کیا فن لینڈ کی نیم برہنہ ’سؤنا سفارتکاری‘ بین الاقوامی تعلقات معمول پر لانے میں کارگر ہے؟
دائیں جانب بیٹھے بی بی سی کے نامہ نگار برائے سفارتی امور جیمز لینڈیل کی سؤنا ڈپلومیسی کو سمجھنے کی کوشش
فن لینڈ کے سفارت کاروں نے کئی سالوں سے بین الاقوامی پالیسیوں پر بات چیت اور مسائل کے حل کے لیے سؤنا (بھاپ غسل خانہ) کو ایک آرام دہ مقام کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اب برطانیہ میں بھی ایسا ہی ایک سؤنا بنایا گیاہے۔ لیکن یہ طریقہ پر کشش کیسے ہے؟ بی بی سی کے نامہ نگار جیمز لینڈیل نے لندن میں فن لینڈ کے سفارت خانے کے اندر نئی سؤنا سوسائٹی میں شمولیت اختیار کی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ کیسے کام کرتا ہے۔
سفارت کاری کئی شکلوں میں ہوتی ہے۔ بین الاقوامی سربراہی اجلاس، اعلیٰ سطح پر مذاکرات، اور پرتعیش استقبالیہ جہاں مہمانوں کو شیمپین اور نفیس چاکلیٹ پیش کی جاتی ہے۔ لیکن فن لینڈ کے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ اُن کے پاس ایک خفیہ ہتھیار ہے، لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کا ایک انوکھا طریقہ، بشرطیکہ وہ اپنے کپڑے اتارنے کے لیے تیار ہوں۔
برسوں سے واشنگٹن ڈی سی میں فن لینڈ کے سفارت خانے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں ایک سفارتی سونا سوسائٹی موجود ہے۔ اور اب لندن میں سفارت خانے کے تہہ خانے میں بھی ایک سونا سوسائٹی قائم کی گئی ہے جسے پچھلے سال کھولا گیا تھا۔
’سؤنا ڈپلومیسی‘ آسان ہے۔ فن لینڈ کے سفارت کار اپنے رابطوں کو برطانیہ کے سفارت خانے میں مدعو کرتے ہیں، وہاں تعارف کرایا جاتا ہے، ایک مشروب پیا جاتا ہے، اور پھر کپڑے بدلنے کا وقت ہو جاتا ہے۔ خواتین خود ہی سؤنا کی طرف روانہ ہوجاتی ہیں۔ جب وہ فارغ ہو جاتی ہیں تو مردوں کی باری آتی ہے۔ آخر میں سب ایک بار پھر کچھ کھانے پینے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔
اسے بے لباس نیٹ ورکنگ کہہ سکتے ہیں۔ اور بظاہر یہ مؤثر بھی ہے۔
معاملات کی تہہ تک پہنچنا
ہیلی سومینین، برطانیہ میں فن لینڈ کے سفارت خانے کی پریس قونصل، کہتی ہیں ’سؤنا فن لینڈ کی ایک پرانی روایت ہے، جو فن لینڈ کے طرز زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ سؤنا ڈپلومیسی کا مقصد اعتماد پیدا کرنا اور دوستی قائم کرنا ہے۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’یہ کھل کر بات کرنے کے لیے ایک اچھا ماحول پیدا کرتا ہے۔ چونکہ آپ نے پوری طرح سے لباس نہیں پہنا ہوتا یوں سب برابر لگتے ہیں، اپنے عہدوں اور القاب کو بھولنا آسان ہوجاتا ہے۔ لہذا آپ چیزوں کی تہہ تک جا سکتے ہیں۔ یہ اسے سمجھانے کا ایک طریقہ ہے۔‘
خیال ہے کہ جسم گرم ہونے اور پسینہ آنے کی وجہ سے ہر کوئی پرسکون ہوجاتا ہے، اعتماد پیدا ہوتا ہے اور تناؤ کم ہوتا ہے، جس سے تعلقات استوار کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ اور جب مجھے ایک شام لندن میں سؤنا ڈپلومیسی کے اس طریقے کا تجربہ ہوا تو واقعی ایسا ہی محسوس ہوا۔
مرد اور خواتین الگ الگ سونا میں وقت گزارتے ہیں
اس سب کے واضح قواعد ہیں۔ آپ پہلے نہاتے ہیں پھر آپ تیراکی کا لباس پہنتے ہیں یا تولیہ لپیٹ لیتے ہیں، جبکہ مرد مردوں کے ساتھ پسینہ بہاتے ہیں اور خواتین دوسری خواتین کے ساتھ۔ جیسے ہی آپ اندر داخل ہوتے ہیں آپ کو گرمی سے بچاؤ کے لیے تولیہ دیا جاتا ہے جسے ’بم ٹاول‘ کہا جاتا ہے اور اسے پہن کر بیٹھا جا سکتا ہے۔ جب میں سؤنا میں داخل ہوا تو اندر تھرمامیٹر کے مطابق درجہ حرارت تقریباً 80 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ اور اس طرح آپ کو پسینہ آنا شروع ہوتا ہے اور اپ بات چیت کرتے ہیں اور بہت جلد لوگوں نے جو اپنے گرد خول بنا رکھے ہوتے ہیں وہ ٹوٹ جاتے ہیں۔
