بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

پانچ نوبیل انعام یافتہ سائنسدانوں نے بچوں کےلیے مضامین پیش کردیئے

شکاگو: افریقہ سے امریکہ تک ہر بچے کے اندر کچھ جاننے کا تجسس موجود ہوتا ہے جس میں سائنسی معلومات بھی شامل ہیں۔ اب پانچ نوبیل انعام یافتہ سائنسدانوں نےبچوں کےلیے اپنی خاص تحریریں پیش کی ہیں جو فرنٹیئر نامی ویب سائٹ پر ’مجموعہ نوبیل‘ کے نام سے پیش کی گئی ہیں۔

اس مجموعے میں نوبیل انعام یافتہ ماہرین نے گزشتہ 20 برس میں ہونے والی سائنس کی بہترین دریافتوں کا احوال پیش کیا ہے۔ ذخیرہ الفاظ کے لحاظ سے 8 تا 15 سال تک کے بچوں کے لیے یہ تحریریں قلمبند کی گئی ہیں۔ ویب سائٹ پر شائع ہونے کے بعد بچوں کو دعوت دی گئی کہ وہ اسے پڑھیں اور اپنےخیالات سے آگاہ کریں۔

بچوں کی بڑی تعداد اسے قابلِ فہم، پرمزاح اور گرفت میں لینے والے مضامین کہا ہے۔ سوئزرلینڈ سے ایک 13 سالہ بچے نے کہا کہ میں سائنس میں بہت دلچسپی رکھتا ہوں ۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ ماہرین نے اپنے شعبوں پر تحریریں لکھی ہیں۔ یہ معلومات بہت ضرری ہیں۔

2014 میں طب و فعلیات کے شعبے میں نوبیل انعام حاصل کرنے والے پروفیسر مے برٹ موزر نے کہا کہ وہ بچوں کے لیے لکھتے ہوئے خوشی محسوس کررہے ہیں۔ بچے مجھ سے سوال کرتے ہیں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ اس طرح ان کے دماغوں کی پرورش ہوتی ہے اور سائنس سے لگاؤ پروان چڑھتا ہے۔

ویب سائٹ پر شائع مضامین کے نام یہ ہیں: دماغ میں گرڈ خلیات کی موجودگی جسے پروفیسر مے برٹ موزر نے لکھا ہے جنہیں 2014 میں طب کا نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ دوسری تحریر حیاتیات میں کمپیوٹرنقول پر ہے جسے پروفیسر مائیکل لیوٹ نے لکھاہے۔ انہیں 2013 میں کیمیا کا نوبیل انعام دیا گیا تھا۔

تیسری اہم تحریر 2011 میں کیمیا کا نوبیل حاصل کرنے والے پروفیسر ڈین شیسٹماں نے لکھی ہے جو کوازی کرسٹل پر ہے۔ ٹرانسکرپشن آف لائف فرایم ڈی این اے ٹو آر این اے پروفیسر روجرڈ ڈی کورنبرگ کی تحریر ہے جنہیں 2006 میں کیمیا کا نوبیل انعام عطا کیا گیا تھا۔ آخری مضمون 2004 میں کیمیا کے نوبیل انعام یافتہ ماہر آرون سیکانوور نے تحریر کیا ہے جو پروٹین کے بارے میں ہے۔

واضح رہے کہ فرنٹیرز فار ینگ مائنڈ جرنل اور ویب سائٹ دونوں ہی غیرمنافع بخش اقدامات ہیں جن کی بدولت دنیا بھر کے بچوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی پر اعلیٰ اور درست ترین معلومات فراہم کی جاتی ہے۔ اب تک ایک کروڑ سے زائد بچے اس ویب سائٹ کو دیکھ چکے ہیں۔

You might also like

Comments are closed.