چین اور تائیوان کی تقسیم کا اصل معاملہ کیا ہے؟
آیا یہ ایک خالی دھمکی ہے یا مداخلت کا حقیقی خطرہ، تاہم گذشتہ چند ماہ سے تائیوان کے ارد گرد چین کی بڑھتی ہوئی فوجی سرگرمیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔
ان دونوں کے درمیان تقسیم کے اس قضیے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ چین تائیوان کو اپنے ملک کا ایک علحیدہ ہوجانے والا صوبہ کہتا ہے جو بالآخر دوبارہ ملک کا حصہ بن جائے گا۔
لیکن تائیوان کے بہت سارے لوگ اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ آزادی کے کسی سرکاری اعلان نہ کرنے کے باوجود، وہ ایک علحیدہ قوم ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
کشیدگی کی تاریخ
دونوں ممالک کے درمیان تنازعے کی تاریخ کو دیکھا جائے تو تائیوان کے جزیرے میں سب سے پہلے آباد ہونے والے آسٹرونیژین قبائل کے لوگ تھے، جو جدید زمانے کے چین سے آئے تھے۔
چین کے سرکاری ریکارڈ میں اس جزیرے کا ذکر سنہ 239 میں آتا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب چین نے خطے کے مطالعے کے لیے ایک تحقیقی ٹیم سمندر میں روانہ کی تھی۔ یہ وہ تاریخی ریکارڈ ہے جس کی بنیاد پر چین تائیوان پر اپنی حاکمیت کا دعویٰ کرتا ہے۔
بعد میں ولندیزیوں کی نوآبادیاتی زمانے کے کچھ عرصے کے بعد، یعنی 1624 سے 1661 تک، تائیوان جزیرہ سنہ 1683 سے لے کر 1895 تک چین کے چِنگ خاندان کے زیرِ انتظام رہا۔
سترہویں صدی سے تائیوان کے جزیرے میں نقل مکانی کر کے آباد ہونے والوں کی بڑی تعداد چین سے آنا شروع ہو گئی تھی جو اکثر اپنے ملک کی دشوار زندگی یا مشکلات سے فرار ہونا چاہتے تھے۔
ان میں زیادہ تر ہوکلو نسل کے چینی تھے جو فوکین صوبے سے تعلق رکھتے تھے یا کچھ کا گوانگ ڈونگ سے تعلق تھا۔ ان دونوں زمانوں میں تائیوان آ کر آباد ہونے والے لوگ اب جزیرے کے سب سے بڑے نسلی گروہ ہیں۔
سنہ 1895 میں جاپان نے پہلی چین-جاپان جنگ میں فتح حاصل کی تھی اور تائیوان کا کنٹرول چِنگ خاندان کی حکومت کے ہاتھ سے نکل کر جاپان کے قبضے میں چلا گیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان نے ہتھیار ڈالے اور اس نے چین کے مقبوضہ علاقوں کو خالی کر دیا۔
جمہوریہ چین جو کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران اتحادی افواج کا ایک حصہ تھا — نے اپنے اتحادیوں، یعنی امریکہ اور برطانیہ کی رضامندی سے تائیوان پر اپنی حکومت قائم کر لی۔
لیکن اگلے چند برسوں میں چین میں خانہ جنگی شروع ہو گئی اور اس وقت کے رہنما چیانگ کِائی شیک کی فوجوں کو ماؤ زیڈونگ کی کمیونسٹ فوجوں کے ہاتھوں شکست ہوئی۔
جنرل چیانک کائی شیک، جو کبھی چین کے رنما تھے، اپنے حامیوں سمیت تائیوان فرار ہو گئے
سنہ 1949 میں جنرل چیانگ اور اس کی کوومنتانگ (KMT) حکومت کی باقیات چین کی سرزمین پر شکست کھانے کے بعد جزیرہِ تائیوان فرار ہو گئیں۔
اس گروپ کو، جسے ‘مینلینڈ چینی’ (چین کی اصل سرزمین سے تعلق رکھنے والے) کہا جاتا ہے اور جن کی تعداد 15 لاکھ افراد بنتی ہے، یہ تائیوان کی سیاست پر کئی سالوں تک غالب رہے — حالانکہ یہ تائیوان کی آبادی کا صرف 14 فیصد حصہ بنتے ہیں۔
