سابق ٹیسٹ کرکٹر اور پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی فرنچائز لاہور قلندرز کے ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ ٹی ٹوئنٹی ٹیم کے اوپنرز پاکستان کو کوئی ٹورنامنٹ جتوانے والے نہیں ہیں، مجھے نہیں سمجھ آتی کہ جس طرح کی ہم کرکٹ کھیل رہے ہیں اس میں ہم کیسے نکلیں گے۔
لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عاقب جاوید نے کہا کہ جو رنز کر رہا ہے ہم اسے کھلاتے نہیں ہیں، جبکہ کچھ کھلاڑی ایسے ہیں انہیں ہم بار بار چانس دے رہے ہیں۔
عاقب جاوید کا کہنا تھا کہ شان مسعود رنز کر کر کے پاگل ہو گیا ہے لیکن ہم نہیں کھلا رہے، شعیب ملک کو لے لیں، شعیب ملک کسی کی پسند نہیں یا ان کی عمر کا کسی کو مسئلہ ہے کہ وہ کب کے کھیل رہے ہیں تو پھر پہلے آپ شعیب ملک کا متبادل تو دیکھ لیں اگر کوئی چوائس ہے تو ضرور کھلائیں۔
انہوں نے کہا کہ تو کیا اب شعیب ملک کی جگہ صرف افتخار احمد، خوش دل شاہ یا آصف علی ہی کھیلیں گے؟ جن کے پچاس پچاس بار کم بیک ہو چکے ہیں۔
عاقب جاوید کا کہنا تھا کہ ان میں سے کم از کم ایک کو بس ہونا چاہیے اور اسے بھی چھٹے ساتویں نمبر پر موقع دیں، طیب طاہر کو کیوں چانس نہیں دیا جا رہا؟ آغا سلمان بھی وائٹ بال کرکٹ میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے اوپنرز نمبر ون، نمبر ٹو ٹی ٹوئنٹی بیٹرز ہیں لیکن یہ کوئی ٹورنامنٹ جتوانے والے نہیں ہیں، ان کا کیا کرنا ہے، ایک اوپنر ان میں ہیں جو جب اننگز کا آغاز کرتے ہیں تو اس وقت رن ریٹ 8 کا درکار ہوتا ہے وہ 15 اوورز کھیلتے ہیں اور 17 کا چھوڑ کر چلا جاتے ہیں۔
ڈائریکٹر کرکٹ لاہور قلندرز نے کہا کہ فخر زمان کو نمبر تین پر کھلا کر بیڑہ غرق کیا جا رہا ہے، فخر زمان کو اوپنر آنا چاہیے، شان مسعود کو نمبر تین کھیلنا چاہیے جبکہ محمد رضوان کو نمبر چار آنا چاہیے جب فیلڈ کھل جاتی ہے۔
عاقب جاوید نے کہا کہ پاکستان ٹیم میں جب آپ آجاتے ہیں تو آپ کو کوچنگ کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ آپ کو اپنے رول کا تسلسل کے ساتھ پتہ ہونا چاہیے، یہاں کسی کو کچھ علم نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیشنل ٹی ٹوئنٹی میں 70 فیصد وہ لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان کی طرف سے کھیلنا نہیں ہے، 6 ٹیموں میں انہیں کھلائیں جو آپ کو مستقبل میں کام آ سکیں۔
عاقب جاوید نے ناراضی کا اظہار کیا کہ شاہین آفریدی کو 45 روز ساتھ گھماتے رہے اور ان کی انجری کا پتہ نہ چلا اور انہیں انگلینڈ بھجوا دیا، انجری کا پتہ چلا ہوتا تو آج شاہین آفریدی انگلینڈ کے خلاف سیریز کھیل رہے ہو تے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ہمارے نیشنل ہائی پرفارمنس سینٹر میں کوئی قابل ڈاکٹر نہیں ہے جو کھلاڑیوں کا خیال رکھ سکے؟
Comments are closed.