بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

چین کے ’’ایک میل لمبے خلائی جہاز‘‘ پر امریکا میں تشویش

بیجنگ: گزشتہ دنوں ’’نیشنل نیچرل سائنس فاؤنڈیشن آف چائنا‘‘ (NNSFC) کے ایک اعلان میں چینی سائنسدانوں کو دیگر بڑے منصوبوں کے ساتھ ساتھ ایک ’’بہت بڑے خلائی جہاز/ خلائی اسٹیشن‘‘ پر تحقیق کی دعوت دی گئی ہے جس پر مغربی ممالک، بالخصوص امریکا میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

ممکنہ طور پر یہ خلائی جہاز یا خلائی اسٹیشن تقریباً ایک میل لمبا ہوگا جہاں خلا نورد طویل مدت تک قیام کرسکیں گے۔ اس حوالے سے ابتدائی تحقیق کےلیے ڈیڑھ کروڑ یوآن (تقریباً ایک ارب پاکستانی روپے) کی رقم بھی منظور کی جاچکی ہے۔

یہ خبر سب سے پہلے چین سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار ’’ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ‘‘ کی ویب سائٹ پر 24 اگست 2021 کے روز شائع ہوئی۔

اس خبر کو بنیاد بناتے ہوئے لائیو سائنس، دی نیکسٹ ویب، انٹرسٹنگ انجینئرنگ اور یونیورس ٹوڈے پر بھی مضامین شائع کیے گئے جن میں چین کے خلائی منصوبوں پر اعتراضات کے علاوہ بطورِ خاص ایک بہت بڑے خلائی جہاز/ خلائی اسٹیشن کے تصور پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے۔

ان تمام مضامین میں کہا گیا ہے کہ سولہ ملکوں کے مشترکہ ’’عالمی خلائی اسٹیشن‘‘ (آئی ایس ایس) پر اب تک 150 ارب ڈالر خرچ ہوچکے ہیں جبکہ اس کا سالانہ بجٹ تین ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔

آئی ایس ایس کی لمبائی 361 فٹ ہے جبکہ چین کا مجوزہ خلائی اسٹیشن/ خلائی جہاز اس کے مقابلے میں بھی تقریباً 15 گنا طویل ہوگا۔

لہٰذا، یہ بات یقینی ہے کہ چینی خلائی اسٹیشن/ خلائی جہاز کی لاگت بھی آئی ایس ایس کی نسبت پندرہ بیس گنا زیادہ ہوگی۔

ویب سائٹ ’’لائیو سائنس‘‘ نے اس بارے میں ناسا کے سابق چیف ٹیکنالوجسٹ اور کورنیل یونیورسٹی میں ایئرو اسپیس انجینئرنگ کے موجودہ پروفیسر، میسن پیک کی رائے بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ منصوبہ بے حد مشکل ضرور ہے لیکن اسے ناممکن نہیں کہا جاسکتا۔

میسن پیک کے مطابق، اس منصوبے میں دو بڑے چیلنجوں کا سامنا ہوگا: پہلا اس کی جسامت کا اور دوسرا اس کی لاگت کا۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ چینی ماہرین بھی اس پہلو سے بے خبر نہیں کیونکہ ’’نیشنل نیچرل سائنس فاؤنڈیشن آف چائنا‘‘ نے اپنے اعلان میں واضح کیا ہے کہ انہیں ایسے ہلکے پھلکے لیکن مضبوط مادّوں کی تلاش ہے جو خلاء کے بے وزن اور خطرناک شعاعوں سے بھرپور ماحول کا سامنا برسوں تک کرسکیں۔

دوسری جانب چین کے خلائی تحقیقی ادارے بھی ایسے راکٹوں پر کام کررہے ہیں جو موجودہ طاقتور ترین خلائی راکٹوں سے بھی کئی گنا طاقتور ہوں گے اور ایک پرواز میں سیکڑوں ٹن وزنی سامان خلاء میں پہنچا سکیں گے۔

یہ اور ان جیسے دوسرے پہلوؤں کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ غالباً چین میں ایسے بڑے منصوبوں کی تیاریاں بہت پہلے شروع کرلی گئی تھیں جنہیں عملی جامہ پہنانے کا آغاز کردیا گیا ہے۔

You might also like

Comments are closed.