آمرانہ حکمرانی ورثے میں ملنے کے بعد، مقامی لوگوں کی طرف سے آمرانہ حکمرانی سے ناراضگی اور بڑھتی ہوئی جمہوری تحریک کے دباؤ کا سامنا کرنے کے بعد، چیانگ کائی سیک کے بیٹے، چیانگ چنگ کو نے تائیوان کو ایک جمہوری ملک بنانے کے عمل کی اجازت دینا شروع کر دی۔
اس کے نتیجے میں اس جزیرے کا پہلا نان کے ایم ٹی صدر (یعنی غیر کوومنتانگ)، چن شوئی بیان کا انتخاب سنہ 2000 میں ہوا۔
حالیہ کشیدگی کی حالیہ صورت حال کیا ہے
سن 1980 کی دہائی میں چین اور تائیوان کے درمیان تعلقات میں بہتری آنے لگی تھی۔ چین نے ایک فارمولا پیش کیا تھا جو ‘ایک ملک، دو نظام’ کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کے تحت اگر تائیوان نے چینی اتحاد کو قبول کر لیا تو اسے اہم خود مختاری دے دی جائے گی۔
یہ نظام ہانگ کانگ میں قائم کیا گیا تھا اور مقصد یہ تھا کہ تائیوان کے لوگوں کو چین کی اصل سرزمین کے ساتھ الحاق کرنے کی طرف راغب کرنے کے لیے اسے (یعنی ہانگ کانگ کو) ایک اچھی مثال کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔
تائیوان نے اس پیش کش کو مسترد کر دیا تھا، لیکن اس نے چین میں آنے اور سرمایہ کاری سے متعلق قوانین میں نرمی کی۔ سنہ 1991 میں اس نے اصل سرزمین پر عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ جنگ ختم کرنے کا بھی اعلان کیا۔
فریقین کے غیر سرکاری نمائندوں کے درمیان بھی محدود بات چیت ہوئی تھی، حالانکہ بیجنگ کا اصرار تھا کہ تائیوان کی جمہوریہ چین (آر او سی) کہلانے والی حکومت غیر قانونی ہے، اس کا مطلب ہے کہ حکومت سے بات چیت نہیں ہو سکتی ہیں۔
چن شوئی-بیان ایک آزاد تائیون کے مطالبے کے حامی ہیں۔
اور سنہ 2000 میں، جب تائیوان نے چن شوئی-بیان کو صدر منتخب کیا تھا تو بیجنگ کی حکومت پریشان ہو گئی تھی۔ مسٹر چن نے کھل کر ‘آزادی’ کی بات کی تھی۔
مسٹر چن کے سنہ 2004 میں دوبارہ منتخب ہونے کے ایک سال بعد چین نے ’علیحدگی پسندی‘ کے نام سے ایک قانون پاس کیا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر چین سے ‘علیحدگی’ کی کوشش کی جائے گی تو چین اس صورت میں تائیوان کے خلاف ’غیر پر امن‘ ذرائع استعمال کرنے کا حق محفوظ رکھے گا۔
مسٹر چن کے بعد ما ینگ جیؤ نے کامیابی حاصل کی جنھوں نے سنہ 2008 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد معاشی معاہدوں کے ذریعے چین کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی تھی۔
آٹھ سال بعد، سنہ 2016 میں تائیوان کی موجودہ صدر سوئی اینگ وین منتخب ہوئی تھیں۔ وہ ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی (ڈی پی پی) کی سربراہ ہیں، جو چین سے باضابطہ آزادی حاصل کرنے کے خیال کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے۔
محترمہ سوئی کے زمانے میں دونوں مماللک کے درمیان پھر سے کشیدہ ہوئے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے سنہ 2016 کے امریکی انتخابات میں کامیابی کے بعد محترمہ سوئی نے ان سے فون پر بات کی تھی — جو کہ سنہ 1979 کے بعد امریکی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی تھی، جب تائیوان کے ساتھ امریکہ کے باضابطہ تعلقات منقطع ہو گئے تھے۔
