پیدائش کے فوراً بعد سمگل کیے جانے والے بچے نے 40 برس بعد اپنی ماں کو کیسے ڈھونڈ نکالا؟

 ایڈلینا اور لیور

اس سنیچر کی دوپہر کو آسمان پر بادل تھے۔ ایڈلینا ایک بینچ پر بیٹھی ہوئی تھیں اور اپنے ہاتھ بھینچ رہی تھیں۔ وہ بظاہر گھبرائی ہوئی لگ رہی تھیں۔

62 سال کی ایڈلینا کوریا لوپس یہاں اپنے بیٹے سے ملنے والی تھیں۔

لیور ولک کو جب یہ پتا چلا کہ وہ 1980 کی دہائی میں بیرون ملک سمگل کیے جانے والے ہزاروں برازیلی بچوں میں سے ایک تھے تو انھوں نے ایڈلینا سے ملنے کے لیے اسرائیل سے برازیل کا سفر کیا۔

16 سال کی تلاش کے بعد بالآخر وہ اپنی ماں کے ساتھ جنوبی برازیل کی ریاست سانتا کاتارینا میں ملنے والے تھے۔ یہ ملاقات بہت کوششوں اور ایک ڈی این اے بینک کی محنت کا نتیجہ تھی۔

جولائی میں ہونے والی اس ملاقات کے لیے ماں اور بیٹے نے تقریباً چار دہائیوں تک انتظار کیا۔

’مجھے معاف کر دو میں تمہاری پرورش نہ کر سکی‘

کچھ بچے اس نرسنگ ہوم کے قریب میدان میں کھیل رہے تھے، جہاں ایڈلینا کی دیکھ بھال کی جاتی ہے کیونکہ انھیں مرگی کا مرض لاحق ہے۔

لیور بتاتے ہیں کہ ’جب میں اس جگہ جا رہا تھا تو مجھے ارد گرد لوگوں کی آوازیں سنائی نہیں دے رہی تھیں۔ میں نے بس خود کو درختوں کے نیچے چلتے ہوئے دیکھا۔‘

لیور نے اس خاموشی کو ’ہیلو‘ کہہ کر توڑا تو ایڈلینا نے حیرت سے پیچھے مڑ کر دیکھا۔

ایڈیلینا کہتی ہیں کہ ’جب وہ میرے پاس بیٹھا تو میں حیران مگر بہت خوش تھی۔‘

ماں بیٹے نے اس سے کچھ دن پہلے ایک دوسرے کو ویڈیو کال کے ذریعے دیکھا تھا۔ ان دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔

لیور بتاتے ہیں کہ ’ایک دم تمام پریشانی دور ہو گئی۔ اچانک صرف میں اور وہ تھیں۔‘

ایڈلینا بتاتی ہیں کہ ’میں نے اسے بتایا کہ میں تمہاری ماں ہوں۔ مجھے معاف کر دو میں تمہیں پرورش نہیں کر سکی۔‘

لیور
،تصویر کا کیپشن

لیور کو چھ برس کی عمر میں پتا چلا کہ انھیں گود لیا گیا تھا

پانچ ہزار امریکی ڈالر میں فروخت

سنہ 1985 میں جب لیور کی پیدائش ہوئی تو ایڈیلینا اپنے پارٹنر سے علحیدہ ہو گئیں۔ ان کی عمر 24 سال تھی اور انھوں نے لیور کے باپ کے بارے میں بات نہ کرنے کو ترجیح دی۔ ایڈلینا نے اپنے بیٹے کا نام لیانڈرو رکھا۔

ایڈیلینا کی چھوٹی بہن ایڈینر جو اس وقت 14 برس کی تھیں، نے بتایا کہ ’جب ایڈلینا گھر آئیں تو وہ حاملہ تھیں۔ ہم ایک مشکل وقت سے گزر رہے تھے۔‘

ایڈلینا کے والد نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ اپنے بیٹے کو ایک ایسے خاندان کو دے دیں، جو اسے تعلیم اور اچھی زندگی دے سکے۔

ایڈلینا کے اس سے پہلے بھی دو بچے، ایک لڑکی اور ایک لڑکا تھے، جن کو گود دے دیا گیا تھا تاہم وہ دوبارہ ایسا نہیں کرنا چاہتی تھیں لیکن پھر وہ راضی ہو گئیں۔

