جعلی ڈگریوں کی فروخت میں ملوث بدنامِ زمانہ کمپنی ایگزیکٹ نے برطانیہ سے لے کر متحدہ عرب امارات تک اپنے پنجے گاڑے ہوئے تھے، ایگزیکٹ پہلے جعلی ڈگری بیچ کر پیسا کماتی تھی، پھر اس کے کال ایجنٹس قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے روپ میں ڈگری لینے والوں کو دھمکاتے تھے، تصدیق کے نام پر بھی چونا لگاتے تھے، کئی بین الاقوامی نشریاتی اداروں نے ایگزیکٹ کے ڈھول کا پول کھولا تھا۔
جعلی ڈگری کیس میں 50 لاکھ روپے رشوت لے کر شعیب شیخ کو بری کرنے پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج پرویز القادر میمن کو فروری 2017 میں معطل کیا گیا تھا، فروری 2018 میں انہیں نوکری سے برطرف کر دیا گیا تھا۔
5 جولائی 2018 کو اسلام آباد کی سیشن کورٹ نے جعلی ڈگری کیس میں ایگزیکٹ کے مالک شعیب شیخ سمیت 23 ملزمان کو مجموعی طور پر 20، 20 سال قید اور 13 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
امریکا اور دیگر ملکوں میں جعلی ڈگریوں کے کاروبار سے پاکستان کی بدنامی کا باعث بننے والے مقدمے کا فیصلہ نیو یارک کی عدالت میں بھی ہوا تھا، اگست 2017 میں جو فیصلہ سنایا گیا اس میں عدالت نے ایگزیکٹ کے وائس پریزیڈنٹ عمیر حامد کو 21 مہینے قید کی سزا سنائی تھی، جعلی ڈگریوں سے حاصل 56 کروڑ روپے کی رقم بھی ضبط کرنے کا حکم دیا تھا۔
ایگزیکٹ کا کچا چٹھا بین الاقوامی میڈیا نے بھی کھولا تھا، امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی نے جنوری 2018 میں انکشاف کیا تھا کہ ایگزیکٹ جعلی ڈگریوں کے معاملے پر بھتہ خوری اور بلیک میلنگ پر اتر آئی تھی۔
خلیجی اخبار نے انکشاف کیا تھا کہ ایگزیکٹ کے کال ایجنٹس خود کو اماراتی عہدے دار ظاہر کرکے جعلی ڈگری لینے والوں سے رقم بٹورتے ہیں۔
اخبار نے لکھا تھا کہ دبئی میں جنوبی افریقا کے ایک شہری کو فون کرنے والے نے خود کو دبئی پولیس کا افسر ظاہر کیا تھا، سرکاری تصدیق کے نام پر تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ پاکستانی روپے کا مطالبہ کیا گیا اور ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں کارروائی کی دھمکی دی گئی۔
ایگزیکٹ کا بھانڈا سب سے پہلے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے پھوڑا تھا، جس کے بعد کئی بین الاقوامی اخبارات نے بھی ایگزیکٹ کے ڈھول کا پول کھولا تھا۔
Comments are closed.