کیا چینی جاسوس ٹک ٹاک ایپ کے ذریعے آپ کی ’برین واشنگ‘ کر سکتے ہیں؟
- مصنف, جو ٹائیڈی
- عہدہ, ٹیکنالوجی نامہ نگار ، بی بی سی
چینی کمپنی ٹک ٹاک کے بارے میں قومی سلامتی کے خدشات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ سائبر سکیورٹی کے خدشات کے پیش نظر امریکہ نے حکومتی ایجنسیوں کو 30 دن کے اندر عملے کے تمام آلات سے چینی ایپ کو ہٹا دینے کا حکم دیا ہے۔
اسی طرح کے کچھ اقدامات کینیڈا اور یورپی یونین نے بھی اٹھائے ہیں جبکہ چند سیاستدانوں نے اس پر ملک گیر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔
لیکن ذرا ٹک ٹاک ایگزیکٹوز کے بارے میں سوچیں۔
جب سنہ 2020 میں، وہ اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے امریکہ میں کامیاب اور مقبول ترین ایپ پر پابندی سے بال بال بچے تھے بلکہ انھیں ٹک ٹاک سے متعلق سائبر سکیورٹی کے خطرات کے بارے میں روزانہ سوالات کے طوفان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
متعدد قانونی پیچیدگیوں کی بدولت، یہ بحث بڑی حد تک ختم ہو گئی تھی اور بالآخر 2021 میں صدر جو بائیڈن کی طرف سے سابق صدر ٹرمپ کی تجویز کو رد کر دیے جانے کے بعد اس کو ختم کر دیا گیا تھا۔
اور آپ کو ٹک ٹاک اور لاکھوں ایسے انفلوئنسر کی طرف سے سکون کا سانس لینے کی خبریں سننے کو ملی ہو گی جو سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا روزگار کماتے ہیں۔
لیکن وقت کی ستم ظریفی دیکھیں کہ اس ایپ کی ویڈیو لوپنگ فیچر کی طرح ہم وہیں واپس آ گئے ہیں جہاں سے اس کا آغاز ہوا تھا۔
مگر اس بار فرق صرف یہ ہے کہ اب داؤ پر بہت کچھ لگا ہوا ہے۔
ایک ایپ تجزیہ کرنے والی کمپنی سینسر کے مطابق جب تین سال قبل صدر ٹرمپ کے دور میں اس پر پابندی لگانے کی بات کی جا رہی تھی اس وقت دنیا بھر میں اسے 800 ملین افراد نے ڈاؤن لوڈ کیا تھا لیکن اب یہ تعداد 3.5 بلین ڈاؤن لوڈز تک پہنچ چکی ہے۔
اس سے نہ صرف چین اور مغربی ممالک کے درمیان جغرافیائی سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہو گا بلکہ یہ واضح ہے کہ عالمی سطح پر ٹک ٹاک کے مستقبل کو پہلے سے کہیں زیادہ خطرہ ہے۔
ٹک ٹاک کے بارے میں سائبر سکیورٹی کے تین خدشات کیا ہیں جو سامنے آتے رہتے ہیں، اور چینی کمپنی ان کا کیا جواب دیتی ہے؟
1. ٹک ٹاک ’بڑی تعداد میں‘ آپ کا ڈیٹا حاصل کرتا ہے
ٹک ٹاک کی ایک خاتون ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ایپ کا ڈیٹا اکٹھا کرنا ’انڈسٹری کے طریقوں کے مطابق‘ ہے۔
ناقدین اکثر ٹک ٹاک پر صارفین سے بڑی تعداد میں ڈیٹا حاصل کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ آسٹریلیائی سائبر کمپنی انٹرنیٹ 2.0 کے محققین کی جولائی 2022 میں شائع ہونے والی سائبر سکیورٹی رپورٹ کو اکثر اس کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
محققین نے اس ایپ کے سورس کوڈ کا مطالعہ کیا اور بتایا کہ ایپ ’زیادہ سے زیادہ ڈیٹا اکٹھا‘ کرتی ہے۔ تجزیہ کاروں نے کہا کہ ٹک ٹاک صارفین کی لوکیشن، وہ کون سی مخصوص ڈیوائس استعمال کر رہے ہیں اور کون سی دوسری ایپس ڈیوائس پر ہیں جیسی تفصیلات جمع کرتا ہے۔
تاہم، سٹیزن لیب کی جانب سے کی گئی اسی طرح کی ایک جانچ سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ’دیگر مقبول سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے مقابلے میں، ٹک ٹاک صارف کے رویے کو جاننے کرنے کے لیے اسی قسم کا ڈیٹا اکٹھا کرتا ہے۔‘
اسی طرح، جنوری میں جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’یہاں اہم حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر دیگر سوشل میڈیا اور موبائل ایپس بھی یہی کام کرتی ہیں۔‘
2. چینی حکومت ٹک ٹاک کا استعمال کرتے ہوئے صارفین کی جاسوسی کر سکتی ہے
