٹی۔

ورنر کی گرفتاری سے برک کے خوف میں اضافہ ہو گیا۔ چند ہفتے بعد برک نے لوئس ’روسٹ بیف‘ کیفورا کو نشانہ بنایا۔ وہ اپنے پارکنگ کے کاروبار کے ذریعے ڈکیتی کی رقم کی منی لانڈرنگ کر رہے تھے۔

رومان کے مطابق کیفورا سے کچھ روز انڈر گراؤنڈ گزارنے کو کہا گیا تھا مگرانھوں نے اس کے بجائے اپنی بیوی جوانا کو ایک گلابی کیڈیلک (گاڑی) خرید کر دی، اسے جے ایف کے کارگو ایریا کے قریب لے کر گئے جہاں ایف بی آئی تفتیش کر رہی تھی اور انھیں ڈکیتی اور دوسرے جرائم کے بارے میں بتایا۔ وہ دونوں غائب ہو گئے اور ان کی لاشیں کبھی نہیں ملیں۔

مکمہون اور مانری ایئرپورٹ پر ایئر فرانس کے لیے کام کرتے تھے۔ انھوں نے تحفظ کے بدلے ایف بی آئی کے ساتھ تعاون سے انکار کر دیا۔ مئی میں دونوں کی لاشیں ایک کھڑی کار میں بیٹھی حالت میں ملیں۔ ان کو سر کے پچھلے حصے میں گولی ماری گئی تھی۔

ایک ماہ بعد منشیات کے سسلین سمگلر پاولو لی کیسٹری کی جلی ہوئی، برہنہ اور گولیوں سے چھلنی لاش بروکلین میں جلتے ہوئے کچرے کے ڈھیر سے ملی۔ انھیں گیمبینو کرائم فیملی نے یہ کام سونپا تھا کہ وہ دو لاکھ ڈالرکا حصہ لے کر لوٹیں۔

فلوریڈا کے ریستوراں اور کلب کے مالکان رچرڈ ایٹن اور ٹام مونٹیلیون پر اپنے کاروبار کے ذریعے لوٹی گئی نقدی سے حصہ بٹورنے کا الزام تھا۔ بچوں کو گوشت کے ایک ٹرک سے ایٹن کی جمی ہوئی لاش ملی۔ ٹریسا فیرارا کا دھڑ کے بغیر سر نیو جرسی کے ساحل پر ملا۔ ان پر بھی اس سکِمنگ میں شامل ہونے کا الزام تھا۔

ڈکیتی میں دو دیگر افراد جرم کے ضابطہ کی خلاف ورزی پر مار دیے گئے۔ ڈی سیمون کو بغیر اجازت کے دو گیمبینو افراد کو قتل کرنے پر گوٹی نے سر میں گولی مار دی۔ جولائی 1984 میں ڈکیتی کے پانچ سال بعد سیپے کی اپنی لوچیز فیملی نے انھیں لوچیز سے وابستہ منشیات فروش سے ہزاروں ڈالر نقد اور کوکین چوری کرنے پر مار ڈالا۔

وہلن نے لکھا ہے کہ جب پولیس نے انھیں پرانی تصاویر دکھائیں تو انھوں نے سیپے کو خود پر حملہ آور ہونے والے شخص کے طور پر شناخت کیا تھا لیکن تب تک وہ زندہ نہیں تھے۔

ڈکیتی میں استعمال ہونے والی وین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ڈکیتی کی واردات میں استعمال ہونے والی گاڑی

1980 میں ہنری ہل کو منشیات کی سمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اس خوف سے کہ برک انھیں حکام کے ساتھ تعاون کرنے سے روکنے کے لیے مار ڈالیں گے، ہل تحفظ کے بدلے ایف بی آئی کے مخبر بن گئے۔ حکام کو برک، ویریو اور دیگر کے بارے میں کئی دہائیوں کی معلومات فراہم کرنے کے بعد ہل غائب ہو گئے۔

ویریو اور برک دونوں جیل گئے لیکن لفتھانزا ڈکیتی کے لیے نہیں۔ ویریو مال بردار کمپنیوں سے بھتہ لینے اور برک ایٹن کے قتل اور بوسٹن کالج کے سکینڈل پوائنٹس کے جرم میں قید ہوئے۔

جیل میں ویریو کی موت 1988 میں اور برک کی 1996 میں پھیپھڑوں کے کینسر سے ہوئی۔

آخر کار سنہ 2014 میں لفتھانزا ڈکیتی کے 36 سال بعد ایسا لگتا تھا کہ ایک گرفتاری ایسی ہوئی جس کا اس واقعے سے تعلق تھا۔

بونانو خاندان کے کرائم چیف ونسنٹ آسارو کو 78 سال کی عمر میں ڈکیتی میں گرفتار کیا گیا۔ ان کے کزن گیسپیئر ویلنٹی نے ان کے خلاف گواہی دی۔ آسارو کے خلاف مقدمہ ایک مخبر کی معلومات پر مبنی تھا جس کا حوالہ آسارو کے وکیل نے ’اب تک کے بدترین گواہوں میں سے ایک‘ کے طور پر دیا۔

مقدمے میں آسارو نے ڈکیتی سے کسی تعلق سےانکار کیا اور اس دعوے کی حمایت ہنری ہل نے بھی کی۔

آسارو کو بری کر دیا گیا لیکن سنہ 2017 میں انھیں روڈ ریج کے ایک واقعے میں گرفتار کیا گیا اور انھیں آٹھ سال قید ہوئی۔ پچھلے سال اکتوبرمیں ان کا بھی جیل ہی میں انتقال ہوا۔

ہنری ہل کا کہنا ہے کہ نقدی یا سونا کبھی برآمد نہیں ہوئے، سزا بھی صرف ایک شخص کو ملی لیکن کم از کم ایک درجن لاشیں ضرور ملیں۔

’ہر کسی کو چار لاکھ یا پانچ لاکھ ڈالر دینے کی بجائے ان کے سر میں چوتھائی گولی ٹھونسنا آسان تھا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