ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل رسک رپورٹ نے 2025 تک پاکستان کو درپیش 10 بڑے خطرات کی نشاندہی کردی ہے۔ ان خطرات میں سائبر سیکیورٹی، مہنگائی، بےروزگاری اور معاشی بحران کو شامل کیا گیا ہے۔
خوراک اور قرضوں کے بحران کا سامنا کرتے پاکستان میں بنیادی اشیاء کی سستے اور مناسب داموں میں عدم فراہمی سماجی اور سیاسی عدم استحکام کو جنم دے سکتی ہے۔
اس بات کی نشاندہی ورلڈ اکنامک فارم کی گلوبل رسک رپورٹ 2023 میں کی گئی، جو 1200 عالمی ماہرین کی رائے پر مبنی ہے۔
رپورٹ میں آئندہ دو سالوں میں پاکستان کو 10 بڑے عوامل سے سب سے زیادہ خطرہ بھی بتایا گیا ہے۔
ان خطرات میں ڈیجیٹل پاور کنسنٹریشن یعنی اہم ڈیجیٹل اثاثوں، صلاحیتوں کے علم پر چند لوگوں یا ریاست کے کنٹرول ہونے، سائبر سیکیورٹی کے اقدامات یعنی ڈیٹا فراڈ یا ڈیٹا کی چوری روکنے میں ناکام اور سائبر جاسوسی شامل ہے۔
خطرات میں تیزی سے بڑھتی مہنگائی، قرضوں کے بحران، ریاست کے ٹوٹنےکے خطرات، وسیع پیمانے پر ڈیجیٹل خدمات کی عدم فراہمی، صوبوں میں تنازعات، ماحولیاتی نظام کی تباہی، دہشت گردی اور بے روزگار ی اور معاشی بحران کا ذکر کیا گیا۔
رپورٹ میں پاکستان کو ان ممالک میں شامل کیا گیا جہاں شدید موسمی حالات اور سپلائی چین میں رکاوٹیں موجودہ رہن سہن کے اخراجات میں مزید اضافے کا باعث بن سکتی ہے اور لاکھوں افراد خوراک کی عدم دستیابی کے باعث بھوک کا شکار ہو سکتے ہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم نے رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی ہے کہ 2022 کے سیلاب میں پاکستان میں 8 لاکھ ہیکٹر رقبے پر پھیلی فصلیں تباہ ہوگئیں، جس سے اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں پانی کی بڑھتی ہوئی کمی اور پڑوسی ممالک کے درمیان تعاون کے طریقہ کار کے مفلوج ہونے کے باعث آبی تنازعات بڑھنے کے خدشات کا بھی اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ بھارت، پاکستان اور افغانستان سمیت خطے کے دیگر ممالک علاقائی تنازعات میں پانی کے انفرااسٹرکچر کو ہتھیار یا ہدف کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
Comments are closed.