بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

150 افراد کو قتل کرنے والی بدنام زمانہ سیریل کلر

عہد حاضر کے مشرقی یورپی ملک رومانیہ سے تعلق رکھنے والی انا دی پسٹونا جو ’بابا انوجکا‘ یا ’بنات کی چڑیل‘ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔

وہ ایک شوقیہ کیمسٹ تھی، اپنی اس مہارت سے اس نے انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل کے دوران لگ بھگ ڈیڑھ سو لوگوں کی جان لی، اسی وجہ سے اسے تاریخ انسانی کی بدنام زمانہ سیریل کلر کہا جاتا ہے۔ 

اس کی اصلیت ہمیشہ پراسرار انداز میں پوشیدہ رہی، کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ 1838 میں بنات ریجن میں ایک دولت مند مویشی پالنے والے شخص کے گھر پیدا ہوئی جو موجودہ دور کے مشرقی یورپی ملک رومانیہ میں واقع ہے۔ 

تاہم اس کی زندگی پڑوسی ملک سابق یوگوسلاویہ (موجودہ سربیا) کے گاؤں ولادیمیرکووچ میں گزری۔ بچپن خاصہ آرام دہ اور اچھا گزرا اچھی تعلیم میسر آئی، لیکن نوجوانی میں ایک آسٹرین افسر کے ساتھ ناکام عشق کے بعد وہ آدم بیزار یعنی لوگوں سے نفرت کرنے لگی، جس کے بعد اس نے کیمسٹری کے شعبے میں قدم رکھا اور مقامی لوگوں میں جن بھوت اتارنے کے حوالے سے مشہور ہوگئی۔

اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ مناسب رقم کے عوض کسی کو بھی غائب کرسکتی ہے۔ کچھ عرصے دنیا سے خود کو الگ رکھنے کے بعد اس نے ایک زمیندار سے شادی کرلی جس سے اس کے پانچ بچے پیدا ہوئے، لیکن ان میں سوائے ایک کے کوئی بھی زندہ نہ رہا۔

شوہر کے مرنے کے بعد اس نے جن بھوت اتارنے کا دھندہ شروع کیا اور اپنے گھر کے ایک حصے کو کیمسٹری لیب میں تبدیل کر لیا، جہاں وہ مختلف کیمیائی اجزا کو ملانے کے تجربات کرتی رہی اور لوگوں میں جڑی بوٹیوں سے علاج کرنے والی ماہرہ بن کر سامنے آئی۔

لیکن یہ جڑی بوٹی نہیں بلکہ متنازع زہریلے اجزا ہوتے تھے جن کے استعمال سے لوگ مرجاتے تھے، وہ فوجیوں کو ملٹری سروس سے ریٹائر کروانے کے لیے زہریلی دوا دیتی جس سے وہ بیمار ہوکر اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے۔

خواتین کو شوہروں سے نجات دلانے کے لیے جادوئی پانی دیتی جس سے کچھ عرصے میں شوہر مرجاتے، یہ سب کرنے کے دوران لوگوں کو پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ کیا چیز انہیں دے رہی ہے۔ اس کی زیادہ تر گاہک خواتیں تھیں۔

1920 کے عشرے تک اس کے جادوئی پانی کا کاروبار اس قدر منفعت بخش بن چکا تھا اور اس نے اتنی دولت جمع کرلی تھی کہ اس نے کلائنٹس لانے کے لیے سیلز ایجنٹس رکھ لیے تھے۔

گو کہ کچھ لوگوں کو اس کے کیمیائی معاملات کا اندازہ تھا لیکن زیادہ تر لوگ اسے مافوق الفطرت طاقت کا حامل سمجھتے تھے۔

لیکن 1924 میں ایک خاتون کلائنٹ کے شوہر کی موت کے بعد حکام کی توجہ اس کی جانب ہوئی اور اسے پکڑلیا گیا۔

تحقیقات سے پتہ چلا کہ وہ آرسینک (زہریلا پانی) لوگوں کو دیا کرتی تھی، جس پر اسے 90 برس کی عمر میں 15 سال قید کی سزا دی گئی لیکن 8 برس بعد بڑھاپے کی وجہ سے رہائی مل گئی۔ جس کے دو برس بعد 1938 میں اس کی موت واقع ہوگئی۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.