کیا روس نے واقعی پاکستان سے ہیلی کاپٹروں کے انجن واپس مانگے ہیں؟

پاکستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

دنیا کو بڑے پیمانے پر ہتھیار اور اسلحہ فروخت کرنے والے ملک روس نے شاید کبھی سوچا نہ ہوگا کہ اسے کسی دن خود ہتھیاروں کی کمی کا سامنا ہو گا۔ تاہم ایک عالمی جریدے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق یوکرین کیخلاف ایک طویل جنگ کا سامنا کرتے ہوئے روس پر ایسا ہی وقت آ چکا ہے اور اس بحران سے نمٹنے کے لیے پوتن غیر معمولی اقدامات اٹھانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق روس کی صورتحال کچھ ایسی ہے کہ یوکرین کے خلاف جاری جنگ میں اسے اپنی پوزیشن مستحکم رکھنے کے لیے پاکستان، مصر، برازیل اور بیلاروس جیسے ممالک طرف دیکھنا پڑ رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق روس ان ممالک کو فروخت کیے گئے اپنے لڑاکا اور کارگو ہیلی کاپٹروں کے انجن تک واپس کرنے کے لیے کہہ رہا ہے۔

درحقیقت جب سے روس نے جنگ شروع کی ہے، ہیلی کاپٹر اس کی کارروائیوں کا ایک اہم حصہ رہے ہیں۔ لیکن جنگ کے ابتدائی دنوں میں اسے 100 سے زائد ہیلی کاپٹروں سے محروم ہونا پڑا۔

ایسے میں ایک طرف روس نے ہیلی کاپٹروں کے انجن اور سپیئر پارٹس کی تیاری میں تیزی لائی ہے تو دوسری جانب وہ دوسرے ممالک سے ہیلی کاپٹر اور سپیئر پارٹس بھی لانے کے لیے مجبور ہے۔ رپورٹ کے مطابق روس کو انڈیا اور آرمینیا جیسے ممالک کو فروخت ہونے والے ہتھیاروں کی فراہمی بھی روکنا پڑی ہے۔

یاد رہے کہ روس دنیا میں اسلحہ فروخت کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے اور اس نے کئی دہائیوں کی محنت کے بعد اسلحہ کی عالمی منڈی میں یہ مقام حاصل کیا ہے۔

لیکن یوکرین کے ساتھ ہونے والی جنگ اب تیسرے سال میں داخل ہو چکی ہے اور گولہ بارود کے مسلسل اخراجات نے روس کے لیے ایک بڑا چیلنج پیدا کر دیا ہے۔

وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق روس نے ہتھیاروں اور سپیئر پارٹس کی پیداوار میں اضافہ تو کیا ہے لیکن اس سے اس کی ضروریات پوری نہیں ہو رہی ہیں اور روس نے اب ان ممالک سے رابطہ کیا ہے جنھوں نے اس سے طیارے، ہیلی کاپٹر، میزائل اور دفاعی نظام خرید رکھے ہیں۔

اسی رپورٹ کے مطابق ہی رواں سال روس نے پاکستان، بیلاروس اور برازیل کو فروخت کیے گئے فوجی اور کارگو ہیلی کاپٹروں کے انجن واپس لینے کے لیے بات چیت کی ہے۔

ہتھیار

روس پاکستان سے کیا چاہتا ہے؟

وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ روس نے پاکستان سے کم از کم چار ایم آئی 35 ایم ہیلی کاپٹروں کے انجن واپس مانگے ہیں۔

تاہم پاکستانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ روس نے اس حوالے سے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔

اسی طرح روس نے برازیل سے بھی ہیلی کاپٹروں کے 12 انجن مانگے تھے۔ برازیل کی وزارت خارجہ کے اہلکار نے اخبار کو بتایا ہے کہ یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا کیونکہ برازیل کی پالیسی ہے کہ وہ جنگ کے دوران کسی بھی حریف کو ہتھیار نہیں بھیجتا۔

اس کے ساتھ ہی روس کے قریبی اتحادی بیلاروس کی جانب سے چھ ایم آئی 26 ٹرانسپورٹ ہیلی کاپٹروں کے انجن واپس فروخت کرنے کی خبر بھی ہے تاہم بیلاروس نے اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

ہیلی کاپٹر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انڈیا اور آرمینیا کو روسی دفاعی سامان کی فراہمی بند

یوکرین کے ساتھ جنگ کی وجہ سے روس کا اسلحہ برآمد کرنے کا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے۔ وہ خود ہی ان ہتھیاروں کا استعمال کر رہا ہے جو اسے انڈیا اور آرمینیا کو فروخت کرنا تھا۔

وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق آرمینیا کو معاہدے سے کہیں کم ملٹی پرپز راکٹ لانچنگ سسٹم ملے ہیں۔ اسی طرح انڈیا کو بھی کچھ سامان کی برآمد منسوخ کر دی گئی ہے۔

رواں سال جون میں نکی ایشیا کی رپورٹ نے کسٹم کلیئرنس ڈیٹا کی بنیاد پر یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ روس انڈیا اور میانمار کو فروخت کیے گئے ٹینکوں اور میزائلوں کے پرزے واپس خرید سکتا ہے۔

روسی صدر ولادیمیر پوتن

،تصویر کا ذریعہSHUTTERSTOCK

اس سے پہلے خبر آئی تھی کہ 2 ارب ڈالر سے زائد کی ادائیگیاں زیر التوا ہونے کی وجہ سے روس نے انڈیا کو سپیئر پارٹس اور ایس-400 میزائل ڈیفنس سسٹم کی فراہمی روک دی ہے۔