ایڈلینا کو یاد ہے کہ انھوں نے لیور کو صرف ڈیلیوری کے وقت دیکھا تھا اور اس کے بعد انھوں نے کبھی اپنے بیٹے کو نہیں دیکھا۔

وہ کہتی ہیں کہ میں نے اسے اپنا دودھ بھی نہیں پلایا۔ بچے کو ایک نرس کے حوالے کر دیا گیا جو اسے ایک نئے خاندان کے پاس لے گئی۔

ایڈلینا اور ان کے اہلخانہ کو معلوم نہیں تھا کہ سانتا کاتارینا میں مافیاز کام کرتے تھے، جو نوجوان اور کمزور ماؤں کو ورغلاتے تھے تاکہ وہ اپنے بچوں کو چھوڑنے پر آمادہ ہو جائیں۔

اس زمانے کے اعداد و شمار کے مطابق ان گروہوں نے بچوں کو بیرون ملک گود دینے کے لیے 40 ہزار امریکی ڈالر تک میں فروخت کیا۔

اس منافع بخش پلان میں ججوں، وکلا، ڈاکٹرز اور نرسوں تک نے حصہ لیا۔ اس پلان کا ہدف بنیادی طور پر جنوبی برازیل کی خواتین تھیں کیونکہ اس وقت نیلی آنکھوں والے بچوں کی مانگ زیادہ تھی۔

پولیس اندازوں کے مطابق 1980 کی دہائی میں گود لینے کے قوانین میں خامیوں کی وجہ سے اسرائیل تین ہزار سے زائد بچوں کی منزل بنا، جنھیں برازیل سے سمگل کیا گیا تھا۔

لیانڈرو کی عمر صرف 20 دن تھی جب وہ تل ابیب کے ہوائی اڈے پر پہنچے۔ انھیں ابراہیم اور تووا ولک کو گود دیا گیا، جنھوں نے ان کا نام لیور رکھا۔

لیانڈرو کو اسرائیل پہنچانے والی خاتون نے اس جوڑے سے پانچ ہزار امریکی ڈالر لیے۔

لیانڈرو کو گود لینے والے خاندان کا دعویٰ ہے کہ ایک ایسی خاتون نے لیور کو انھیں گود دیا تھا جسے کئی سال بعد گود لینے کی غیر قانونی سکیم میں حصہ لینے کا مجرم قرار دیا گیا۔

 ایڈلینا اور لیور
،تصویر کا کیپشن

جولائی میں ہونے والی اس ملاقات کے لیے ماں اور بیٹے نے تقریباً چار دہائیوں تک انتظار کیا

’آپ میری ماں نہیں۔۔۔‘

لیور کو چھ برس کی عمر میں پتا چلا کہ انھیں گود لیا گیا تھا۔ انھوں نے اپنے دوست کی ماں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ وہ تووا کے بیٹے نہیں۔

لیور نے کئی دن بعد اپنی ماں سے کہا کہ ’آپ میری ماں نہیں۔۔۔‘

لیور کو یاد ہے کہ تووا نے ان کے بالوں پر ہاتھ پھیر کر تسلی دی اور کہا کہ تمہاری دو مائیں ہیں: ایک جس نے تمہیں جنم دیا اور دوسری میں، جس نے تمہاری پرورش کی۔‘

14 برس کی عمر میں لیور اپنے خاندان کے بارے میں جاننا چاہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں گود لینے والے والدین نے اس تلاش میں ہمیشہ ان کا ساتھ دیا۔

انھوں نے لیور کو وہ سب کچھ بتایا جو وہ گود لینے کے بارے میں جانتے تھے اور انھیں برازیل سے آنے والے دستاویزات بھی دیں۔

لیور اپنی پیدائش اور برازیل کے بارے میں مزید جاننا چاہتے تھے۔ جس کافی شاپ میں وہ کام کرتے تھے، وہاں ایک دوست سے انھوں نے پہلی بار برازیل کے بچوں کو اسرائیل سمگل کیے جانے کے بارے میں سنا۔

1984 اور 1988 کے درمیان، برازیلی بچوں کی سمگلنگ کے الزامات نے برازیل اور بیرون ملک اخبارات میں شہ سرخیاں بنائی تھیں۔ لیور کے دوست کو اندازہ تھا کہ انھیں غیر قانونی طریقے سے گود دیا گیا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’جب میرے دوست نے میرے کاغذات دیکھے تو اس نے کہا کہ مجھے لگتا ہے یہ سب جعلی ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

