فلسطینی دادی اسرائیلی آبادکاروں کے حملے میں اضافے کے باوجود اپنے گھر بار کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں

امل عواد

امل عواد اپنے گھر کی ٹوٹی ہوئی کھڑکی کے شیشے سے جھانک رہی ہیں۔

ان کا مکان ایک غیر پلاسٹر شدہ کنکریٹ کا ڈھانچہ ہے جس کے چاروں طرف جھاڑیاں ہیں۔ یہ بظاہر عجلت میں تعمیر کیا گیا لگتا ہے لیکن امل کی طرح یہ مکان بھی یہاں کئی دہائیوں سے موجود ہے۔

فلسطین کی معمر خاتون (فسطینی دادی) کا کہنا ہے کہ انھیں مسلسل ہراساں کیے جانے کی عادت سی ہو گئی تھی لیکن اب یہ حملے بڑھتے جا رہے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ کہ 13 فروری کو اسرائیلی آباد کاروں کے ایک گروپ نے آدھی رات کو ان کی زمین کو گھیر لیا۔ گھر پر حملہ کرنے سے پہلے انھوں نے گاڑی کی کھڑکیوں اور سولر پینلز سمیت تمام شیشے توڑ ڈالے۔

ان کی حرکتیں سی سی ٹی وی کیمرے میں قید ہو گئیں۔ وہ سب بیس بال کے بلے کے ساتھ بھوت جیسے نظر آ رہے تھے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں اپنے خاندان کے لیے خوفزدہ ہوں۔ گھر میں میرے چھوٹے چھوٹے بچے اور پوتے پوتیاں ہیں۔ وہ سب بھی خوفزدہ ہیں۔‘

امل مقبوضہ مغربی کنارے میں رہتی ہیں اور کہتی ہیں کہ یہ فلسطینیوں کو زمین سے زبردستی نکالنے کے لیے تشدد کی ایک طویل مہم کا حصہ ہیں۔

امل عواد

امل بتاتی ہیں کہ ’اب وہ (اسرائیلی آبادکار) ہر دوسرے دن آنے لگے ہیں لیکن عام طور پر ہم جب انھیں دیکھتے تو پڑوسیوں کو خبردار کرتے کہ حملہ ہو سکتا ہے مگر اس بار، وہ آدھی رات کے بعد اس وقت آئے جب سب سونے چلے گئے تھے۔‘

فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ سال کے آغاز سے اب تک ایسے 600 حملے ہو چکے ہیں، جو گذشتہ سال کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں کیونکہ گذشتہ سال جنوری اور فروری کے مہینوں میں صرف 55 حملے ریکارڈ کیے گئے تھے۔

ان حملوں کو عام طور پر ’پرائس ٹیگ اٹیک‘ کہا جاتا ہے اور یہ اسرائیلی آباد کاروں کی طرف سے انجام دیے جاتے ہیں جو غیر قانونی یہودی بستیوں کو مسمار کیے جانے کے مخالف ہیں۔ یہ اسرائيلی آباد کار فلسطینی برادریوں کو اپنی غیر قانونی چوکیوں کے نقصان پر سزا دینا چاہتے ہیں۔

سنہ 1993 کے اوسلو امن معاہدے کے تحت مغربی کنارے کو تین علاقوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ امل اس تقسیم کے سب سے بڑے علاقے میں رہتی ہیں جسے ’ایریا سی‘ کہا جاتا ہے اور یہ اسرائیلی کنٹرول میں ہے۔ یہاں پر فلسطینیوں کی حکومت نہیں۔

امل مایوسی اور بے چارگی کے عالم میں مزید بتاتی ہیں کہ ’ہم نے پولیس اور فوج کو بلایا لیکن کوئی نہیں آیا۔ اب تک، کوئی بھی نقصان کا جائزہ لینے کے لیے بھی نہیں آیا۔‘

سی سی ٹی وی کیمرے

پرتشدد حربے

امل کہتی ہیں کہ انھوں نے وقت کے ساتھ صرف آبادکاروں کو حوصلہ مند ہوتے دیکھا ہے۔ ان کے گھر پر اس طرح کا پہلا حملہ اکتوبر سنہ 2021 میں ہوا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’پہلی بار انھوں نے ہمارے گھر پر پتھر پھینکے۔ ہم انھیں روک نہیں سکے کیونکہ ہم اسے طول دینا نہیں چاہتے تھے اس لیے ہم نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن 20 دن کے بعد وہ پھر سے آئے۔ انھوں نے کالی مرچ کے سپرے کا استعمال کیا اور کھڑکیوں اور باڑ کو توڑ دیا۔‘

