’ہمیں کہا گیا کہ یوکرین میں لوگ مر رہے ہیں اور آپ کی سوچ سیکس تک محدود ہے‘
- مصنف, ٹوبے لک ہرٹس
- عہدہ, بی بی سی نیوز، کیئو
یوکرین کے دارالحکومت کیئو کے ایک جدید دفتر میں ایک سابق فوجی حلب بڑے دھیان سے اپنے فون پر ایک ایسا ویڈیو کلپ دیکھ رہے ہیں جس میں باورچی خانے میں وہ خود ایک نوجوان عورت کو جذباتی انداز میں چومتے نظر آ رہے ہیں۔
یہ ویڈیو دراصل فلاحی تنظیم ’ری سیکس‘ کی ایک تشہیری مہم کا حصہ ہے۔ یہ کمپنی ایسے سابق فوجیوں کی جنسی زندگی میں مدد کرنے کی کوشش میں مصروف عمل ہے جو جنگ کے باعث جسمانی اور ذہنی صدمے کی کیفیات میں مبتلا ہیں۔
گذشتہ سال مارچ میں روسی فوج یوکرین کے شہر ماریوپول پر محاصرے کے دوران بے دردی سے حملہ آور ہوئی تھی جس کے نتیجے میں اس شہر کا بڑا حصہ تباہ ہو گیا تھا۔
26 سالہ حلب ماریوپول کے ان محافظوں میں سے ایک تھے جو روسی فوج کی جانب سے کیے جانے والے بڑے دھماکے میں ایک عمارت کی تیسری منزل سے زمین پر گر کر ملبے تلے دب گئے تھے۔
اس حملے میں حلب کا جبڑا، ناک اور پیٹ کا نچلا حصہ متاثر ہوا اور وہ بُری طرح زخمی ہو گئے تھے۔ اس دھماکے کی تپش نے ان کے چہرے پر لگے چشمے تک کو پگھلا دیا۔
روسی افواج نے زخمی حلب کو پکڑ کر جنگی قیدی بنا لیا تاہم ایک ماہ بعد حلب کو قیدیوں کے تبادلے کے اقدام کے تحت رہا کر کے واپس بھیج دیا گیا۔ حلب کے مطابق دوران قید انھیں بہت کم طبی امداد ملی۔
بی بی سی نے حلب سے پہلی بار ان کی رہائی کے چند ہفتوں بعد بات کی تھی اور بعد میں وہ مغربی شہر لیئو کے ایک ہسپتال میں زیرِ علاج رہے۔
اس دوران فلاحی تنظیم ری سیکس نے حلب سے رابطہ کر کے ان کی جنسی ضروریات کی بحالی کے حوالے سے کام شروع کر دیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پیٹ کے نچلے حصے کی چوٹ نے مجھے بہت سے مسائل سے دوچار کر دیا تھا اور اس کے ٹھیک ہونے میں کچھ وقت لگا۔ اس دوران سیکس کے حوالے سے زیادہ بات نہیں کی گئی، اس لیے میں نہیں چاہوں گا کہ مجھ جیسے دوسرے لوگوں کے ساتھ ایسا ہو۔‘
حلب کے مطابق ’یہ سب کہنے کا حوصلہ مجھے (ری سیکس کے) اس منصوبے میں شامل ہونے سے ملا تھا۔‘
ایوونا کوستینا ری سیکس پروجیکٹ کے بانیوں میں سے ایک ہیں اور وہ فوجیوں کو درپیش جنسی اور جذباتی صدمے سے نکلنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔
ایوونا کے مطابق انھیں اس منصوبے پر کام کرنے کا خیال 2018 میں آیا جب جنسی صدمات سے دوچار امریکی فوجیوں کے بارے میں انھیں علم ہوا۔
یوکرین پر روس کی جانب سے بڑے پیمانے پر حملے کے بعد انھوں نے اپنے منصوبے پر عمل کے لیے امداد حاصل کی اور پھر یوکرین کے فوجیوں اور ماہرین سے بات کی تاکہ جنگ کے باعث جنسی طور پر صدمات کا سامنا کرنے والے ایسے مرد و خواتین تک رسائی یقینی بنائی جا سکے۔
’کتابچے کا ایک حصہ غیر شادی شدہ سابقہ فوجیوں کے لیے مختص ہے‘
اپنے پروجیکٹ کے آغاز پر جب انھوں نے پہلی بار کچھ سوالات کے جوابات آن لائن مانگے تو انھیں سابق فوجیوں اور عوام کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور کہا گیا کہ ’لوگ مر رہے ہیں اور آپ سیکس کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔‘
اس دوران انھیں کئی غلط مفروضوں اور اس سے جڑی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا جیسے کہ زخمی ہونے والے تمام سابق فوجیوں کو اپنی جنسی زندگیوں کے ساتھ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
’ہسپتال میں سیکس ہوتا ہے، گھر میں سیکس ہوتا ہے، پروسیجرز (طبی امداد) سے پہلے سیکس ہوتا ہے۔ اس کے بعد میں سیکس ہوتا ہے، وہاں بہت سیکس چل رہا ہے۔ ہمیں اس میں تجسس پیدا ہوا اور ہم نے ان کا کام آسان کرنا چاہا۔‘
تاہم وہ یہ بھی مانتی ہیں کہ مجموعی طور پر اپنے کام کے دوران ان کو زیادہ مثبت نتائج ملے۔
