جرمن لیپرڈ 2: کیا یوکرین جرمنی سے ممکنہ ’گیم چینجر‘ ٹینک حاصل کر پائے گا؟

جرمن ٹینک لیوپرڈ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

جرمن ٹینک لیوپرڈ کو روسی ٹینکوں سے مقابلے کے لیے تیار کیا گیا ہے

یوکرین کے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ انھوں نے اپنے جرمن ہم منصب کے ساتھ جرمن لیپرڈ 2 ٹینکوں کے بارے میں ‘دو ٹوک بات چیت’ کی ہے۔

کیئو کا کہنا ہے کہ فوری طور پر روسی ہتھیاروں کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے ان ٹینکوں کی فوری ضرورت ہے۔

برلن پر اس ضمن میں عمل در آمد کرنے کے لیے دباؤ کے باوجود جرمنی نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ آیا وہ یوکرین کو ٹینک بھیجے گا یا دوسرے ممالک کو ان کے اپنے ٹینک دینے کی اجازت دے گا یا نہیں۔

مغربی اتحادیوں سے ملاقات کے بعد اولیکسی رزنیکوف نے کہا کہ ’ہم نے لیوپرڈ 2 کے بارے میں کھل کر بات چیت کی ہے‘ اور یہ بات چیت جاری رکھی جائے گی۔

کیئو کو نیٹو سے بہت سے دوسرے ہتھیار ملنے والے ہیں۔

جرمنی کے رامسٹین ایئر بیس میں ہونے والی میٹنگ میں مزید بکتر بند گاڑیاں، فضائی دفاعی نظام اور گولہ بارود کی فراہمی کا معاہدہ ہوا ہے۔

لیکن لیوپرڈ 2 کو یوکرین کے لیے ایک ممکنہ گیم چینجر(پانسا پلٹنے والے) کے طور پر دیکھا جاتا ہے، کیونکہ اس کی دیکھ بھال آسان ہے، اور اسے خاص طور پر روسی ٹی-90 ٹینکوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ روسی ٹی-90 ٹینک فی الحال حملے میں استعمال ہو رہے ہیں۔

جرمنی کے وزیر دفاع بورس پسٹوریئس نے کہا کہ لیوپرڈ کی فراہمی پر رائے منقسم ہے اور انھوں نے اس بات کی تردید کی ہے کہ برلن اس طرح کے اقدام کو روک رہا ہے۔

جرمن برآمدی قوانین کے تحت پولینڈ اور فن لینڈ جیسے دوسرے ممالک جو لیوپرڈ کی فراہمی کرنا چاہتے ہیں وہ اس وقت تک ایسا کرنے سے قاصر ہیں جب تک کہ برلن اس کی پوری اجازت نہیں دیتا۔

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے نیٹو کے شراکت داروں کی فوجی مدد کی تعریف کی ہے لیکن کہا کہ ‘ہمیں اب بھی جدید ٹینکوں کی فراہمی کے لیے لڑنا پڑے رہا ہے۔

یوکرین کے وزیر دفاع

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ریمسٹین میں یوکرین کے وزیر دفاع اپنے جرمن اور امریکی حلیف کے ساتھ

’ہم ہر روز یہ واضح کر رہے ہیں کہ کوئی اور چارہ نہیں ہے، ٹینکوں کے بارے میں فیصلہ ہونا چاہیے۔‘

یوکرین کے موجودہ ٹینک زیادہ تر پرانے سوویت ماڈل ٹینک ہیں، جو روسی قوت کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔

پورے یورپ کے گوداموں میں 2000 سے زیادہ لیوپرڈ رکھے ہیں۔ صدر زیلنسکی کا خیال ہے کہ ان میں سے تقریباً 300 ٹینک روس کو شکست دینے میں مدد کر سکتے ہیں۔

مسٹر پسٹوریئس نے کہا کہ اگر اتحادیوں کے درمیان اتفاق رائے ہو جائے تو برلن تیزی سے آگے بڑھنے کے لیے تیار ہے، تاہم وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ٹینکوں کے بارے میں فیصلہ کب کیا جا سکتا ہے۔

بین الاقوامی سفارت کاری اور دوسری جنگ عظیم کی میراث سمیت متعدد عوامل کی وجہ سے جرمنی نے خود کو اس تعطل میں پھنسا پاتا ہے۔

جرمنی کی یہ پالیسی تھی کہ وہ تنازعات والے علاقوں میں ہتھیار نہیں بھیجے گا، لیکن گزشتہ فروری میں روس کے حملے کے بعد اسے الٹ دیا گیا۔

پچھلے سال کے آخر میں نیٹو کے سربراہ جینس اسٹولٹن برگ نے کہا کہ ’جرمنی توپ خانہ، فضائی دفاعی نظام اور پیادہ لڑنے والی مارڈر گاڑیاں فراہم کر کے اب ‘یوکرین کو سب سے زیادہ فوجی، مالی اور انسانی امداد فراہم کرنے والے اتحادیوں میں شامل ہے۔‘

