یوکرین میں جنگ: صدر پوتن کے مخالفین کہاں ہیں؟

پوتن مخالف روسی دانشور

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

صدر ولادیمیر پوتن کے روسی ناقدوں کو عموماً سزائیں دی جاتی ہیں اور بعض اوقات انھیں اس سے بھی زیادہ برے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

  • مصنف, ویٹالی سِیوچنکوف
  • عہدہ, بی بی سی مانیٹرنگ

صدر ولادیمیر پوٹن پر روس پر عملاً مکمل کنٹرول ہے اور ان کی طاقت کو کوئی بھی چیلنج کرنے والا موجود نہیں ہے یا مخالفت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ بہت سارے حکومی مخالفین کی تنقیدی آوازیں جو کبھی بلند ہوتی تھیں، انھیں جلاوطنی پر مجبور کردیا گیا یا انھیں جیل بھیج دیا گیا ہے ۔ بعض صورتوں میں مخالفین کو قتل کر دیا گیا۔

جب صدر پوتِن نے فروری 2022 میں یوکرین پر بڑے پیمانے پر حملے کا آغاز کیا تھا تو اس سے قبل دو دہائیوں سے زیادہ عرصے کے دوران اپنی پالیسیوں سے اختلاف رکھنے والے مخالفین کو ختم کرنے کے بعد روس میں اپوزیشن کو کچل دیا۔

حکمرانی کے بالکل آغاز میں ہی صدر پوتِن نے روس کے طاقتور ’اولیگارکس‘ (oligarchs) – سیاسی عزائم کا حامل بے پناہ امیر لوگوں کا طبقے کو زیر کر لیا تھا۔

میخائل خودورکوفسکی، جو کبھی روسی تیل کمپنی ’یوکوس‘ کے سربراہ تھے، انھیں 2003 میں گرفتار کیا گیا تھا اور اپوزیشن جماعتوں کو فنڈز فراہم کرنے کے بعد ٹیکس چرانے اور بدعنوانی کے الزام میں 10 سال جیل میں گزارنے پڑے۔ رہائی کے بعد وہ روس چھوڑ کر ملک سے ہجرت کر گئے۔

بورس بیریزوسکی، ایک اور بہت ہی طاقتور اور امیر شخص، جس نے پوتن کو اقتدار میں لانے میں بھی مدد کی تھی – بعد میں اس کے پوتن سے اختلافات پیدا ہو گئے اور 2013 میں ان کا برطانیہ میں جلاوطنی کی حالت میں انتقال ہوا۔کچھ لوگ ان کی موت کو خودکشی قرار دیتے ہیں۔

روس میں تمام اہم اور بڑے میڈیا ادارے رفتہ رفتہ ریاست کے کنٹرول میں آ گئے یا خود ہی سے حکومت کے حامی ہو گئے۔

ایلیکسی ناوالنی

اب تک روس میں حزب اختلاف کی سب سے نمایاں شخصیت ایلیکسی ناوالنی ہے، جس نے جیل سے پوتِن پر الزام لگایا ہے کہ وہ اپنی ’مجرمانہ، جارحانہ‘ جنگ کے ذریعے لاکھوں افراد کی زندگیوں کو داؤ پر لگانا چاہتا ہے۔

اگست 2020 میں ناوالنی کو سائبیریا کے دورے کے دوران فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے اعصابی ایجنٹ ’نوویچوک‘(Novichok) کا زہر دیا گیا تھا۔ اس زہر کے بعد وہ مرتے مرتے بچے ہیں، اور بعد میں اسے علاج کے لیے جرمنی لے جایا گیا تھا۔

پوتن مخالف روسی دانشور

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

مئی 2022 میں ایلیکسی ناوالنی نے اپنی نو برس کی قید کے خلاف اپیل بھی دائر کی تھی۔

جنوری 2021 میں روس میں ان کی واپسی کے بعد حزبِ اختلاف کی سرگرمیوں میں زندگی کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی تھی، لیکن انہیں فراڈ اور توہین عدالت کے الزام میں فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا۔ اب وہ جیل میں نو سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک فلم جسے بعد میں آسکر ایوارڈ ملا، وہ انہی کے بارے میں بنائی گئی تھی۔

2010 کی دہائی میں ناوالنی بڑے پیمانے پر حکومت مخالف ریلیوں میں سرگرم تھے اور اس کے علاوہ ان کے اہم سیاسی ادارے ’انسداد بدعنوانی فاؤنڈیشن‘ ایف بی کے (FBK) کی طرف سے پوتن حکومت کے بد عنوانی کے متعدد واقعات کی نشاندہی کر کے لاکھوں روسیوں کو اپنا ہمنوا بنایا۔