لیور
،تصویر کا کیپشن

لیور نے فیصلہ کیا کہ وہ باقی زندگی برازیل میں گزارنا چاہتے ہیں

تلاش کا آغاز

لیور کی تلاش 2007 میں شروع ہوئی۔ انھوں نے آن لائن كوريتيبا کے گروپوں سے رابطہ کیا کیونکہ ان کے دستاویزات میں لکھا تھا کہ ان کی پیدائش وہاں ہوئی۔

اس زمانے میں برازیل میں مشہور سوشل نیٹ ورک آرکٹ (Orkut) کے ذریعے انھوں نے ان لوگوں سے ملاقات کی جو ان کی کہانی سے متاثر ہوئے۔

پھر انھیں برازیل کی لاپتہ افراد کی تنظیم کے بارے میں پتا چلا، جو امانڈا بولدیکے نے اپنے بھائی کو تلاش کرنے کے لیے ایک ویب سائٹ کی صورت میں بنائی تھی۔

اس ویب سائٹ پر غیر قانونی طور پر گود لیے گئے نوجوانوں کی کہانیاں شیئر کی جاتی تھیں جبکہ امانڈا بولدیکے نے برازیل میں بچوں کی سمگلنگ اور غیر قانونی گود طور پر گود دینے کی تاریخ پر تحقیق بھی کی۔

لیور سے ان کا پہلا رابطہ سنہ 2009 میں ہوا تھا۔

امانڈا بتاتی ہیں کہ ’وہ ایک نوجوان تھا جو برازیل کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا، وہ ابھی تک پرتگالی نہیں بولتا تھا اور اسے ہر چیز کا ترجمہ کرنا پڑتا تھا۔‘

’اس کے ماضی کو سمجھنے کے لیے مجھے 30 سال پہلے کے اخبارات کو لائبریریوں میں تلاش کرنا پڑا کیونکہ انٹرنیٹ پر کچھ نہیں تھا۔‘

پرانے، پیلے رنگ کے صفحات پر برازیل میں بچوں کی غیر قانونی سمگلنگ کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک امانڈا کی آنکھوں کے سامنے تھا۔

1980 کی دہائی میں سانتا کاتارینا میں بچوں کی سمگلنگ کرنے والے کم از کم چار گروہوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔

 ایڈلینا اور لیور

ڈی این اے بینک

اسرائیل میں رہنے والی مختلف قومیتوں کے گود لیے بچوں کے بارے میں ایک رپورٹ نے ڈی این اے بینک ’مائی ہیریٹیج‘ کے ذمہ داروں کی توجہ حاصل کی۔

’مائی ہیریٹیج‘ کے پاس ایک ایسا پروجیکٹ ہے جو گود لیے ہوئے لوگوں یا گود دینے والے رشتہ داروں کو تلاش کرنے والوں کو مفت جینیاتی ٹیسٹنگ کٹس پیش کرتا ہے۔

لیور نے یہ ٹیسٹ کرانے کے لیے کافی وقت لیا کیونکہ اس سے پہلے بھی وہ اس قسم کے دوسرے کام کر چکے تھے لیکن انھیں اپنے خاندان کو تلاش کرنے میں کامیابی نہیں ملی تھی۔

سنہ 2018 میں لیور کو ’مائی ہیریٹیج‘ کی طرف سے ایک ای میل موصول ہوئی، جس میں انھیں اپنی کزن مارسیا کی تلاش پر مبارکباد دی گئی۔

ایک اور ڈی این اے ٹیسٹ سے یہ بات سامنے آئی کہ مارسیا کے والد لیور کے انکل ہو سکتے ہیں۔ مزید ٹیسٹوں اور رابطوں کے بعد لیور ایک اور کزن روزا تک پہنچ گئے، جو سانتا کاتارینا میں رہتی تھیں۔

اس کے بعد یہ مفروضہ پیدا ہوا کہ لیور کے والد روزا کے 13 بہن بھائیوں میں سے ایک تھے۔

لیور یاد کرتے ہیں کہ ’سوائے ایک کے وہ سب مر چکے تھے۔ آخری بچ جانے والا شخص ٹیسٹ دینے پر راضی ہوا لیکن ٹیسٹ کا نتیجہ منفی آیا۔‘