سؤنا ڈپلومیسی تمام ممالک میں کام نہیں کرتی۔ کچھ معاشروں میں عوامی سطح پر نیم عریانیت قابلِ قبول نہیں ہوتی اور پانچ دوسرے مردوں کے ساتھ ایک چھوٹی سی مدھم روشنی والی جگہ میں گھسا دیے جانے کے بارے میں کچھ تحفظات ہوسکتے ہیں۔ لیکن جب میں نے وہاں سب سے پوچھا کہ کیا کسی کو عجیب سا لگ رہا ہے تو کسی نے بھی ہاں میں جواب نہیں دیا۔
فیڈریکو بیانچی جو اس وقت لندن میں یورپی یونین کے لیے کام کر رہے ہیں کہتے ہیں کہ وہ اس سے لطف اندوز ہوئے کیونکہ یہ بہت مختلف تھا۔ اپنے پیشے میں ایک بہترین سوٹ اور ایک موبائل فون اور معمول کے طور طریقوں کے بغیر سفارت کاری۔
فیڈریکو بیانچی مزید کہتے ہیں کہ ’یہ بہت ہی عجیب سی بات ہے کہ لباس نہ پہنا جائے اور جو شخصیت بنتی ہے اس پر بھی انحصار نہ کیا جائے جو تاثر آپ کی نظر میں آپ کے ہم منصب کا آپ کے بارے میں ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’آپ کو صرف بے لباس الفاظ پر انحصار کرنا ہوگا اور اس پر جو آپ کہہ رہے ہیں۔‘
ایسا وقت بھی آیا ہے جب فن لینڈ کے رہنماؤں نے سؤنا کو براہ راست سفارت کاری کے لیے استعمال کیا۔ 1960 کی دہائی میں سرد جنگ کے دوران فن لینڈ کے رہنما اورہو کیکونن اس وقت سوویت یونین کے صدر نکیتا خروشیف کو ہمراہ رات بھر سؤنا میں رہے اور انھیں قائل کیا کہ وہ فن لینڈ کو مغرب کے ساتھ ضم ہونے کی اجازت دیں۔ 2005 میں جب ولادیمیر پوتن نے ہیلسنکی کا دورہ کیا تو انہوں نے فن لینڈ کے صدر تاریا ہالونن کے شوہر کے ساتھ سؤنا میں وقت گزارا اور اسے ایک ’زبردست تجربہ‘ قرار دیا۔
‘آپ اس کلب کا حصہ بننا چاہتے ہیں’
لیکن آج کل سؤنا ڈپلومیسی کا تعلق ثقافتی روابط قائم کرنے سے زیادہ جوڑا جاتا ہے۔ سانا کنگاشارجو، فن لینڈ کی ایک سفارت کار جو اس وقت یورپی پارلیمنٹ کے لیے کام کر رہی ہیں، واشنگٹن ڈی سی میں سؤنا سوسائٹی چلاتی تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ بہت مقبول تھا‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’یہ ایک طرح کی انڈر گراؤنڈ چیز بن گئی اور ہر کوئی سؤنا سوسائٹی کا ٹکٹ حاصل کرنا چاہتا تھا۔ ہر ملک کا واشنگٹن میں ایک سفارت خانہ ہوتا ہے – ہم سب صحافیوں، (اور) کانگریس میں کام کرنے والے افراد کی توجہ حاصل کرنے کے لیے لڑ رہے ہوتے تھے۔ اس پس منظر میں ایک ایسی چیز بنانا جس کا حصول تھوڑا مشکل ہو تو ہر کوئی اس تک رسائی چاہتا ہے- ہم مہینے میں ایک بار جمعہ کی شام کو صرف 25 لوگوں کو مدعو کر سکتے تھے۔‘
سانا کنگاشارجو کو لگتا ہے کہ وہ سؤنا کے بغیر امریکی دارالحکومت میں اتنا مضبوط نیٹ ورک تیار نہیں کر پاتیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’وہ ایک خاص تجربہ چاہتے ہیں‘ وہ مزید کہتی ہیں۔ ’جب آپ کسی استقبالیہ پر جاتے ہیں اور آپ دوسرے لوگوں سے ملتے ہیں، تو آپ کہہ سکتے ہیں: اوہ، میں نے آپ کو لباس پہنے ہوئے نہیں پہچانا’۔ آپ اس کلب کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔‘
بہت سے لوگوں کے لئے سؤنا سے جڑا ایک مشکل سوال ہوتا ہے اور وہ یقیناً سؤنا میں جنسی تعلقات قائم کرنا ہے۔ کچھ معاشروں میں دونوں میں گہرا تعلق ہے۔ لیکن ہیلی کا کہنا ہے کہ فن لینڈ میں ایسا نہیں ہے۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’فینش سؤنا ایک غیر جنسی جگہ ہے۔ یہاں تک کہ دوسری جگہوں سے بھی زیادہ جہاں آپ دوسرے لوگوں سے ملتے ہیں۔‘ وہ کہتی ہیں ’یہ ہمارے لیے تقریباً مقدس ہے کہ یہ سب کے لیے ایک محفوظ جگہ ہے۔ سؤنا کا مقصد یہ ہے کہ ہر کوئی یہاں پرسکون ہو اور قابل احترام محسوس کرتا ہو۔‘
سفارت کاری کے کچھ طور طریقوں میں بہت زیادہ کھانا پینا شامل ہو سکتا ہے۔ اس میں کام کا دن طویل ہوتا ہے۔ لیکن سؤنا ڈپلومیسی کی ایک شام کے بعد ہمیں اچھا لگا، دن کا تناؤ رات کے پسینہ میں بہہ گیا۔
ہم ڈپلومیٹک سونا سوسائٹی کی رکنیت کے سرٹیفکیٹ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ اس کا نصب العین یہ ہے کہ ’تمام لوگ برابر بنائے گئے ہیں اور سؤنا سے زیادہ برابری کہیں نہیں ہے۔‘
Comments are closed.