بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

پشمینہ دھاگوں کے دیس کی آدھی بیوائیں

لکڑی کے دروازے کو توڑتے ہوئے اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے گھروں میں گھس کر عورتوں کی بے حرمتی کرنا اور جوانوں کو عقوبت اور زندان خانوں میں محبوس کرنا ہندوستان کی بزدل افواج کا جنگی ہتھیار بن چکا ہے۔ برسہا برس کے ہزاروں لاپتا افراد کی بیویاں ایک نئی اصطلاح کے مطابق ’’Half Widows‘‘ یا ’’آدھی بیوائیں‘‘ بن چکی ہیں۔ ان کو برسوں سے یہ بھی معلوم نہیں ہورہا کہ ان کے شوہر زندہ ہیں یا مرچکے ہیں۔ پوری دنیا میں مقبوضہ کشمیر ایک ایسا خطہ ہے جس میں عورتوں کو اپنے مستقبل کا کچھ اتا پتا نہیں ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کو کشمیر کی آدھی بیوائوں کے حقوق کے لیے ضرور آواز اٹھانی چاہیے۔
ہر سال 5 فروری ہمیں 85ء کے وہ دن یاد دلانے کے لیے آجاتا ہے۔ جب ایک طرف افغانستان میں آگ اور بارود کا میدان گرم تھا اور دوسری طرف کشمیر میں آزادی کی تحریک سرگرم عمل ہورہی تھی۔ مشہور کشمیری رہنما محترم الیف الدین ترابی صاحب سعودی عرب سے اپنی تعلیم مکمل کرکے پاکستان آگئے تھے۔ وہ اکثر ہمارے ڈرائننگ روم میں جماعت اسلامی کی قیادت کو وادی کے اندر سرگرم نوجوانوں کی سرفروشانہ تحریک کے احوال سناتے۔ کبھی ان کی بات سمجھ آتی، گاہے اس کو اتنی اہمیت نہ دی جاتی۔ یہاں تک کہ بڑی تعداد میں نوجوان مقبوضہ کشمیر سے برف زاروں کو روندتے ہوئے آزاد کشمیر پہنچے۔ ان میں سے بہت سے شیر دل نوجوانوں کے اعضاء کو برف نے کھالیا تھا اور ان کی درد ناک حالت کو دیکھ کر ہم مائوں کے دل دہل گئے تھے۔ جماعت اسلامی کے کارکنان نے دامے، درمے، سخنے اپنے جان و دل وار دیے تھے۔ وہ اپنی مخلص اور جی دار قیادت کے زیر سایہ میدان میں دیوانہ وار نکل آئے تھے اور انہی دنوں انہوں نے 5 جنوری 1990ء کو ملتان ایئرپورٹ پر اپنے امیر قاضی حسین احمد کی قیادت میں پریس کانفرنس میں الٹی میٹم دیا کہ حکومت ٹھیک ایک ماہ بعد 5 فروری 1990ء کو یوم کشمیر کا اعلان کردے۔ ہم ایک ماہ تک پوری قوم کو بیدار کریں گے اور 5 فروری کو پورے جوش و ولولہ سے دنیا کو بتادیں گے ’’ہم کشمیری ہیں، کشمیر ہمارا ہے‘‘۔ جس طرح وہ اپنے بوڑھے شیر علی گیلانی بابا کے زیر سایہ بلند آہنگ سے پکارتے ہیں کہ ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے۔
پنجاب میں اس وقت آئی جے آئی کی حکومت تھی۔ محترم میاں نواز شریف صاحب نے قاضی صاحب کی اس اپیل پر لبیک کہا اور پنجاب میں 5 فروری 1990ء کو یوم کشمیر کا اعلان کردیا۔ پنجاب کا رُخ دیکھتے ہی مرکز میں محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے بھی قاضی صاحب کی اس تجویز کا خیر مقدم کیا اور یوں پوری قوم نے متفقہ طور پر یوم کشمیر کا آغاز کردیا۔ اس وقت کا ولولہ اور جذبہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ سلیم ناز بریلوی کے ترانوں نے آزادی کی شمع کو مزید بھڑکا دیا تھا۔ کسی صحافی نے یہ تاثر بالکل درست دیا ہے کہ اس وقت کی جو تصویر بھی نکالیں۔ کشمیر کی ہر بڑی ریلی میں جماعت اسلامی کے جھنڈے نمایاں نظر آتے ہیں۔ آزادی کشمیر کی تحریک کو جماعت اسلامی نے ابتداء سے ہی زندہ رکھا ہے۔ مودی نے کشمیر سے متعلق دو خصوصی آرٹیکلز 35 اے اور 370 کو منسوخ کرکے اپنے آئین کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ اپنی جمہوریت کا چہار عالم میں مذاق بنوادیا اور ہندوستان میں جاری علیحدگی کی تحریکوں میں نئی جان ڈال دی ہے۔ اس ظالمانہ اقدام سے کشمیریوں کی پانچویں نسل میں بغاوت کے بیج بو کر آزادی کے پھریرے بلند کرنے کا عزم بھی مضبوط ہوا ہے۔
آرٹیکلز A-37 اور 370 کے ہٹانے کے اقدامات:
برصغیر کی آزادی کے وقت کشمیر تمام اصولوں کے مطابق پاکستان کا حصہ بننا تھا، جغرافیائی، تہذیبی اور دینی لحاظ سے کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے تھے مگر سکھ راجہ نے اسے آزاد ریاست بنانے کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد ہندوستانی فوج نے کشمیر میں اپنی فوجیں زبردستی داخل کردیں اور نہرو نے طویل مذاکرات کے بعد الحاق کی ایک دستاویز پر راجہ ہری سنگھ سے دستخط کروادیے۔ یہ دستاویز ابھی تک متنازعہ ہیں۔ اس کے مطابق 3 شعبوں، دفاع، امورِ خارجہ اور مواصلات کے شعبے بھارت کو دیے گئے اور باقی تمام شعبے ریاست کی اپنی مرضی سے چلائیں جائیں گے۔ 1952ء میں نہرو نے طویل مذاکرات کے بعد کشمیری قیادت سے یہ طے کرایا کہ آئینی تحفظات کے تحت کشمیریوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا اور 1954ء میں آرٹیکل 35-A کے تحت اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ ’’ریاستی اسمبلی اس بات کا تعین کرے گی کہ مقامی شہری (مستقل رہائشی) کون ہے؟؟
ایسے مستقل شہریوں پر خصوصی توجہ کرنا جس میں سرکاری نوکریوں میں ترجیح دینا، دیگر لوگوں کو مشروط رہائش کی اجازت دینا، مستقل رہائشیوں کو دیگر سرکاری سہولیات کی ترجیحاً فراہمی، جائیداد کا حق مستقل رہائشیوں تک محدود کرنا۔
1949ء میں بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 صرف کشمیر کے بارے میں شامل کیا گیا۔ جو پورے بھارت میں کسی اور ریاست پر یہ لاگو نہیں ہوتا تھا۔
آرٹیکل 370 کے تحت:
٭ جموں و کشمیر کے رہائشیوں کے پاس دوہری شہریت ہوتی ہے۔
٭ جموں و کشمیر کی رہائشی خاتون اگر کسی دوسری ریاست کے آدمی سے شادی کرے تو اس کی کشمیر کی شہریت ختم ہوجاتی ہے۔
٭ جموں و کشمیر میں پنچائیت کے پاس کوئی اختیار نہیں۔
٭ جموں و کشمیر کا جھنڈا الگ ہے۔
٭ اسمبلی کی مدت 6 سال جبکہ ہندوستان کی دوسری ریاستوں کی اسمبلی کی مدت 5 سال ہے۔
٭ ہندوستان کی پارلیمنٹ جموں و کشمیر کے سلسلے میں بہیت محدود دائرے میں قانون بنا سکتی ہے۔