ٹک ٹاک کی خاتون ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ کمپنی مکمل طور پر خود مختار ہے اور ’اس نے چینی حکومت کو صارفین کا ڈیٹا فراہم نہیں کیا ہے اور اگر ہمیں کہا گیا تو ہم نہیں کریں گے۔‘
اگرچہ یہ بات پرائیویسی ماہرین کو پریشان کرتی ہے، لیکن ہم میں سے اکثر یہ قبول کرتے ہیں کہ نجی ڈیٹا کا ایک بڑا حصہ حوالے کرنا وہ معاہدہ ہے جو ہم سوشل نیٹ ورکس کے ساتھ کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ہمیں اپنی خدمات مفت دینے کے بدلے میں ہمارے بارے میں معلومات اکٹھا کرتے ہیں اور اسے اپنے پلیٹ فارم پر اشتہارات بیچنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، یا انٹرنیٹ پر ہمیں کسی اور جگہ اشتہار دینے کی کوشش کرنے والی دیگر فرموں کو ہمارا ڈیٹا بیچتے ہیں۔
ناقدین کو ٹک ٹاک کے ساتھ جو مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ یہ بیجنگ میں قائم ٹیک کمپنی بائٹ ڈانس کی ملکیت ہے، جو اسے ایک غیر امریکی مین سٹریم ایپ کے طور پر منفرد بناتی ہے۔ جبکہ دیگر تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسا کہ فیس بک، انسٹاگرام، سنیپ چیٹ اور یوٹیوب، یہ سبھی بھی ایک جیسی تعداد میں ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں لیکن یہ سب امریکہ کی قائم کردہ کمپنیاں ہیں۔
برسوں سے امریکی قانون سازوں نے، دنیا کے بیشتر حصوں میں اپنا اعتماد بحال رکھا ہوا ہے کہ ان پلیٹ فارمز کے ذریعے جمع کیے گئے ڈیٹا کو کسی ایسے مذموم عزائم کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا جس سے قومی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے 2020 کے ایگزیکٹو آرڈر میں الزام لگایا گیا تھا کہ ٹِک ٹِک کا ڈیٹا اکٹھا کرنے سے چین کو ممکنہ طور پر ’امریکہ کے وفاقی ملازمین اور ٹھیکیداروں کے مقامات کا پتہ لگانے، بلیک میل کرنے کے لیے ذاتی معلومات کے ڈوزیئر بنانے، اور کارپوریٹ جاسوسی کرنے‘ کی اجازت مل سکتی ہے۔
تاہم حقائق اب تک اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ صرف ایک نظریاتی خطرہ ہے لیکن سنہ 2017 میں منظور ہونے والے ایک مبہم چینی قانون سے اس متعلق خدشات بڑھ گئے ہیں۔
چین کے قومی انٹیلی جنس قانون کے آرٹیکل سات میں کہا گیا ہے کہ تمام چینی تنظیموں اور شہریوں کو چینی انٹیلی جنس کوششوں کے ساتھ ’حمایت، مدد اور تعاون‘ کرنا چاہیے۔
اس جملے کے باعث اکثر لوگ نہ صرف ٹک ٹاک بلکہ تمام چینی کمپنیوں کو شکوک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
تاہم، جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے محققین کا کہنا ہے کہ یہ جملہ سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا گیا ہے، اور یہ بھی نوٹ کریں کہ چینی قانون میں صارفین اور نجی کمپنیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے انتباہات بھی شامل ہیں۔
سنہ 2020 سے ٹک ٹاک کے ایگزیکٹوز نے بارہا لوگوں کو یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ چینی عملہ غیر چینی صارفین کے ڈیٹا تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔ لیکن دسمبر میں بائٹ ڈانس نے اعتراف کیا کہ بیجنگ میں مقیم اس کے متعدد ملازمین نے کم از کم دو امریکی صحافیوں اور دیگر ’چند افراد‘کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کی، تاکہ ان کی لوکیشن کا پتہ لگایا جا سکے اور یہ چیک کیا جا سکے کہ آیا وہ ٹک ٹاک ملازمین سے ملاقات کر رہے ہیں جن پر معلومات لیک کرنے کا شبہ ہے۔
ٹک ٹاک کی ترجمان کا کہنا ہے کہ ڈیٹا تک رسائی حاصل کرنے والے ملازمین کو دسمبر میں فارغ کر دیا گیا تھا۔
کمپنی کا اصرار ہے کہ صارف کا ڈیٹا امریکہ اور سنگاپور میں رکھا گیا ہے اور اسے کبھی چین میں محفوظ نہیں کیا گیا۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ کہیں اور بھی ڈیٹا سٹورز بنانے کے عمل میں ہے، مثال کے طور پر آئرلینڈ میں جہاں وہ 2024 تک برطانیہ اور یورپی یونین کے صارفین کا تمام ڈیٹا منتقل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
