کووڈ 19 کی مختلف قسمیں کس حد تک خطرناک ہو سکتی ہیں؟
- جیمز گیلاگر
- صحت اور سائنس کے نامہ نگار
یہ واضح ہے کہ اب ہم ایک ایسے وائرس سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں جو بہت تیزی سے پھیلتا ہے۔۔۔ شاید اس سے دگنی رفتار سے جو 2019 کے آخر میں ووہان میں سامنے آیا تھا۔
کورونا وائرس کی پہلی بار کینٹ، برطانیہ میں شناخت ہونے والی الفا قسم کی منتقلی کی صلاحیت کافی حد تک زیادہ تھی۔ اب انڈیا میں سامنے آنے والی ڈیلٹا قسم کی منتقلی کی صلاحیت الفا سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
یہ وائرس کے ارتقا کا عمل ہے جو مسلسل جاری ہے۔ تو کیا ہم ان نئی اور سنگین قسموں کی کبھی نہ ختم ہونے والی پریڈ میں پھنس کر رہ گئے ہیں جن سے نمٹنا مشکل سے مشکل تر ہو رہا ہے؟ یا کووڈ 19 کی قسمیں خطرناک ہونے کی کوئی حد ہے؟
کووڈ 19 وائرس کی تبدیلی کے سفر پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس نے چمگادڑوں سے لے کر مکمل طور پر مختلف مخلوقات یعنی انسانوں کو متاثر کیا ہے۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ نئی نوکری شروع کریں: آپ اہل ہیں، لیکن آپ کو سب کام نہیں آتے اور آپ آہستہ آہستہ ہی بہترین کارکردگی دکھانا سیکھتے ہیں۔ وبائی بیماری کی پہلی قسم ہی کافی تباہ کن رہی لیکن آہستہ آہستہ یہ وائرس ایک نئے نوکری پیشہ شخص کی طرح بہترین انداز میں کام یعنی زیادہ سے زیادہ تباہی لانا سیکھ رہا ہے۔
امپیریل کالج لندن سے تعلق رکھنے والی ماہر پروفیسر وینڈی بارکلے کہتی ہیں کہ جب وائرس انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں تو ضروری نہیں کہ وہ بہترین انداز میں کام کریں۔۔۔ وہ پہلے جسم میں آباد ہو جاتے ہیں اور پھر یہاں بہترین وقت گزارتے ہیں۔
ایبولا سے لے کر عام فلو تک متعدی وبائی امراض کی مثالیں دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’پہلے ان کی منتقلی کی شرح بڑھتی ہے اور پھر انتہائی تیزی سے پھیلتےاور بدلتے جاتے ہیں۔‘
تو یہ صورتِ کتنی بدتر ہو سکتی ہے؟
وائرس کے پھیلنے کی طاقت کا موازنہ کرنے کا بہترین ترین طریقہ یہ ہے کہ ان کا آر او نمبر یعنی پھیلاؤ کی شرح دیکھیں۔
اگر کوئی بھی انفیکشن سے نہیں بچ سکتا، اور کسی نے وائرس سے بچنے کی اضافی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کیں تو آراو نمبر ان لوگوں کی اوسط تعداد ہے جنھیں ایک متاثرہ شخص سے وائرس لگا ہو۔
امپیریل کالج لندن میں بیماری کے ماہر ماڈل کے مطابق جب ووہان میں وبائی بیماری شروع ہوئی تھی تب یہ کووڈ کی یہ صلاحیت 2.5 کے آس پاس تھی اور ڈیلٹا اقسام کے لیے یہ 8.0 تک جا سکتی ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں وائرل ارتقا کا مطالعہ کرنے والے ڈاکٹر ایریس کتزوراکس کہتے ہیں ’اس وائرس نے ہمیں بہت حیرت میں ڈالا ہے۔ یہ ہمارے کسی بھی خوف سے بڑھ کر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ 18 مہینوں میں دو بار ہوا ہے، اس کی دو اقسام (الفا اور پھر ڈیلٹا) جو ہر ایک دوسری سے 50 فیصد زیادہ منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے جو انتہائی غیر معمولی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ یہ وائرس کس حد تک بڑھ سکتا ہے، اس کی پیشگوئی کرنے کا خیال ’احمقانہ‘ ہے لیکن ان کا اندازہ ہے اگلے دو سالوں میں یہ باآسانی بہت بڑی چھلانگ لگا سکتا ہے یعنی اس کی کچھ اور مختلف خطرناک قسمیں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
تاہم کچھ وائرس ایسے ہیں جن کے انفیکشن کی شرح کووڈ وائرس سے کہیں زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر خسرہ یا چیچک کا وائرس اس معاملے میں ’ریکارڈ ہولڈر‘ ہے جس کے انفیکشن کی شرح بڑھ کر سنگین صورتحال اختیار کر سکتی ہے۔
پروفیسر بارکلے کا کہنا ہے ’خسرہ میں پھیلنے کی شرح 14 سے 30 کے درمیان ہے لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’کورونا وائرس میں مزید اضافہ (خطرناک ہونے) کی گنجائش موجود ہے لیکن اس کے بارے میں واضح طور پر کچھ کہنا درست نہیں ہو گا۔‘