باضابطہ تعلقات کی غیر موجودگی کے باوجود امریکہ اور تائیوان کے درمیان دفاعی ہتھیاروں کی فراہمی کا معاہدہ ہے اور صدر بائیڈن نے اس بات پر زور دیا ہے کہ چین کے کسی بھی حملے سے ‘شدید تشویش’ پیدا ہو گی۔
سنہ 2018 کے پورے سال کے دوران چین نے بین الاقوامی کمپنیوں پر دباؤ بڑھایا اور انھیں مجبور کیا کہ وہ اپنی ویب سائٹ پر تائیوان کو چین کا حصہ بنائیں اور دھمکی دیتے تھے ہیں کہ اگر وہ بات نہیں مانیں گے تو انھیں چین میں کاروبار کرنے سے بلاک کر دیا جائے گا۔
محترمہ سوئی نے سنہ 2020 میں دوسری مرتبہ کامیابی حاصل کی۔ اس وقت تک ہانگ کانگ کئی مہینوں سے بدامنی دیکھتا آرہا تھا، مظاہرین چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے۔
اس سال کے آخر میں چین نے ہانگ کانگ میں قومی سلامتی کے قانون کے نفاذ کا آغاز کیا، جسے خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے طور پر دیکھا گیا۔
اسی کے ساتھ ہی امریکہ نے تائیوان سے رابطے بڑھانے کی پالیسی پر زور دینا شروع کر دیا اور تائپی (تائیوان کا دارالحکومت) کو اپنی حمایت کا مسلسل یقین دلانا شروع کر دیا۔ گذشتہ ستمبر میں واشنگٹن نے دہائیوں بعد محکمہ خارجہ کے اعلی سطح کے اہلکار کو تائیوان کا دورہ کرنے کے لیے بھیجا تھا۔
بیجنگ نے اس دورے پر شدید تنقید کرتے ہوئے امریکہ کو خبرادر کیا تھا کہ ‘چین اور امریکہ تعلقات کو شدید نقصان پہنچنے سے بچانے کے لیے ‘تائیوان کی آزادی کا مطالبہ کرنے والے عناصر کو کوئی غلط اشارہ نہ بھیجیں۔‘
متنازع دورے کے دوران چین نے اپنے اور جزیرہِ تائیوان کے درمیان آبی گزرگاہ میں فوجی مشقیں کیں۔
اس سال صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ تائیوان کے ساتھ اس کی دوستی کی ’ٹھوس پالیسی‘ ہے۔
مسٹر بائیڈن کی صدارت کے پہلے چند دنوں میں تائیوان سے چینی جنگی طیاروں کی ‘بڑی مداخلت’ کی اطلاعات آئی تھیں۔ اس کے بعد 12 اپریل کو تائیوان کی حکومت نے دعویٰ کیا کہ ایک سال کے دوران اس کے فضائی دفاعی زون میں چین کے لڑاکا طیاروں نے سب سے زیادہ مرتبہ پروازیں کیں۔
اس کے جواب میں پینٹاگون کے بحرِ ہند اور بحر الکاہل کی کمان کے سربراہ، امریکی ایڈمرل جان ایکولینو نے خبردار کیا کہ تائیوان پر چین کا حملہ ‘ہمارے خیال سے کہیں زیادہ ممکن ہے’
تائیوان کو کتنے ممالک آزاد ملک تسلیم کرتے ہیں؟
اس بارے میں اختلاف اور ابہام ہے کہ تائیوان کی قانونی حیثیت کیا ہے۔
چین نے تائیوان کو اپنا ایک منقطع ہو جانے والا صوبہ قرار دیا ہے اور اگر ضرورت ہوئی تو طاقت کے ذریعہ اس پر دوبارہ قبضہ کرنے کا عہد کیا ہے۔ لیکن تائیوان کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس کی حیثیت ایک صوبے سے کہیں زیادہ ہے، اُن کی اس دلیل کے مطابق کہ یہ ایک خود مختار ریاست ہے۔
تائیوان کا اپنا آئین ہے، جمہوری طور پر منتخب رہنما اور اس کی اپنی مسلح افواج کی تعداد تین لاکھ ہے۔
سنہ 1949 میں چین کے جرنل کائی شیک کی جمہوریہ چین (آر او سی) کی حکومت، جو اصل چینی سرزمین سے تائیوان منتقل ہو گئی تھی، نے پہلے تو پورے چین کی نمائندگی کرنے کا دعوی کیا، جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اس وقت چین کی اصل سرزمین پر دوبارہ قبضہ کرنا چاہتے تھے۔
