کینیڈا سے خفا لیکن امریکہ کو یقین دہانیاں، کیا امریکہ میں سکھ رہنما کے قتل کی سازش کا معاملہ انڈیا کے لیے مصیبت بن سکتا ہے؟

مودی، بائیڈن

،تصویر کا ذریعہANI

  • مصنف, شکیل اختر
  • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دلی

کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا ہے کہ امریکہ میں ایک سکھ رہنما کو قتل کرانے کی مبینہ سازش میں بعض انڈین اہلکاروں کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیے جانے کے بعد انڈیا کے رویے میں تبدیلی آ گئی ہے۔

جسٹن ٹروڈو نے یہ بھی کہا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے الزامات نے انڈیا کو نرم رویہ اختیار کرنے کے لیے مجبور کر دیا۔ شاید انڈیا کو یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ کینیڈا کے خلاف مسلسل بیان بازی سے یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔‘

دوسری جانب کینیڈین وزیراعظم کے اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے کہا کہ ’انڈیا کی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ کینیڈا کے سلسلے میں ہمارا موقف یہی ہے کہ اصل سوال انتہا پسندی ہے، جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘

واضح رہے کہ امریکہ نے گزشتہ مہینے یہ الزام عائد کیا تھا کہ انڈیا کے بعض اہلکاروں نے ایک سکھ رہنما پتونت سنگھ کو قتل کرانے کی سازش کی تھی جسے امریکہ کے خفیہ ایجنٹوں نے ناکام بنا دیا۔

اس سلسلے میں چیک جمہوریہ میں ایک انڈین شہری نکھل گپتا کو گرفتار بھی کیا گیا اور اس شخص پر مقدمہ چلانے کے لیے اب اسے امریکہ لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

امریکہ کی ایک عدالت میں اس سازش کے بارے میں دائر کیے گئے مقدمے میں جو تفصیلات جمع کرائی گئی ہیں، ان سے اس شخص کا گزشتہ جون میں کینیڈا میں ایک علیحدگی پسند سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل سے بھی تعلق نظر آتا ہے۔

نجر کے قتل کے بعد جسٹن ٹروڈو نے کینیڈا کی پارلیمنٹ میں الزام عائد کیا تھا کہ اس قتل میں ممکنہ طور پر انڈین ایجنسیوں کا ہاتھ ہے تاہم انڈیا نے اس الزام کو سختی سے مسترد کر دیا تھا۔

انڈیا کا کہنا تھا کہ کینیڈا کی حکومت ووٹ بینک کی سیاست کے تحت سکھ علیحدگی پسندوں اور انڈیا مخالف عناصر کی پشت پناہی کر رہی ہے۔

دونوں جانب سے سخت بیانات کی وجہ سے انڈیا اور کینیڈا کے تعلقات خراب ہوتے گئے۔

کینیڈا نے انڈیا پر الزام عائد کرنے کے بعد انڈین سفارت کاروں کو ملک چھوڑ جانے کا حکم دیا تھا۔ انڈیا نے بھی کینیڈا کے تقریباً 40 سفارت کاروں کو ملک سے نکال دیا تھا اور کینیڈا کے شہریوں کے لیے کئی ہفتے تک ویزے کا اجرا بھی بند کر دیا تھا۔

لیکن جب امریکی انتظامیہ نے اپنے ایک سکھ شہری کو انڈیا کی ایما پر مبینہ طور پر قتل کرنے کی ناکام سازش کا ثبوت پیش کیا تو انڈیا کا رویہ بالکل ہی نرم تھا۔

سکھ رہنما پتوت سنگھ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

امریکہ نے گزشتہ مہینے یہ الزام عائد کیا تھا کہ انڈیا کے بعض اہلکاروں نے امریکہ میں ایک سکھ رہنما پتونت سنگھ کو قتل کرانے کی سازش کی تھی

امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے اس معاملے کو اعلی ترین سطح پر اٹھایا۔ ایک اعلی امریکی اہلکار نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ امریکہ کے صدر جو بائڈن نے سی آئی اے سربراہ اور نیشنل انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر کو انڈین اہلکاروں سے بات چیت کے لیے دلی بھیجا تھا۔

اخبار’فنانشل ٹائمز‘ نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ جون میں جب انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے امریکہ کا دورہ کیا تھا تو اس وقت صدر بائیڈن نے باہمی بات چیت کے دوران اس معاملے کو اٹھایا اور انڈیا کو سخت تنبیہ کی تھی۔

اس وقت سے امریکہ مختلف سطحوں پر اس معاملے کو اٹھاتا رہا ہے اور اس سازش میں مبینہ طور پر ملوث انڈیا حکومتی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتا ہے۔

انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی حال میں ایک انٹرویو میں کہا کہ حکومت امریکی تفتیش کاروں سے پورا تعاون کر رہی ہے اور ایک اعلی سطحی کمیٹی اس معاملے کے تمام پہلوؤں کی جانچ کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

مودی، ٹروڈو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’انڈیا کی جانب سے تعلقات خراب نہیں ہوں گے‘

امریکہ کی جانب سے الزام کے بعد انڈین حکومت کا رویہ بہت نرم رہا ہے اور تعلقات میں تلخی آنے کی بجائے دونوں ملکوں کے درمیان اشتراک و تعاون پر زور دیا جاتا ہے۔

امریکہ کے بعد کینیڈا کے سلسلے میں بھی اب انڈیا کے رویے میں نرمی آ رہی ہے اور جسٹن ٹروڈو نے اسی بدلے ہوئے رویے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے الزامات کے بعد انڈیا کا لہجہ بدل گیا ہے۔

انڈیا میں ’دا انسٹیٹیوٹ آف کانفلکٹ مینیجمنٹ‘ کے سربراہ اجے ساہنی کہتے ہیں کہ امریکہ کے معاملے کی نوعیت مختلف ہے جبکہ اس کے برعکس کینیڈا نے محض الزامات عائد کیے تھے اور وہ بھی پارلیمنٹ کے اندر۔

وہ کہتے ہیں کہ انڈیا کی ناراضی اس بات پر تھی کہ کینیڈا اپنے ملک میں سرگرم انڈیا مخالف عناصرکو قابو میں نہیں کر رہا ہے۔

اجے ساہنی کہتے ہیں کہ لیکن جو تنازعہ پیدا ہوا، اس سے انڈیا اور امریکہ کے تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

’انڈیا اور امریکہ کے تعلقات کثیر الجہتی ہیں۔ سفارتی تنازعے سے کچھ تلخی ضرور پیدا ہوئی لیکن دونوں ملکوں نے بہت دانشمندی سے اسے سنبھالا۔ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے لہذا اس معاملے سے تعلقات خراب نہیں ہوں گے۔‘

تھنک ٹینک ’رینڈ کارپوریشن‘ سے وابستہ اور قومی سلامتی امور کے ماہر ڈریک جے گراسمین لکھتے ہیں ’امریکہ کو انڈیا کی ضرورت زیادہ ہے۔

’بائیڈن انتظامیہ نے چین کی پیش قدمی روکنے کے لیے جو پالیسی اختیار کر رکھی ہے، اس میں انڈیا کا اہم کردار ہے لیکن امریکہ نے جو چھوٹ دے رکھی ہے وہ لامحدود نہیں۔ اگر انڈیا کی جانب سے مستقبل میں کچھ اسی طرح کی حرکت دوبارہ ہوئی تو رشتوں کی قربت سے جو فائدہ ہوا، وہ ختم بھی ہو سکتا ہے۔‘

عالمی امور کے ماہر مائیکل کوگل مین نے لکھا کہ قتل کی اس ناکام سازش کے بارے میں اب زیادہ معلومات دستیاب ہیں لیکن ان سے رشتوں پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔

وہ لکھتے ہیں ’وائٹ ہاؤس کو اس سازش کے بارے میں جون میں ہی پتا چل گیا تھا لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں نے اعلی سطی میٹنگوں کو منسوخ نہیں کیا۔ جی 20 میں بائیڈن اور مودی کی ملاقات ہوئی۔ امریکہ نے کوئی جوابی کارروائی نہیں کی صرف اتنا کہا کہ دوبارہ ایسا نہیں ہونا چاہيے۔‘

لیکن کچھ تجزیہ کار ایسے ہیں جن کے خیال میں یہ صورتحال بہت پیجیدہ ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان رشتوں کو خراب کر سکتی ہے۔

سینٹر فار نیو امریکن سٹڈی میں اںڈیا پیسیفک پروگرام کی سربراہ لیسا کرٹس نے لکھا کہ ’انڈیا کو اس معاملے میں امریکہ کے ساتھ مکمل طور پر تعاون کرنا جاہیے ورنہ دونوں ملکوں کے رشتے میں جو بڑی مشکل سے پیش قدمی ہوئی، وہ خطرے میں پڑ سکتی ہے۔‘

لیکن انڈیا کے سابق سفارت کار پینک رنجن چکرورتی اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’امریکہ اگر اپنے رشتے انڈیا سے خراب کرنا چاہے گا تو تبھی یہ خراب ہو سکتے ہیں لیکن انڈیا کی جانب سے تعلقات خراب نہیں ہوں گے۔‘

’امریکہ اور کینیڈا کو بھی چاہیے کہ وہ خالصتان اور انڈیا مخالف سرگرمیوں کے بارے میں انڈیا کی تشویش کا نوٹس لے اور ضروری قدم اٹھائے۔ اظہار کی آزادی اور جمہوریت کے نام پر انڈیا مخالف سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