یوکرین جنگ: باخمت کی لڑائی میں شدت، دونوں جانب سے بھاری نقصان کے دعوے
سنیچر کو مزید یوکرینی فوجی دستے باخمت بھیجے گئے تھے
- مصنف, جارج وائیٹ
- عہدہ, بی بی سی نیوز
یوکرین اور روس دونوں نے دعویٰ کیا ہے کہ یوکرین کے مشرقی شہر باخمت کی جنگ میں انھوں نے مخالف فریق کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔
روسی فوجیں گزشتہ کئی ماہ سے اس اہم شہر پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند دنوں میں گیارہ سو سے زیادہ روسی فوجی مارے جا چکے ہیں جبکہ اس سے کہیں زیادہ فوجی شدید زخمی ہوئے ہیں۔
دوسری جانب روس کا کہنا ہے کہ پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران روسی فوجوں نے 220 سے زیادہ یوکرینی فوجی ہلاک کیے ہیں۔
بی بی سی دونوں ممالک کی جانب سے دیے گئے اعداد و شمار کی تصدیق کرنے سے قاصر ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عسکری نقطہ نظر سے باخمت شہر کی زیادہ اہمیت نہیں ہے، لیکن یہ شہر ان روسی فوجی کمانڈروں کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے جو چند ماہ سے ماسکو کو کوئی اچھی خبر دینے کی بھرپور کوشش میں ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر روس اس شہر پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ دونیسک کے پورے علاقے پر قبضہ کرنے کے ہدف کے تھوڑا سا قریب پہنچ گیا ہے۔ یاد رہے کہ دونیسک مشرقی اور جنوبی یوکرین کے ان چار علاقوں میں سے ایک ہے جنھیں روس نے گزشتہ ستمبر میں ایک ریفرنڈم کے بعد روس میں شامل کر لیا تھا۔ اس متنازع ریفرنڈم پر روس کو دیگر ممالک کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
باخمت کا دفاع کرنے والے یوکرینی کمانڈروں کو روسی حملے کو روکنے کے لیے بہت سے وسائل فراہم کیے گئے ہیں۔ ان کمانڈروں کے مطابق ان کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ روسی فوجیوں کو اسی علاقے میں پھنسائے رکھیں تاکہ آنے والے مہینوں میں روس یوکرین کے دیگر علاقوں پر مزید حملے نہ کر سکے۔
اتوار کی رات ایک ویڈیو خطاب میں یوکرینی صدر کا کہنا تھا کہ ’چھ مارچ کے بعد ایک ہفتے سے بھی کم دنوں میں ہم صرف باخمت کے سیکٹر میں گیارہ سو سے زیادہ روسی فوجیوں کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ صرف اس ایک مقام پر ہم نے روس کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا دیا ہے۔‘
مسٹر زیلنسکی کا مزید کہنا تھا کہ 1500 سو روسی فوجی اس قدر شدید زخمی ہوئے ہیں کہ وہ اب مزید کسی فوجی کارروائی میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔
دوسری جا نب روس کی وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ روسی فوجوں نے 220 سے زیادہ یوکرینی فوجیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔
یوکرین کی بری افواج کے کمانڈر، کرنل جنرل اولیگزینڈر سائرسکی کا کہنا تھا کہ روس کے ’کرائے کے قاتلوں کا گروہ، ویگنر گروپ ان کے فوجیوں پر چاروں جانب سے حملہ کر رہا ہے تاکہ وہ تمام رکاوٹیں عبور کر کے باخمت شہر کے مرکز تک پہنچ سکے۔
ویگنر گروپ روس کی وہ نیم سرکاری عسکری تنظیم ہے جو باخمت پر حملے میں مرکزی کردار ادا کر رہی ہے۔ اس شہر پر قبضے کی کوشش میں اس غیر سرکاری گروپ کے کمانڈر ییووجینی پرگوزن نے اپنی شہرت بھی داؤ پر لگا دی ہے۔
اتوار کو ان کا کہنا تھا کہ باخمت میں صورت حال ’مشکل، بلکہ بہت مشکل ہے ، (کیونکہ) دشمن (اس شہر کے) ایک ایک میٹر کو بچانے کے لیے لڑ رہا ہے۔ اور جوں جوں ہم شہر کے قریب پہنچ رہے ہیں، لڑائی میں اتنی ہی شدت آتی جا رہی ہے‘
اس سے قبل سنیچر کو ایک امریکی تھِنک ٹینک، سٹڈی آف وار نے کہا تھا کہ ماسکو کی یلغار روک دی گئی ہے۔
’زیادہ امکان یہی ہے کہ ویگنر گروپ شہری علاقوں میں پھنستا جائے گا، اسے لیے اسے کوئی بڑی پیش قدمی کرنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘
باخمت کے علاقے میں روسی فوجیں داخل ہونے سے پہلے اس شہر میں تقریباً 70 ہزار لوگ آباد تھے لیکن اب ان میں سے چند ہزار ہی یہاں بچے ہیں۔ایک زمانے میں یہ شہر نمک اور جپسم کی کانوں اور شراب سازی کی صنعت کے لیے مشہور تھا۔
روس کی طرح یوکرین بھی سیاسی طور پر باخمت کو بہت اہمیت دیتا ہے اور صدر زیلنسکی نے اس شہر کو ہمیشہ مزاحمت کی علامت قرار دیا ہے۔
گزشتہ دسمبر میں جب وہ واشنگٹن گئے تھے تو انھوں نے وہاں اس علاقے کو یوکرین کے ’جذبے کا قلعہ‘ قرار دیا تھا اور انھوں نے امریکی کانگریس کو باخمت کا پرچم بھی پیش کیا تھا۔
مغربی حکام کا اندازہ ہے کہ اب تک باخمت اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں 20 سے 30 ہزار روسی فوجی ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔
Comments are closed.