3. ٹک ٹاک کو ’برین واشنگ‘ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے
ٹک ٹاک کی ترجمان کا کہنا ہے کہ ’ہماری کمیونٹی گائیڈ لائنز غلط معلومات پر پابندی لگاتی ہیں جو ہمارے معاشرے یا بڑے پیمانے پر لوگوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے، جس میں مربوط غیر مستند رویے میں ملوث ہونا بھی شامل ہے۔‘
نومبر 2022 میں امریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے امریکی قانون سازوں کو بتایا تھا کہ ’چینی حکومت۔۔۔ الگورتھم کو کنٹرول کر سکتی ہے، اور اس سے اثر و رسوخ کی کارروائیوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘
ان خدشات کو اس وقت مزید تقویت ملی جب ٹک ٹاک کمپنی کی ایک اور ایپ دوین جو صرف چین میں دستیاب ہے، کو بہت زیادہ سنسر کیا گیا ہے اور مبینہ طور پر تعلیمی اور اس قسم کے مواد کو وائرل ہونے کی ترغیب دینے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
چین میں تمام سوشل میڈیا نیٹ ورکس کو بہت زیادہ سنسر کیا جاتا ہے جس میں انٹرنیٹ پولیس کی ایک فوج ایسے مواد کو حذف کرتی ہے جو حکومت پر تنقید کرتا ہے یا سیاسی بدامنی کو ہوا دیتا ہے۔
ٹک ٹاک کے عروج کے آغاز میں ہی ایپ پر سنسر شپ کے اعلیٰ درجے کے معاملات سامنے آئے تھے۔ جیسا کہ امریکہ میں جب ایک صارف کے اکاؤنٹ کو چین کے سنکیانگ میں ویغور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر بات کرنے پر معطل کر دیا گیا تھا۔ بعدازاں شدید عوامی ردعمل کے بعد، ٹک ٹاک نے معافی مانگی تھی اور اکاؤنٹ کو بحال کر دیا تھا۔
اس کے بعد سے ٹک ٹاک پر سنسرشپ کے چند دیگر معاملات بھی سامنے آئے ہیں، اور یہ ان متنازع موڈریشن کے علاوہ ہیں جن سے تمام پلیٹ فارمز کو نمٹنا پڑتا ہے۔
سٹیزن لیب کے محققین نے ٹک ٹاک اور دوین کا موازنہ کیا ہے۔
انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ٹک ٹاک ایک جیسی سیاسی سنسرشپ کو نافذ نہیں کرتا ہے۔ محققین نے کہا کہ ’پلیٹ فارم واضح پوسٹ سنسرشپ کو نافذ نہیں کرتا ہے۔‘
جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے تجزیہ کاروں نے تائیوان کی آزادی یا چینی وزیر اعظم شی جن پنگ کے لطیفوں جیسے موضوعات کو بھی تلاش کیا، اور نتیجہ اخذ کیا کہ ’ان تمام موضوعات پر بہت سی ویڈیوز آسانی سے ٹک ٹاک پر مل سکتی ہیں۔ جو بڑے پیمانے پر شیئر کی گئیں ہیں۔‘
نظریاتی خطرہ
لہذا اس تمام سے جو مجموعی تصویر ابھرتی ہے وہ نظریاتی خطرے اور خوف کی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹک ٹاک ایک ’ٹروجن ہارس‘ ہے۔ اگرچہ یہ بے ضرر نظر آتی ہے، مگر تنازعے کے وقت یہ ایک طاقتور ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے۔
انڈیا میں اس ایپ پر پہلے ہی پابندی عائد ہے، جس نے 2020 میں ٹک ٹاک سمیت اور درجنوں دیگر چینی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے خلاف کارروائی کی تھی۔
لیکن ٹک ٹاک پر امریکی پابندی اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بہت زیادہ اثر ڈال سکتی ہے، کیونکہ عام طور پر امریکی اتحادی اکثر ایسے فیصلوں میں اس کا ساتھ دیتے ہیں۔
یہ اس وقت ثابت ہوا تھا جب امریکہ نے چین کی ٹیلی کام کمپنی ہواوے کو فائیو جی انفراسٹرکچر لگانے سے روکنے کے لیے کامیابی کے ساتھ مہم کی قیادت کی تھی۔ اگرچہ اس کی بنیاد بھی نظریاتی خطرے پر تھی۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ یہ خطرات یک طرفہ ہیں۔ چین کو امریکی ایپس کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ چینی شہریوں کو ان تک رسائی کئی سالوں سے بند ہے۔
Comments are closed.