یورپین یونین میں 2020 کے دوران 13 لاکھ افراد کینسر کے ہاتھوں موت کا شکار ہوگئے جبکہ اسی سال مزید 27 لاکھ افراد میں اس موذی مرض کی تشخیص کی گئی۔
یہ اعداد و شمار یورپین کمیشن کی صدر ارسلا واندر لین کی جانب سے ورلڈ کینسر ڈے کے موقع پر سامنے آئے جبکہ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس حوالے سے فوری طور پر اقدامات نہ اُ ٹھائے گئے تو موجود مریضوں کی تعداد میں 2035 تک مزید 25فیصد کا اضافہ ہو جائے گا۔
یورپین یونین میں کینسر کی اسی صورتحال کے پیش نظر یورپین کمیشن نے کینسر کی روک تھام، علاج اور دیکھ بھال کے لیے ایک نئے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔
’’یورپ کا کینسر ختم کرنے کا پلان‘‘ نامی اس منصوبے کا اعلان یورپین کمشنر برائے صحت اور فوڈ سیفٹی سٹیلا کیریاکیڈیس نے کیا، اس منصوبے کے تحت 4 ارب یورو خرچ کر کے شہریوں کی روزمرہ زندگی سے جڑے تمام شعبوں میں اصلاحات لائی جائیں گی۔
اس دوران اس مرض کی بڑی وجہ بننے والے عناصر جیسے تمباکو، الکحل کا زیادہ استعمال، ماحولیاتی آلودگی اور دیگر مضر مادوں سے نمٹنے کے اقدامات شامل ہوں گے۔
اسی کے ساتھ ہی سب کے لیے’ زندگی گزارنے کا صحت مند طریقہ‘ کے نام سے ایک مہم بھی شروع کی جائے گی جس میں صحت مند غذا اور جسمانی سرگرمیوں کی اہمیت پر زور دیا گیا ہوگا۔
اسی کے ساتھ ہی کینسر کی روک تھام کے اس منصوبے کے تحت 2030 تک انفیکشن کے ذریعے متاثر ہونے کے خدشے والی 90 فیصد لڑکیوں اور لڑکوں کو ویکسین لگا دی جائے گی۔
اسی منصوبے کے تحت ابتدائی طور پر کینسر کا پتہ لگانے تک رسائی، معیار اور تشخیص کو بہتر بنایا جائے گا۔
اسکے ساتھ ہی ممبر ممالک کی مدد سے اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ یورپ کی 90 فیصد ایسی آبادی جو چھاتی، سرویکل اور کولوریکٹل کینسر کی اسکریننگ کے لیے کوالیفائی کرتی ہو، اسے 2025 تک اسکریننگ کی پیشکش کی جائے اور اسے یورپین یونین کی سطح پر آگے بڑھایا جائے گا۔
کینسر کی تشخیص اور علاج تک رسائی کے لیے مہم کا آغاز 2021 کے آخر تک شروع کیا جائے گا جبکہ کینسر کو مزید بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے یورپ کی سطح پر UNCAN.eu کے نام سے ایک نظام بھی تشکیل دیاجائے گا۔
یاد رہے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق یورپین یونین کی آبادی، دنیا کی مجموعی آبادی کا صرف 8 واں حصہ ہے لیکن یہاں کینسر کے مریضوں کی تعداد دنیا کی آبادی میں موجود مریضوں کی تعداد کا ایک تہائی ہے۔
جبکہ یہ موذی مرض یورپین شہریوں میں موت کی دوسری سب سے بڑی وجہ بھی ہے۔
Comments are closed.