تو پھر مختلف اقسام کیسے بڑھ رہی ہیں؟
وائرس اپنے پھیلاؤ کے لیے بہت سی چالوں کا استعمال کر سکتا ہے، جیسا کہ:
- یہ ہمارے جسم کے خلیوں تک رسائی حاصل کرنے کے طریقوں کو بہتر بنا کر
- ہوا میں لمبے وقت تک زندہ رہ کر
- وائرل بوجھ میں اضافہ کر کے تاکہ مریض سانس لیتے یا کھانستے ہوئے زیادہ وائرس باہر پھینکیں
- جب کسی دوسرے فرد میں انفیکشن پھیلتا ہے تو یہ اپنی شکل تبدیل کر لے
لیکن کورونا وائرس میں ہم نے جس طرح کی تبدیلی ‘الفا’ سے لے کر ‘ڈیلٹا’ میں دیکھی ہے، کیا ہمیں اسی طرح اومیگا یا دیگر مختلف حالتوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور کیا یہ مختلف حالتیں بد سے بدتر ہوتی جائیں گی؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر ایرس کتزوراکیس کہتے ہیں ’آخرکار اس کی بھی ایک حد ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک انتہائی الٹرا وائرس ہو گا جس میں تغیر پزیر ہونے کے تمام برے امتزاج شامل ہوں گے اور یہ ایسا وائرس ہو گا جس پر قابو نہ پایا جا سکے۔‘
یہ بھی پڑھیے
انھوں نے اس سیاق و سباق میں ایک مشہور تصور کا بھی حوالہ دیا کہ ’جب آپ کچھ چیزوں میں بہتر ہو رہے ہوں تب آپ کچھ چیزوں میں بری کارکردگی بھی دکھانے لگتے ہیں۔‘
اسی کے ساتھ، کچھ ماہرین کی رائے ہے کہ تاریخ میں سب سے تیز رفتار ویکسینیشن مہم اس وائرس کے لیے ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر کتزوراکیس کہتے ہیں ’یہ بالکل ممکن ہے کہ وائرس میں وہ تبدیلیاں جو ویکسین سے بچنے کے عمل کو بہتر بناتی ہیں، بالآخر اس کی منتقلی کی صلاحیت کو بالکل ہی کم کر دے گی۔‘
انھوں نے اس کے لیے بیٹا اور ڈیلٹا ایڈیشن کے مابین ہونے والی تبدیلی کا حوالہ دیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ڈیلٹا کی مختلف حالتوں (جن میں E484K بھی شامل ہے) میں ہم نے دیکھا کہ نہ صرف یہ تیزی سے پھیلتا ہے، بلکہ یہ قوتِ مدافعت کو بھی دھوکہ دے سکتا ہے۔‘
ایسی صورتحال میں ابھی یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ کووڈ سے نمٹنے کے لیے بہترین حکمت عملی کیا ہے۔ مختلف وائرس مختلف طریقے سے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ جیسے چیچک (خسرہ) وائرس انتہائی خطرناک ہے لیکن یہ زندگی بھر کے لیے قوتِ مدافعت چھوڑ جاتا ہے لہذا اسے ہر بار ایک نیا ہدف ڈھونڈنا پڑتا ہے۔
اگرچہ انفلوئنزا وائرس کے پھیلاؤ کی شرح بہت کم ہے لیکن یہ شاذ و نادر ہی ایک سے بھی اوپر جاتی ہے مگر یہ لوگوں کو قوتِ مدافعت دینے کے باوجود اکثر انفیکشن کا سبب بنتا ہے۔
پروفیسر بارکلے کا کہنا ہے ’ہم ایک انتہائی دلچسپ، درمیانے اور کسی حد تک غیر متوقع مرحلے میں ہیں جس میں یہ پیش گوئی کرنا مشکل ہے کہ آنے والے برسوں میں یہ وائرس کیسا ہو گا۔‘
ایک اور نظریہ بھی ہے جسے اگرچہ بہت سارے سائنسدان پسند نہیں کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اگر یہ وائرس آسانی سے پھیلنے لگے اور خود کو برقرار رکھے تو یہ کم خطرناک ہو جائے گا۔
لیکن کچھ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ارتقا کے لیے وائرس پر دباؤ کم ہے۔ وائرس پہلے سے متاثرہ شخص کو مارنے سے بھی پہلے دوسرے شخص کو بھی متاثر کر دیتا ہے اور وہ لوگ جو سب سے زیادہ اسے پھیلاتے ہیں (کم عمر افراد) وہ خود زیادہ بیمار نہیں ہوتے۔
لیکن اس غیر متوقع مرحلے میں ویکسینیشن کی تیز رفتار مہمات امید کی کرن ہیں۔
سائنس دانوں کو امید ہے کہ امیر اور ترقی یافتہ ممالک میں جہاں ویکسینیشن مہم تیزی سے چلائی جا رہی ہے کورونا وائرس کی اگلی شکل مدافعت کی وجہ سے اتنی پریشانی کا باعث نہیں ہو گی۔
لیکن یہ مختلف حالتیں زیادہ متعدی ہونے والی ہیں اور ان کا خطرناک رجحان باقی دنیا کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہے۔
Comments are closed.