لیکن جرمنی لیوپرڈز بھیجنے سے گریزاں ہے اور جب تک کہ وہ نیٹو کے وسیع پیکیج کا حصہ نہ ہوں جس میں ترجیحاً امریکہ کے طاقتور ایم 1 ابرامز ٹینک شامل ہوں۔ امریکہ نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابرامز ٹینک یوکرین کی افواج کے لیے ناقابل عمل ہیں کیونکہ ان کی دیکھ بھال مشکل اور مہنگی ہے۔

ان سب سے قطع نظر کچھ حلقوں سے امریکہ پر دباؤ رہا ہے کہ وہ اپنے ٹینک بھیجے تاکہ جرمنی بھی ایسا کرنے پر مجبور ہو۔

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اس بات کی تردید کی کہ برلن امریکہ کی جانب سے پہل کرنے کا انتظار کر رہا ہے۔ انھوں نے جمعہ کو رامسٹین ایئر بیس پر 54 ممالک کی میٹنگ کے بعد کہا: ’کھولنے کا یہ تصور – میرے خیال میں یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘

جرمنی دوسری جنگ عظیم میں ہونے والی نازی دور کی تباہیوں سے بھی پریشان ہے اور چانسلر اولاف شولز کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ یوکرین میں ہونے والی کشیدگی کے بارے میں محتاط ہیں اور نہیں چاہتے کہ جرمنی کی وجہ سے یوکرین کی جنگ میں کوئی شدت آئے۔

یہ بھی پڑھیے

جرمنی میں حزب اختلاف کرسچن ڈیموکریٹ (سی ڈی یو) کے ایک سرکردہ سیاست دان جوہان وڈے فل نے لیوپرڈ کے متعلق حکومت کی جانب سے ’انکار کی پالیسی‘ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے جرمنی کی بین الاقوامی ساکھ متاثر ہوگی۔ انھوں نے پوچھا کہ ’آخر شولز کو کس چیز کا انتظار ہے؟‘

پولینڈ کے وزیر خارجہ زبگنی راؤ نے بھی جرمنی کی ہچکچاہٹ پر تنقید کی ہے۔

انھوں نے ٹویٹ کیا کہ ’روسی جارحیت کو پسپا کرنے کے لیے یوکرین کو مسلح کرنا کسی قسم کی فیصلہ سازی کی مشق نہیں ہے۔ یوکرین کا خون حقیقی طور پر بہایا گیا ہے۔ یہ لیوپرڈ کی ترسیل پر ہچکچاہٹ کی قیمت ہے۔ ہمیں اب کارروائی کی ضرورت ہے۔‘

مغربی ممالک نے دوسرے ہتھیاروں میں اربوں ڈالر کی حمایت کا وعدہ کیا ہے لیکن ٹینکوں سے متعلق جرمنی کی اجازت کے بغیر یوکرین متوقع نتیجہ حاصل نہیں کر سکتا ہے۔

بشمول برطانیہ دیگر ممالک نے ٹینک بھیجنے کا وعدہ کیا ہے۔ برطانیہ 14 چیلنجر 2 بھیجے گا۔

امریکہ نے رواں ہفتے ڈھائی ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کی تازہ امداد کا اعلان کیا ہے جس میں بکتر بند گاڑیاں بھی شامل ہیں۔

پینٹاگون نے دیگر ساز و سامان کے علاوہ 59 بریڈلی بکتر بند گاڑیاں، 90 سٹرائیکر پرسنل کیریئرز اور ایونجر ایئر ڈیفنس سسٹم کا وعدہ کیا ہے۔

جمعرات کو ایسٹونیا میں ہونے والی ملاقات کے بعد نو یورپی ممالک نے بھی اپنی طرف سے مزید تعاون کا وعدہ کیا ہے۔ ان میں مندرجہ ذیل تعاون شامل ہے:

  • برطانیہ: 600 برم سٹون میزائل
  • ڈنمارک: 19 فرانسیسی ساختہ خودکا سیزر ہووٹزر (توپ)
  • ایسٹونیا: ہووٹزر، گولہ بارود، امدادی گاڑیاں اور اینٹی ٹینک گرینیڈ لانچر
  • لیٹویا: سٹنگر ایئر ڈیفنس سسٹم، دو ہیلی کاپٹر اور ڈرونز
  • لتھوینیا: طیارہ شکن بندوقیں اور دو ہیلی کاپٹر
  • پولینڈ: S-60 طیارہ شکن بندوقیں اور 70,000 گولہ بارود
  • چیک جمہوریہ: مزید بڑے کیلیبر والے گولہ بارود، ہاویٹزر یعنی توپ اور اے پی سی
BBCUrdu.com بشکریہ