تائیوان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں چین کی نشست پر قابض رہا تھا اور متعدد مغربی ممالک تائیوان کی حکومت کو ہی پورے چین کی اصل حکومت کے طور پر تسلیم کرتے تھے۔
لیکن سنہ 1971 میں چین اور امریکہ کے براہ راست تعلقات کی بحالی کے بعد اقوام متحدہ نے بیجنگ کی انتظامیہ کو چین کی اصل نمائندہ حکومت کے طور پر تسلیم کیا۔
اس سے خطے کی سفارتی شناخت تبدیل ہو گئی، اور جمہوریہ چین یعنی آر او سی کی حکومت کی اپنی شناخت وہ نہ رہی جو اس سے پہلے تھی۔ اس کے بعد سے، جمہوریہ چین (ROC) یعنی تائیوان کی حکومت کو سفارتی طور پر تسلیم کرنے والے ممالک کی تعداد صرف 15 رہ گئی۔
ان دو حالات کے درمیان جو بھی سفارتی تبدیلی آئیں اس کی وجہ سے کئی ممالک کو تائیوان کی غیر واضح سفارتی حیثیت زیادہ مناسب دکھائی دیتی ہے۔ اور وہ اسے خوشی سے قبول کرتے ہیں۔ یعنی یہ کہ تائیوان ایک آزاد ریاست کی عملی طور پر ساری خصوصیات رکھتا ہے، باوجود اس کے کہ اس کی قانونی حیثیت غیر واضح ہے۔
تائیوان کے اندر آزادی کتنا بڑا سیاسی مسئلہ ہے؟
اگرچہ اس دوران سیاسی پیشرفت سست رہی ہے، لیکن دونوں خطوں کے درمیان لوگوں اور معیشتوں کے درمیان رابطوں میں اضافہ بہت بہت تیزی سے ہوا ہے۔
تائیوان کی کمپنیوں نے چین میں لگ بھگ 60 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور اب دس لاکھ کے قریب تائیوانی باشندے چین کی اصل سرزمین پر سکونت اختیار کر چکے ہیں، بہت ساری تائیوانی فیکٹریاں بھی چین میں کام رہی ہیں۔
تائیوان کے کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ اب ان کی معیشت کا دارومدار چین پر بڑھ چکا ہے۔ دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ زیادہ کاروباری تعلقات چین کی کسی فوجی کارروائی کے امکانات کو کم کرتا ہے، کیونکہ اس جنگ سے چین کی معیشت کو نقصان پہنچے گا۔
سنہ 2014 میں ایک متنازع تجارتی معاہدے نے ‘سن فلاور موومنٹ’ کو جنم دیا تھا جس کے دوران طلبا اور انسانی حقوق کے کارکنان نے تائیوان کی پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج کیا جس میں انھوں نے تائیوان پر چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف نعرے لگائے تھے۔
تائیوان کے کچھ باشندے تو کھل کر مکمل آزادی کی بات کرتے ہیں جبکہ زیادہ تر لوگ ایک درمیانی رستے کی بات کرتے ہیں۔
سرکاری طور پر حکمران ‘ڈی پی پی’ اب بھی تائیوان کے لیے حتمی طور پر باضابطہ آزادی کی حامی ہے، جبکہ ‘کے ایم ٹی’ حتمی طور پر دوبارہ اتحاد و الحاق کی حامی ہے۔
رائے عامہ کے ایک جائزے سے ظاہر ہوا ہے کہ تائیوان میں عوام کی اس وقت ایک چھوٹی سے اقلیت کسی ایک رستے کے انتخاب کی حمایت کرتی ہے جبکہ زیادہ تر موجودہ، درمیانی صورت حال میں رہنا پسند کرتے ہیں۔
پھر بھی بیشتر آبادی کا ماننا ہے کہ وہ چینی کے بجائے خود کو تائیوانی سمجھتے ہیں۔ جنوری سنہ 2016 کے انتخابات میں ڈی پی پی کے لیے حمایت میں اضافہ ہوا، جس کی وجہ شاید کے ایم ٹی کا معاشی امور سے نمٹنے پر اس کی صلاحیت پر عوام کا عمومی عدم اطمینان تھا۔
اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ صدر ما کی انتظامیہ بھی تائیوان کا بیجنگ پر انحصار بڑھا رہی تھی۔
Comments are closed.