امریکہ انڈیا میں سفیر کیوں نہیں بھیج رہا، کیا جو بائیڈن نیو دہلی کو نظر انداز کر رہے ہیں؟

Indo US

،تصویر کا ذریعہGetty Images

امریکہ ماضی میں کئی بار کہہ چکا ہے کہ انڈیا اس کا سٹریٹجک اتحادی ہے اور امریکی خارجہ پالیسی میں اس کی اپنی اہمیت ہے۔

ایشیا بحرالکاہل کے خطے میں چین اور امریکا اپنے اپنے تسلط کے لیے مگن ہیں۔ اس لحاظ سے بھی انڈیا امریکہ کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔

ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ ایشیا پیسفک خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے میں انڈیا کا اہم کردار ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان کئی معاملات پر تناؤ ہے۔ ان میں سب سے نمایاں تائیوان ہے۔

امریکہ نے واضح کیا ہے کہ اگر چین نے مستقبل میں فوجی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے تائیوان کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی تو وہ تائیوان کے ساتھ کھڑا ہوگا۔

اس کے علاوہ یوکرین پر روسی حملے میں چین کے رویے پر امریکہ ناراض ہے۔ امریکہ نے روس کے خلاف سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور روس کو چین سے مدد مل رہی ہے۔ ایسے میں امریکی پابندیاں زیادہ کارگر ثابت نہیں ہو رہی ہیں۔

دوسری جانب انڈیا کو بھی سرحد پر چین کی جارحیت کا سامنا ہے۔ اس سب کے باوجود کیا امریکی صدر جو بائیڈن انڈیا کو نظر انداز کر رہے ہیں؟ جو بائیڈن کی نصف مدت ختم ہو چکی ہے اور انڈیا میں ابھی تک کوئی امریکی سفیر نہیں ہے۔

US INDIA

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سفیر کے بغیر سفارتخانہ

جنوری 2021 میں اُس وقت کے امریکی سفیر کینتھ جسٹر نے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد سے بائیڈن انتظامیہ نے چھ افراد کو عبوری چارج سونپا لیکن کسی کو مستقل سفیر مقرر نہیں کیا۔

700 سے زیادہ دن ہو چکے ہیں اور نئی دہلی میں امریکی سفارت خانہ بغیر سفیر کے چل رہا ہے۔ یہ دونوں ممالک کی سفارتی تاریخ کا طویل ترین وقت ہے۔

سرد جنگ کے دور میں بھی ایسا نہیں تھا۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ پیغام بھی جا رہا ہے کہ نئی دہلی میں امریکی سفارت خانہ عارضی بنیادوں پر چل رہا ہے کہ اس وقت امریکی سرکار انڈیا کو نظر انداز کر رہی ہے۔ اگرچہ یہ مکمل طور پر صدر بائیڈن کی غلطی نہیں ہے۔

واضح رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے جولائی 2021 میں لاس اینجلس کے میئر ایرک گارسیٹی کو انڈیا میں سفیر کے طور پر نامزد کیا تھا۔

لیکن ایرک گارسیٹی کے نام کی منظوری سے متلعق ہونے والی ووٹنگ کا عمل روک دیا گیا تھا۔ ایک ریپبلکن سینیٹر نے الزام عائد کیا تھا کہ ایرک گارسیٹی کا ان کے ساتھی کے جنسی استحصال میں نامناسب کردار تھا۔ تب سے ایرک گارسیٹی کی تقرری رکی ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ اور بھی کئی وجوہات ہیں، جن کی وجہ سے ایرک گارسیٹی کی منظوری پھنسی ہوئی ہے۔ سینیٹ میں تقسیم شدہ مینڈیٹ کے ساتھ بہت سارے کام ابھی زیر التوا ہیں۔ کسی بھی تجویز پر اتفاق رائے نہیں ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس وقت امریکہ کی ساری توجہ یوکرین میں روس پر حملے پر مرکوز ہے۔