مغربی کنارے میں یہودی آباد کاری بین الاقوامی قانون کی نظر میں غیر قانونی ہے حالانکہ اسرائیل اس سے اختلاف رکھتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اسرائیل نے سنہ 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر قبضے کے بعد تقریباً 140 بستیاں تعمیر کی ہیں جن میں تقریباً 600,000 یہودی رہائش پذیر ہیں۔

جیسے جیسے ان میں اضافہ ہوتا گیا ہے دونوں برادریوں کے درمیان تناؤ بڑھتا گیا ہے۔

اسرائیل نے گذشتہ ایک سال کے دوران مغربی کنارے میں تلاشی اور گرفتاری کے چھاپے بھی تیز کر دیے ہیں۔ اس کے لیے وہ یہ توجیہ پیش کرتے ہیں کہ وہ اسرائیلیوں کو نشانہ بنانے والے مہلک فلسطینی حملوں کے سلسلے کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

فواد حسن

،تصویر کا کیپشن

فواد اس کمیٹی میں شامل ہیں جو بستی کی نگرانی کرتی ہیں

حفاظت کے لیے گروپ کی تشکیل

امل کے ایک قریبی گاؤں میں فواد حسن ایک رضاکار گارڈ ہیں۔ وہ اپنے گھر کے باہر بیٹھے ہیں اور آس کی زمین کی نگرانی کر رہے ہیں۔ وہ فلسطینی پبلک کمیٹی میں شامل ہیں۔ یہ کمیٹی فلسطینی رہائشیوں کا ایک گروپ ہے جو رات کو نگرانی کے انتظامات کرتا ہے۔

فواد کہتے ہیں کہ ‘ہم نے سنہ 2012 میں شہریوں اور ان کی املاک کو آباد کاروں کے حملوں سے بچانے کے لیے یہ گروپ شروع کیا تھا۔

’جب رہائشی گاؤں میں کوئی حرکت دیکھتے ہیں، یا انھیں اگر کوئی سرگرمی نظر آتی ہے تو وہ ہمیں اطلاع دیتے ہیں۔ ہم دن رات علاقے کی نگرانی کرتے ہیں۔‘

اپنے زیر انتظام علاقوں میں فلسطینی پولیس کے علاوہ مغربی کنارے میں رہنے والے کسی فلسطینی شہریوں کو ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے میں انھیں ٹارچ اور موبائل فون سے اپنا دفاع کرنا ہوتا ہے۔ جب حملہ ہوتا ہے، تو اکثر وہ حملہ آوروں سے کم تعداد میں ہوتے ہیں۔

فواد کہتے ہیں کہ ’خدا ہی ہمارا واحد ہتھیار ہے۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ یہ حملے بند ہوں۔‘

پچھلے سال فواد اپنے گاؤں پر حملے کے دوران اپنے پڑوسی کو بچانے کی کوشش میں زخمی ہو گئے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم صرف چار تھے اور ان کا ایک بڑا گروپ تھا۔ مجھے میرے سر میں پانچ ٹانکے لگے تھے۔‘

لیکن فواد خوش قسمت تھے کیونکہ سنہ 2014 میں اسرائیلی آباد کاروں کے حملے کے دوران رہائشیوں میں سے ایک کی موت ہو گئی تھی۔

فواد کا کہنا ہے کہ وہاں موجود اسرائیلی فوجی نے گاؤں کی حفاظت کے لیے کچھ نہیں کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’اسرائیلی فوج فلسطینیوں کی نہیں بلکہ آباد کاروں کی حفاظت کر رہی ہے۔‘

اسرائیلی فوج کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ امل جیسے رہائشی تشدد کی کارروائیوں کی اطلاع دے سکتے ہیں اور اس پر اسرائیلی فوج کو کارروائی کرنا چاہیے لیکن اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم یش دین کے مطابق سنہ 2005 سے لے کر اب تک مغربی کنارے میں ’نظریاتی اختلافات کے نتیجے میں ہونے والے جرائم‘ کے زمرے میں ہونے والی تمام اسرائیلی تحقیقات میں سے صرف تین فیصد کو سزا سنائی گئی ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