روس انڈیا کو اسلحہ فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ تاہم سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2017 اور 2022 کے درمیان انڈین دفاعی درآمدات میں اس کا حصہ 62 فیصد سے کم ہو کر 45 فیصد رہ گیا ہے۔

سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے کہا کہ انڈیا میں ہتھیاروں کی پیداوار میں اضافے اور یوکرین پر حملے کی وجہ سے اسلحے کی برآمد میں رکاوٹوں کی وجہ سے روس سے ہتھیاروں کی سپلائی میں کمی آئی۔

میزائل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

روس نے مصر سے 100 سے زائد انجن مانگے

وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال اپریل میں روسی حکام نے مصری صدر عبدالفتاح السیسی سے 100 سے زائد روسی ہیلی کاپٹر واپس کرنے کے لیے کہا تھا۔ مصر 2014 سے روسی ہتھیاروں کا ایک اہم خریدار رہا ہے۔

مصر نے روس کے ساتھ ہیلی کاپٹروں، لڑاکا طیاروں اور فضائی دفاعی نظام کے لیے ایک ارب ڈالر کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

لیکن مارچ میں مصر امریکی پابندیوں کے خوف سے ان میں سے بہت سے معاہدوں سے دستبردار ہو گیا۔

مصر نے اس سے قبل مبینہ طور پر روس کو راکٹ بیچنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن امریکی دباؤ پر اسے پیچھے ہٹنا پڑا۔ اس کے بعد روس نے مصر کو فروخت کیے گئے ایم آی-18 اور ایم آئی-17 ہیلی کاپٹروں کے انجن واپس کرنے کو کہا۔

روس نے کہا ہے کہ بدلے میں وہ مصر کے واجبات معاف کرے گا اور گندم کی سپلائی جاری رکھے گا۔ انکار کی صورت میں اس نے مصر میں موجود اپنے ہتھیاروں کی صنعت کے مشیروں کو واپس بلانے کی دھمکی دی تھی۔

وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق مصری حکومت کی ترجمان دیا راشوان نے اس معاملے پر براہ راست کوئی تبصرہ نہ کرتے ہوئے کہا کہ ’مصر اپنے پڑوس میں بہت سے خطرات کے باعث اپنی سلامتی سے سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔‘

تاہم ذرائع کے حوالے سے اس رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ مصر دسمبر تک ہیلی کاپٹر کے انجن روس کو واپس بھیج سکتا ہے۔ لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ ان کی تعداد کیا ہوگی۔

یہ بھی پڑھیے

’چار ہیلی کاپٹر تو کچھ نہیں ہوتے‘

دفاعی تجزیہ کار سید محمد علی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین کی جنگ کو کافی عرصہ ہو چکا ہے تاہم انھوں نے روس کی جانب سے پاکستان سے چار ہیلی کاپٹروں کے انجن طلب کیے جانے کی رپورٹ پر سوال اٹھایا اور کہا کہ اس کا امکان کافی کم ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’وال سٹریٹ کی رپورٹ میں مفروضہ یہ ہے کہ روس اپنی پیداواری صلاحیت کے ذریعے دفاعی ضرورت کو پورا نہیں کر پا رہا ہے اور اسی وجہ سے روس کو اپنی اسلحہ کی برآمد روکنا پڑ رہی ہے اور دوسرے ممالک سے چیزیں مانگنا پڑ رہی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’روس کے یوکرین جنگ میں آپریشنز میں ڈرون کا زیادہ استعمال ہو رہا ہے اور ایران روس کو ڈرون فراہم کر رہا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ روس دیگر ممالک سے دفاعی تعاون کا خواہاں ہے اور صرف روسی ہتھیار استعمال نہیں ہو رہے۔‘

محمد علی کا کہنا تھا کہ ’دوسری بات یہ کہ جن ممالک سے روس دفاعی تعاون کا خواہاں ہے، وہ کون سا اسلحہ استعمال کر رہے ہیں۔ ایران، شمالی کوریا تو ایسا اسلحہ نظام استعمال کر رہے ہیں، توپ خانہ اور ڈرون، جو روس استعمال کرتا ہے۔‘

انھوں نے انڈیا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا کے پاس بھی ایسا اسلحہ موجود ہے کیوں کہ وہ روس کی سب سے بڑی دفاعی منڈی ہے۔ پھر ان کا تعاون بھی اتنا ہے کہ جو اسلحہ روسی فوج استعمال کرتی ہے وہی انڈیا کی فوج استعمال کرتی ہے جیسا کہ ٹی نائنٹی ٹینک اور انڈیا لائسنس کے تحت بڑے پیمانے پر تیار کرتا ہے۔ تو انڈیا بڑے پیمانے پر روس کو سامان فراہم کر سکتا ہے۔‘

پاکستان سے جڑے وال سٹریٹ کے دعوے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’جہاں تک پاکستان کا سوال ہے، یہ مفروضہ درست معلوم نہیں ہوتا کہ روس پاکستان سے چار ہیلی کاپٹرز کے انجن مانگے گا۔ چار ہیلی کاپٹر تو کچھ نہیں ہوتے۔‘

’تیسرا نکتہ ہے کہ پاکستان کا اسلحہ نظام بھی اتنا بڑا نہیں ہے کہ روس کی دفاعی ضروریات کو سہارا دے سکے۔ اور پاکستان کے اپنے معاشی مسائل ہیں تو اگر ایسا مطالبہ ہو بھی تو پاکستان چار ہیلی کاپٹر کے پرزے نہیں دے سکتا جب یہاں شدت پسندی کیخلاف کارروائیوں میں ہیلی کاپٹرز کی ضرورت پڑ رہی ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