سنہ 2022 میں لیور کو ’مائی ہیریٹیج‘ کی جانب سے ایک نئی ای میل موصول ہوئی جس میں کہا گیا تھا کہ جولیانا بھی ان کی کزن تھیں۔

جولیانا کے خاندان کے کچھ لوگ اٹلی میں تھے لیکن وہ خود برازیل کے شہر جونویل میں پیدا ہوئی تھیں۔ لیور کے رابطہ کرنے پر جولیانا نے انھیں اپنے رشتہ داروں کے نام اور رابطے کی معلومات فراہم کیں۔

ڈینی
،تصویر کا کیپشن

ڈینی کا کہنا ہے کہ وہ ایڈلینا کو لیور کے بارے میں بتانے کے بارے میں بہت زیادہ محتاط تھیں اور پہلے خود اچھی طرح سے تحقیق کرنا چاہتی تھیں کہ وہ واقعی ان کی بہن کا بیٹا ہے

برازیل میں ایک نئی زندگی

جونویل میں جولیانا کے رشتہ داروں سے ان لوگوں کا رابطہ ہونا شروع ہوا جو لیور کو ان کے خاندان کی تلاش میں مدد کر رہے تھے۔

تب ہی ایڈیلینا کی بہن ڈینی کو اپنی بھابھی کا فون آیا اور انھیں لیور کی کہانی کے بارے میں معلوم ہوا۔

ڈینی کی 13 برس کی بیٹی ایمانویل نے سوشل میڈیا پر لیور کو تلاش کیا اور انھیں ایک پیغام بھیجا۔ تھوڑے ہی وقت میں لیور نے اپنی خالہ سے بات کی۔ یہ ان کا اپنے خاندان سے پہلا رابطہ تھا۔

ڈینی کہتی ہیں کہ جب لیور نے اپنی کہانی شروع کی تو انھیں کوئی شک نہ رہا کہ وہ ان کے بھانجے ہیں۔

اگلے چند ماہ میں لیور برازیل میں موجود اپنے خاندان کے بہت قریب ہو گئے۔ لیور نے اپنی تاریخ پیدائش ڈینی کو بتائی جنھیں یاد تھا کہ ایڈلینا 31 اگست 1985 کو ہسپتال گئی تھیں اور یکم ستمبر 1985 کو انھوں نے بچے کو جنم دیا۔

لیور کہتے ہیں کہ انھیں اس وقت اندازہ ہوا کہ ان کی پیدائش کے دستاویزات میں صرف تاریخ پیدائش ہی درست تھی۔

لیور کو چھوڑنے کے بعد ایڈلینا کچھ عرصہ اپنے والد کے گھر پر رہیں اور پھر انھوں نے شادی کر لی۔ ان کی یہ شادی 32 سال تک رہی۔

شادی کے بعد وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو گئی تھیں اور اپنے شوہر کی موت کے بعد ہی وہ اپنے بہن بھائیوں سے دوبارہ رابطے میں آئیں۔ مرگی کی وجہ سے وہ مزید تنہا نہیں رہ سکتی تھیں۔

ڈینی کا کہنا ہے کہ وہ ایڈلینا کو لیور کے بارے میں بتانے کے بارے میں بہت زیادہ محتاط تھیں کیونکہ وہ پہلے خود اچھی طرح سے تحقیق کرنا چاہتی تھیں کہ وہ واقعی ان کی بہن کا بیٹا ہے۔

’ہم ڈی این اے ٹیسٹ کروانے کے لیے ایڈلینا کو گھر لے آئے۔ ٹیسٹ کا رزلٹ آنے کے بعد پورا خاندان بہت خوش تھا اور لیور سے ملنا چاہتا تھا۔‘

اپنی ماں سے ملنے کے بعد لیور کے لیے ایک نیا سفر شروع ہوا۔ کچھ عرصے بعد انھیں پتا چلا کہ ان کے والد کون تھے لیکن تب تک وہ فوت ہو چکے تھے۔

لیور نے فیصلہ کیا کہ وہ باقی زندگی برازیل میں گزارنا چاہتے ہیں اور اپنا کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے، انھیں ایک آخری رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا یعنی اپنی دستاویزات کو درست کرنا اور اس کے لیے انھوں نے ایک وکیل کی مدد لی۔

*امانڈا بولدیکے اس رپورٹ کی مصنفہ صحافی مونیکا فولٹران کی والدہ ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