جو بائیڈن انتظامیہ ایرک گارسیٹی کو سینیٹ سے منظور کروا سکتی ہے۔ دسمبر میں وائٹ ہاؤس کی پریس کانفرنس میں بھی کچھ ایسا ہی کہا گیا تھا۔ رواں برس جنوری میں ایرک گارسیٹی کو جو بائیڈن انتظامیہ نے دوبارہ انڈیا میں سفیر کے طور پر نامزد کیا تھا۔

تقریباً دو سال سے نئی دہلی میں کوئی امریکی سفیر نہیں ہے۔ جو مسائل سفارتخانے کی سطح پر حل ہو سکتے تھے، وہ پریس کانفرنس میں وزرائے خارجہ کو اٹھانا پڑے۔ مثال کے طور پر گدشتہ برس 27 ستمبر کو جے شنکر نے امریکی وزیر خارجہ کے سامنے ایک پریس کانفرنس میں ویزا کا مسئلہ اٹھایا تھا۔

Trump

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سفیر بننا کتنا ضروری ہے؟

‘اے میٹر آف ٹرسٹ: اے ہسٹری آف انڈیا-یو ایس ریلیشن فرام ٹرومین ٹو ٹرمپ’ کی مصنفہ میناکشی احمد نے گذشتہ ماہ 20 دسمبر کو نیویارک ٹائمز میں اس عنوان پر ایک مضمون میں لکھا کہ ’یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ امریکہ نے گذشتہ دو برسوں سے انڈیا میں اپنے کسی سفیر کو نہیں رکھا ہے۔‘

بائیڈن کئی بار انڈیا کو اہم شراکت دار کہہ چکے ہیں، تب بھی صورتحال یہی ہے۔ امریکی سفیر نے دونوں ممالک کے تعلقات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

میناکشی نے لکھا ہے کہ ’جب چین نے سنہ 1962 میں انڈیا پر حملہ کیا تو جان کینتھ گالبریتھ نئی دہلی میں امریکی سفیر تھے۔ کینتھ اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قریب تھے۔ اس کے ساتھ ان کے اس وقت کے انڈین وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے ساتھ بھی اچھے تعلقات تھے۔ جنگ کے دوران کینتھ نے امریکی ہتھیاروں کی کھیپ انڈیا بھیجنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

ان کے مطابق ’پہلے نہرو امریکہ سے مدد مانگنے میں ہچکچاتے تھے۔ اس کے بعد کینتھ نے نہرو اور کینیڈی کے درمیان رابطے کا کام کیا اور دونوں ممالک کو قریب لانے میں کامیاب رہے۔ کینیتھ نے نہرو اور کینیڈی کے درمیان بداعتمادی کو ختم کیا سنہ 1962 میں امریکہ نے تعلقات میں نئی ​​گرمجوشی لائی تھی۔ کینتھ انڈیا میں بہت مقبول ہو چکے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

سنہ 2021 میں انڈیا میں امریکی سرمایہ کاری 45 بلین ڈالر تھی۔ عالمی سپلائی چین میں چین کے بڑھتے ہوئے کردار پر تشویش بڑھ رہی ہے۔ امریکی کمپنیاں ’مینوفیکچرنگ ہب‘ کو چین سے کہیں اور منتقل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ جے پی مورگن سنہ 2025 تک انڈیا سے کام شروع کر سکتا ہے، ایپل انڈیا میں 25 فیصد آئی فون بنا سکتا ہے

میناکشی کا کہنا ہے کہ ایسے اہم وقت میں امریکی سفارت خانے کو اپنی کمپنیوں کی مدد کرنی چاہیے۔ میناکشی احمد نے لکھا ہے کہ ’عالمی سطح پر صحت، موسمیاتی تبدیلی اور ٹیکنالوجی پالیسی میں انڈیا کا ایک اہم مقام ہے۔

