کینیڈا شام میں داعش کے کیمپوں میں قید رہنے والے 23 شہریوں کو وطن واپس بلائے گا
- مصنف, شارلین این روڈریگیز
- عہدہ, بی بی سی نیوز
کینیڈا شمال مشرقی شام کے کیمپوں میں زیر حراست اپنے 23 شہریوں کو وطن واپس بلانے پر راضی ہو گیا ہے
کینیڈا کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اُن 23 شہریوں کو ملک واپس آنے دیں گے جو شمال مشرقی شام میں دولت اسلامیہ کے کیمپوں میں قید تھے۔
اس گروپ میں چھ خواتین، 13 شیر خوار بچے اور چار مرد شامل ہیں۔
برطانیہ اور کینیڈا کی دوہری شہریت رکھنے والے جیک لیٹس جن کی برطانوی شہریت منسوخ کر دی گئی تھی وہ بھی ان مردوں میں شامل ہیں جنہیں واپس لایا جائے گا۔
چار مردوں میں سے ایک کی نمائندگی کرنے والی وکیل باربرا جیک مین کا کہنا ہے کہ ’(ان کے) والدین عدالت کے فیصلے سے خوش ہیں۔‘
باربرا جیک مین نے بتایا کہ جج نے کہا ہے کہ ان مردوں کو ’جتنا جلد ممکن ہو سکے‘ واپس بلوایا جائے۔
2019 میں نام نہاد دولت اسلامیہ کی خلافت کے خاتمے کے بعد کینیڈین شہریوں کے لیے اب تک کی سب سے بڑی تعداد میں وطن واپسی ہوگی۔
زیر حراست افراد کو واپس لانے کا فیصلہ اس وقت کیا گیا جب ان افراد کے رشتہ داروں نے کینیڈین حکومت کے خلاف عدالت میں کارروائی کی اور دلیل دی کہ ان افراد کو کینیڈا میں داخل ہونے سے روکنا ان کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔
کینیڈا کی حکومت نے اب تک دولت اسلامیہ کے زیر حراست افراد کے خاندانوں کو انفرادی کیسز کی بنیاد پر جواب دیا ہے۔ چار برسوں میں صرف مٹھی بھر خواتین اور بچوں کو گھر لایا گیا ہے۔
کینیڈا کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’کینیڈین شہریوں کی حفاظت اور سکیورٹی ہماری حکومت کی اولین ترجیح ہے۔‘
جرمنی، فرانس، سپین اور ہالینڈ بھی شام سے اپنے شہریوں کو واپس بلوا چکے ہیں۔
گزشتہ برس برطانیہ نے اپنے دو شہریوں کو کیمپس سے اس وقت واپس آنے دیا تھا جب یہ بات سامنے آئی کو وہ مبینہ طور پر انسانی سمگلنگ کا شکار ہوئے تھے۔
شمیمہ بیگم 2015 میں دولت اسلامیہ میں شامل ہوئی تھیں انھوں نے جب گروہ میں شامل ہونے کے لیے برطانیہ چھوڑ تھا تو اُس وقت وہ سکول کی طالبہ تھیں۔ اُن سے اُن کی برطانوی شہریت چھین لی گئی تھی اور اُن کے برطانیہ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ 42400 سے زائد غیر ملکی شہریوں کو جن میں زیادہ تر بچے ہیں شام بھر میں دولت اسلامیہ کے کیمپوں میں ایسے حالات میں رکھا گیا ہے جس میں اُن کی جان کو خطرہ ہے۔
Comments are closed.