فلاحی تنظیم نے تقریباً چھ ہزار کتابچے چھاپے ہیں اور انھیں نہ صرف یوکرین کے آس پاس کے طبی مراکز، سابق فوجیوں اور ان کے خاندانوں کو بھیجا ہے بلکہ آسان رسائی دینے کے لیے آن لائن بھی جاری کر دیا ہے۔
ری سیکس نے ویڈیوز، گرافکس اور ہیلپ لائن کے ساتھ ایک سوشل میڈیا مہم بھی شروع کی ہے۔ چیریٹی میں خود لذتی سے لے کر جنسی تسکین فراہم کرنے والے کھلونوں اور یہاں تک کہ حیاتیات سے متعلق بنیادی مواد تک سب کچھ شامل ہے۔
ایوونا نے اس حوالے سے بتایا کہ ان کی تنظیم ان سب کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
’کتابچے کا ایک حصہ خاص طور پر ان نوجوان زخمی سابق فوجیوں کے لیے بھی ہے جو غیر شادی شدہ ہیں۔ ایسے نوجوانوں کے لیے سیکس کا پہلا تجربہ ان تصورات سے بالکل مختلف ہو گا جس سے وہ روشناس ہیں۔‘
ری سیکس کی پروجیکٹ مینیجر کترینہ کے مطابق ان کے کتابچے میں خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ رہنمائی کی گئی ہے تاکہ متعلقہ شراکت داروں کو ان کے تجربات اور ان کے جسم کے مطابق مخصوص مشوروں تک رسائی ہوسکے۔
تاہم کترینہ اس بات پر بھی زور دیتی ہیں کہ اس منصوبے کا مقصد جسمانی سے زیادہ جذباتی آسودگی ہے۔ ’یہ اس بارے میں ہے کہ آپ اپنے آپ کو کیسے قبول کر سکتے ہیں۔ اپنے آپ سے نہ صرف خود کیسے پیار کر سکتے ہیں بلکہ (جسم کے نازک حصوں پر) چوٹوں کے بعد آپ اپنے ساتھی کے ساتھ کیسے جنسی تعلقات استوار کر سکتے ہیں تاکہ رشتوں میں قربت آ سکے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اپنے سوالنامے پر بعض سابق فوجیوں کی جانب سے جو تنقیدی جوابات آئے تو اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ ان کی تحقیق میں خامیاں ہیں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ’ہم نے بہت کوششیں کی ہیں کہ ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی سے بھی اس مسئلے پر جواب حاصل کیا جا سکے۔‘
کترینہ نے محسوس کیا کہ جنگ کے دوران آنے والے ذہنی طور پر تکلیف دہ زخم اکثر غیر تشخیص شدہ رہ جاتے ہیں
کترینہ کا ماننا ہے کہ اس دوران انھوں نے یوکرین کے سابق فوجیوں سے متعلق بھی بہت کچھ جانا ہے، خاص طور پر انھوں نے محسوس کیا کہ جنگ کے دوران آنے والے ذہنی عارضے اکثر غیر تشخیص شدہ رہ جاتے ہیں اور ملک میں ان کا علاج بھی نہیں کیا جاتا۔ ’ایسی چوٹیں جنس کی خواہش اور پوری جنسی کارکردگی کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہیں۔‘
ایوونا کا کہنا ہے کہ جنسی تعلقات پر بات کرنے کے لیے استعمال ہونے والی زبان بھی اہم ہے۔
’یہ یقینی طور پر ڈرامائی زبان نہیں اور نہ ہی رکاوٹوں پر قابو پانے کے بارے میں ہے۔ یہ شاید کھیل کے لیے اچھا ہو لیکن اس سے پتا چلتا ہے کہ جنسی تعلقات سب کے لیے ایک ہی پیمانے پر نہیں جانچے جا سکتے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اس بات کو یقینی بنانا بہت اہم ہے کہ سابق فوجیوں کو علم ہو کہ جب تک وہ نہ چاہیں جنسی تعلقات قائم کرنے کی ضرورت نہیں اور یہ بھی کہ جنسی تعلقات پہلے سے مشکل یا تکلیف دہ ہو سکتے ہیں۔
’ہر اس شخص کا شکر گزار ہوں جس نے میرا اعتماد بحال کیا‘
حلب اس منصوبے میں شامل ہونے کے بعد اب اپنے جنسی مسائل کے بارے میں بہت مثبت بات کرتے ہیں۔
ان سے جب دریافت کیا گیا کہ کیا زخمی ہونے کے بعد سے اب ان کی کوئی گرل فرینڈ ہے تو وہ ہنس پڑے۔
’جب میں قید سے رہائی پا کر ہسپتال سے واپس آیا تو میری ایک گرل فرینڈ تھی۔ پھر اس دوران بھی ایک تھی جب میں اس پروجیکٹ کا سوالنامہ بھر رہا تھا۔‘
حلب کہتے ہیں کہ میں ہر اس شخص کا شکر گزار ہوں جس نے گذشتہ سال مجھ سے ملاقات کی تھی۔
’میرا ہر ساتھی میرے لیے اہم رہا جس، جس نے میرا اعتماد بحال کرنے میں مدد کی۔ میں اس کے لیے بہت مشکور ہوں۔‘
Comments are closed.