سابق صدر اوباما کے دور حکومت میں انڈیا میں امریکی سفیر رچرڈ ورما نے کہا تھا کہ پیرس ماحولیاتی معاہدے میں انڈیا کا اہم کردار ہے۔ رچرڈ ورما نے انڈیا کو امریکہ کے ساتھ لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان اہم ملاقاتیں ہوئیں۔ سفیر دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات میں ایک کڑی کا کام کرتا ہے۔

ایک بار پھر انڈیا اور امریکہ کے درمیان روس سے متعلق بہت سے اختلافات سامنے آئے ہیں اور ایسی صورتحال میں سفیر نے اہم کردار ادا کیا ہوتا۔ کہا جاتا ہے کہ انڈیا سرد جنگ کے بعد سے امریکہ پر کھل کر اعتماد نہیں کرتا۔ یہ عدم اعتماد ایک اہم عالمی صورتحال میں دونوں ممالک کے تعلقات کے لیے اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

جے شنکر کئی مواقع پر امریکہ سمیت پورے مغرب کا کھلے عام محاصرہ کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر دہلی میں امریکی سفیر ہوتا تو معاملات جے شنکر کی سطح تک نہ پہنچتے۔

India

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سفیر کا اہم کردار

سرد جنگ کے دور میں بھی امریکہ نے انڈیا میں بہترین سفیر تعینات کیے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب انڈیا نان الائنمنٹ کا حصہ تھا۔ جان کینتھ گالبریتھ اور چیسٹر باؤلز 1960 کی دہائی میں نئی ​​دہلی میں انڈیا کے سفیر تھے۔ امریکہ کے ان دونوں سفیروں کے تعلقات نہرو کے ساتھ اچھے بتائے جاتے ہیں۔

روس سے تاریخی قربت کے باوجود دونوں سفیر انڈیا کو امریکہ کے قریب لے جانے میں کامیاب رہے۔ انڈیا میں سابق امریکی سفیر کینتھ جسٹر نے گذشتہ برس اکتوبر میں دی پرنٹ کو بتایا کہ ’روایت کے مطابق میں نے گارسیٹی سے بات کی۔ وہ بہت ذہین، باشعور اور توانا ہیں۔ وہ انڈیا میں ایک بہترین سفیر ثابت ہوں گے۔ میرا ماننا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات اعلیٰ سطح پر مضبوط سفیر کے بغیر ممکن نہیں۔‘

ان کے مطابق دونوں ملک وزارت خارجہ کی سطح پر ہر مسئلہ حل نہیں کر سکتے۔ سفیر کا ہونا بہت ضروری ہے۔ میناکشی احمد نے اپنے مضمون میں مزید لکھا کہ اپریل 1977 میں اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر نے پرنسٹن یونیورسٹی کے صدر رابرٹ گوہین کو انڈیا کا سفیر مقرر کیا۔

رابرٹ گوہین انڈیا میں پیدا ہوئے۔ اندرا گاندھی نے جون 1975 سے مارچ 1977 تک انڈیا میں ایمرجنسی نافذ کی۔ آئین کے تمام حقوق واپس لے لیے گئے اور اپوزیشن رہنماؤں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ میڈیا بھی خاموش ہو گیا۔ رابرٹ گوہین نے اندرا گاندھی کے اس تجربے کو اچھی طرح سمجھا۔

ایک سفیر اس ملک کی ملکی سیاست میں ہونے والی تبدیلیوں پر بھی نظر رکھتا ہے۔ امریکی سفیر کی عدم موجودگی نئی دہلی حکومت کو بھی پسند آئی ہو گی۔ نئی دہلی نے اپنی گھریلو سیاست میں بہت سی چیزوں سے لاتعلق رہنا آسان سمجھا ہوگا۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ایرک گارسیٹی کئی بار انڈیا آچکے ہیں اور انھوں نے ہندی اور اردو کا مطالعہ بھی کیا ہے۔ انھوں نے ریپبلکن رکن پارلیمنٹ کی طرف سے لگائے گئے الزامات کو بھی مسترد کر دیا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