بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

جاپانی ماہرین نے پورے کمرے کو وائرلیس چارجر بنادیا

 ٹوکیو: آپ مانیں یا نہ مانیں، اسمارٹ فون کا جارچ ختم ہونا ہمارے عہد کا سب سے بڑا دردِ سر بلکہ خوف بن چکا ہے۔ اس کا حل اب جاپانی ماہرین نے ایک انقلابی کمرے کی صورت میں پیش کیا ہے جو حدود میں موجود ہر برقی آلے کو کسی تار کے بغیر(وائرلیس)چارج کرسکتا ہے۔

اگرچہ وائرلیس چارجنگ والے فون، اسمارٹ واچ اور ایئرفون عام ہوچکے ہیں لیکن ٹوکیویونیورسٹی کے پروفیسر ٹاکویا ساساتانی نے ایک نئی طرح کی ٹیکنالوجی وضع کی ہے جسے ’ملٹی موڈ کواسی اسٹیٹک کیویٹی ریزوننس‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں انہوں نے تین میٹر چوڑے، دو میٹر لمبے اور تین میٹر اونچے کمرے میں جگہ جگہ کیپیسٹر کوائلیں لگائی ہیں۔ اس طرح پورے کمرے میں ان دیکھا مقناطیسی میدان قائم ہوجاتا ہے۔ تاہم برقی میدان کیپیسٹر میں ہی پھنسا رہتا ہے۔ پھر کمرے کے عین درمیان بچھی ہوئی تانبے کے گول چھلے (دائرے) کو بچھایا جس سے نکلنے والا مقناطیسی میدان گھڑی وار اور مخالف گھڑی وار گھومتا ہے۔ یوں کمرے میں کوئی جگہ خالی نہیں رہتی اور ہرجگہ چارج پہنچتا ہے۔ اب وہاں فون سے لے کر ٹیبلٹ تک جو بھی شے رکھی جائے وہ بجلی پاتی رہتی ہے اور چارج ہوتی رہتی ہے۔

لیکن کمرے کے دو فیصد علاقے یا کونوں میں وائرلیس سگنل پہنچتے رہتے ہیں اور لگ بھگ 50 واٹ بجلی ملتی رہتی ہے۔ دوسری جانب کمرے میں موجود مقناطیسی میدان اتنا طاقتور نہیں کہ وہ انسان پر اثرڈال سکے اور یوں پورا بجلی بھرا کمرہ ہی انسانوں کے لیے بالکل بے ضرر ہے۔ اگرچہ چارج ہونے والے آلے کو درست زاویے پر رکھا جائے تو یہ بھرپور انداز میں چارج ہوتا ہے لیکن رخ سے ہٹنے پر بھی کچھ نہ کچھ چارجنگ جاری رہتی ہے۔

واضح رہے کہ 2017 میں ڈزنی کے شعبہ تحقیق نے بھی چارجنگ کمرہ بنایا تھا جس میں بعد ازاں تانبے کی مرکزی کوائل بھی ہٹادی گئی تھی۔ تاہم اس اہم کامیابی کے بعد بھی ڈزنی سے اب تک کوئی پیشرفت کی خبر نہیں مل سکتی ہے۔

تجزیہ کاروں نے ٹوکیو یونیورسٹی کے چارجنگ روم کو مزید عملی اور بہتر قرار دیا ہے۔ جاپانی ماہرین کا اصرار ہے کہ اگر آپ کمرہ نہ بنانا چاہیں تو وائرلیس چارجنگ الماری اور ڈبے سے بھی عین یہی کام لیا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں شیاؤمی نے ایئرچارج بکس بنایا ہے جس کے اندر رکھا ہر آلہ بے تار چارج ہوجاتا ہے۔ شیاؤمی نے بھی اب تک اسے مارکیٹ میں لانے کا کوئی اعلان نہیں کیا ہے۔

You might also like

Comments are closed.