2021 میں فاؤنڈیشن پر انتہا پسند ادارہ ہونے کا الزام عائد کر کے اسے کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔ تاہم ناوالنی کئی بار بدعنوانی کے ان الزامات کو سیاسی طور پر بنائے گئے مقدمات قرار دے کر مسترد کر چکے ہیں۔

اس کے بہت سے ساتھی روسی سیکیورٹی سروسز کے دباؤ میں آ گئے ہیں، اور کچھ بیرون ملک فرار ہو گئے ہیں، جن میں ایف بی کے (FBK) کے سابق سربراہ ایوان ژدانوف، اور سابق سینیئر قانونی مشیر لیوبوف سوبول ان کے ساتھیوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔

ناولنی کے دستِ راست لیونیڈ وولکوف نے اس وقت روس چھوڑ کر بیرون ملک منتقل ہو گئے جب 2019 میں ان کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ چلایا جا رہا تھا۔

جنگ کی مخالفت

روسی جیل کی سلاخوں کے پیچھے پوتن کے ایک اور اہم محالف سیاسی رہنما الیا یاشین ہیں، جو روس کی یوکرین کے خلاف جنگ پر سخت تنقید کرتے رہے ہیں۔ اپریل 2022 میں یوٹیوب پر ایک لائیو سٹریم میں اس نے روسی افواج کے ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات پر زور دیا اور صدر پوتن کو ’اس جنگ کا بدترین قصائی‘ قرار دیا۔

انھیں روسی فوج کے بارے میں ’جان بوجھ کر غلط معلومات‘ پھیلانے کے خلاف قانون کی خلاف ورزی کرنے پر ساڑھے آٹھ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ یہ قانون 24 فروری 2022 کو روس کے یوکرین پر حملہ کرنے کے فوراً بعد پارلیمنٹ میں منظور کیا گیا تھا۔

پوتن مخالف روسی دانشور

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

الیا یاشین کو جون 2022 میں یوکرین کے قصبے بوچا میں مشتبہ روسی جنگی جرائم کی مذمت کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔

یاشین 2000 میں 17 سال کی عمر میں سیاست میں شامل ہوئے، جس سال پیوتِن اقتدار میں آئے تھے۔ 2017 میں برسوں کی اپوزیشن کی سیاسی سرگرمیوں کے بعد وہ ماسکو میں کراسنوسلسکی ڈسٹرکٹ کونسل کے سربراہ منتخب ہوئے جہاں وہ صدر پوتِن کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔

2019 میں اس نے ماسکو سٹی کونسل کے انتخابات کے لیے آزاد اور مخالف سوچ رکھنے والے امیدواروں کو رجسٹر کرنے سے حکام کے انکار کے خلاف مظاہروں میں اپنے فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے انھیں ایک ماہ سے زیادہ وقت جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنا پڑا تھا۔

کیمبرج سے تعلیم یافتہ صحافی اور کارکن ولادیمیر کارا مرزا دو بار، 2015 میں اور پھر 2017 میں، ایک پراسرار زہر کا شکار ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے وہ کوما میں چلے گئے۔

انہیں یوکرین پر روسی حملے پر تنقید کے بعد اپریل 2022 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اُن پر روسی فوج کے بارے میں ’جعلی خبریں‘ شیئر کرنے، ایک ’ناپسندیدہ تنظیم‘ کی سرگرمیوں کو منظم کرنے اور سنگین غداری کے الزامات لگائے گئے تھے۔ اسے 17 اپریل 2023 کو 25 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

انہوں نے ممتاز روسی اور مغربی میڈیا میں پوتن پر تنقید کرنے والے متعدد مضامین لکھے ہیں اور 2011 میں روس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کو نشانہ بنانے والی مغربی ممالک کی پابندیوں کو اپنانے کے لیے اپوزیشن کی کوششوں کی قیادت کی۔

بہت سے مغربی ممالک کی طرف سے لگائی جانے والی یہ پابندیاں میگنٹسکی ایکٹ کے نام سے مشہور وکیل یہ وہی سرگئی میگنِٹسکی ہیں جنھوں نے روس میں بدعنوانی کے کئی واقعات افشاء کیے ہیں۔ انھیں 2009 میں حکام کی جانب سے دھوکہ دہی کا الزام لگا کر ایک روسی جیل میں قید کردیا گیا جہاں وہ 2009 میں انتقال کر گئے تھے۔

جمہوریت کے لیے جد و جہد

کارا مرزا ’اوپن رشیا‘ نامی ایک غیر سرکاری ادارے کے ڈپٹی چیئرمین تھے، جو کہ مفرور سابق اولیگارک میخائل خودورکووسکی کی طرف سے قائم کردہ جمہوریت نواز گروپ ہے۔ اسے روس میں باضابطہ طور پر ’ناپسندیدہ‘ قرار دیا گیا اور پھر اسے بعد میں 2021 میں بند کر دیا گیا تھا۔ ’اوپن رشیا‘ کے سربراہ، آندرے پیوواروف، ایک ’ناپسندیدہ تنظیم‘ کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے چار سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ کارا مرزا کو طویل قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے،تاہم وہ اپنے قریبی دوست اور اہم روسی اپوزیشن لیڈر بورس نیمتسوو کے برعکس کم از کم وہ زندہ ہیں۔ بورس نیمتسوو کو 2015 میں ایک ہجوم میں گولیاں مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔

پوتن مخالف روسی دانشور

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

بورس نیمتسوو کو گولی مار کر ہلاک کرنے سے پہلے ایجنٹ تقریباً ایک سال تک اُن کا پیچھا کرتے رہے تھے

پوتن دور سے پہلے بورس نیمتسوف نے نژنی نوگوروڈ ریجن کے گورنر رہے، وزیر توانائی اور پھر نائب وزیراعظم کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ روس کی پارلیمنٹ کے لیے بھی منتخب ہوئے۔ اس کے بعد وہ روسی حکومت کی مخالفت میں بہت زیادہ سرگرم ہوگئے، اور انھوں نے ولادیمیر پوتن پر تنقید کرنے والی متعدد رپورٹیں شائع کیں اور ان کی مخالفت میں متعدد مظاہروں کی قیادت بھی کی۔

27 فروری 2015 کو نیمتسوف کو 2014 میں یوکرین پر روس کے ابتدائی حملے کے خلاف مارچ کے لیے حمایت کی اپیل کرنے کے چند گھنٹے بعد انھیں اس وقت گولی مار دی گئی جب وہ کریملن کے باہر ایک پل عبور کر رہے تھے۔

نیمتسوف کے قتل کے الزام میں چیچن نژاد پانچ افراد کو سزا سنائی گئی تھی، لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ان کے قتل کا حکم کس نے اور کیوں دیا تھا۔ اس کی موت کے سات سال بعد، ایک تحقیقات سے اس بات کا ثبوت سامنے آیا کہ قتل سے پہلے کے مہینوں میں، نیمتسوف کا روس بھر میں ایک خفیہ قاتل اسکواڈ سے تعلق رکھنے والا سرکاری ایجنٹ پیچھا کر رہا تھا۔

حزب اختلاف کی یہ سرکردہ شخصیات ان بہت سارے افراد میں سے محض چند ایک ہیں جنہیں حکومت سے اختلاف کرنے پر ریاستی مظالم کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

گزشتہ سال یوکرین پر روس کی جارحیت کے آغاز کے بعد سے روس میں آزاد میڈیا پر مزید پابندیاں عائد کی ہیں یا انھیں زیادہ دھمکیاں دی گئی ہیں۔ نیوز چینل ’ٹی وی رین‘ کو اپنی نشریات وغیرہ بیرون ملک منتقل کرنا پڑیں اور اسے نیوز سائٹ ’میڈوزا‘ میں شامل ہونا پڑا جو پہلے ہی سے روس سے باہر باہر منتقل کی جا چکی ہے۔ ’نووایا گزیٹا‘ (Novaya Gazeta) ماسکو میں ہی ہے لیکن اس نے اپنا اخبار شائع کرنا بند کر دیا ہے۔ ماسکو کے دیگر ریڈیو اسٹیشن مثلاً ’ایکو آف ماسکو‘جیسے اداروں کو حکام نے بند کر دیا تھا۔

اس طرح لاتعداد تبصرہ نگاران اور صحافی جلاوطنی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ سینیئر تجزیہ کار اور صحافی الیگزینڈر نِوزوروف کو روس میں ایک ’غیر ملکی ایجنٹ‘ کا نام دیا گیا ہے اور روسی فوج کے خلاف ’جعلی‘ خبریں پھیلانے کے جرم میں اُن کی غیر حاضری میں آٹھ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

لیکن آپ کو ریاستی جارحیت کا نشانہ بنانے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ آپ کے لاکھوں فالوؤرز ہوں۔ مارچ 2023 میں ریاضی کے ایک طالب علم، دمتری ایوانوف، جو جنگ مخالف ٹیلی گرام چینل چلاتے تھے، کو ساڑھے آٹھ سال قید کی سزا سنائی گئی ان پر بھی فوج کے بارے میں ’جعلی‘ خبریں پھیلانے کا الزام تھا۔

اس کے کے علاوہ الیکسی موسکالیف کو سوشل میڈیا پر اختلافات کرنے کے الزام میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی کیونکہ ان کی تیرہ سال کی بیٹی نے سکول میں جنگ مخالف تصویریں بنائی تھیں۔

ولادیمیر پوتن کو یہ یقینی بنانے میں کہ اس کا کوئی بااثر مخالف اس کے اقتدار کو چیلنج کرنےکے لیے آزاد نہ رہے، دو دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ لگا لیکن وہ اس میں کامیاب رہے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