٭ بھارت کا کوئی بھی عام شہری جموں و کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتا۔
٭ یہ امر صرف بھارت کے عام شہریوں تک ہی محدود نہیں بلکہ بھارتی کارپوریشنز اور دیگر نجی سرکاری کمپنیاں بھی ریاست کے اندر بلاقانون جواز جائیداد حاصل نہیں کرسکتیں۔
ان آرٹیکلز کے ہٹا دینے سے کشمیریوں کی خصوصی حیثیت ختم کردی گئی ہے اور اس طرح فلسطین میں اصل باشندوں کو بے دخل کرکے یہودیوں کو لا کر بسایا گیا اور اسرائیل کی بنیاد ڈالی گئی، اسی طرح یہاں بھی آبادی کے تناسب کو بدلنے کی خطرناک سازش کے بیج بوئے گئے ہیں۔ میں اپنے والد سے پوچھا کرتی تھی کہ جب اسرائیل بن رہا تھا تو مسلمان کہاں مر گئے تھے۔ مجھے اب اس کا جواب مل رہا ہے کہ وہ بھی اسی طرح مودی کے گلے میں ہار پہنا رہے ہوں گے۔ اسی لیے ثریا نے آسمان سے زمین پر ہم کو دے مارا۔ اتنے دن ہوگئے ہیں، لاکھوں انسانوں کو زندہ دفن کرنے کی تیاریاں ہیں، نہ کھانے کو کچھ، نہ کسی سے بات کرنے، نہ دوائیوں کا انتظام اور اوپر سے ہندوستانی فوج دنیا کی وہ واحد بے حمیت فوج ہے جس نے عورت کی بے حرمتی کو فوجی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ گھروں سے جوان بچیوں کو اٹھایا جاتا ہے اور والدین کے سامنے بے حرمت کی اجاتا ہے۔ کاش ہندوستان میں کوئی عقل سلیم رکھنے والا غیر مند مرد ہوتا؟
تنازعہ کشمیر کی طرف سے اقوام متحدہ کی فوری توجہ کی ضرورت یہ ہے کہ کشمیری عوام بھارتی سامراج اور ہندوفسطائیت میں موت اور تباہی کے بھنور میں پھنس گئے ہیں۔ اگست 2019ء کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کی وجہ مسلم اکثریتی علاقے کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے خطے کے تمام قوانین تبدیل کردیے گئے ہیں جس کی وجہ سے علاقے میں بڑے پیمانے پر نسل کشی کا خطرہ ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے کام کرنے والے بعض باوثوق ادارے بتاتے ہیں کہ تحریک آزادی کے گزشتہ برسوں کے دوران (جنوری 89ء سے نومبر 2001ء) کشمیر میں اپنے محبت کرنے والے شوہروں سے محروم ہوجانے والی دکھی خواتین کی تعداد ہزار سے بڑھ چکی ہے، ایک بڑی تعداد ان مائوں کی ہے جن کے نوجوان یا کم سن بیٹے تحریک حریت کشمیر میں شہادت کا درجہ پاچکے ہیں یا لاپتا ہیں اور کم و بیش سوا لاکھ یتیم بچوں کی پرورش کی ذمہ داری بھی ان پریشان حال عورتوں پر آن پڑی ہے۔ یہی نہیں ان برسوں کے دوران 10 ہزار سے زائد خواتین کو بھارتی درندوں نے اجتماعی آبروریزی کا نشانہ بنایا ہے اور ایک ہولناک حقیقت یہ بھی ہے کہ کشمیر میں بھارتی ظلم کا شکار ہوکر جان گنوادینے والے 94 ہزار کے لگ بھگ افراد میں سے بھی خواتین 2300 کے قریب ہے۔
یہ تو اعداد شمار ہیں جو کشمیر کے دور دراز علاقوں سے دستیاب ہوسکے ہیں۔ ان کے علاوہ ایک بڑی تعداد ان کی بھی ہے جن تک ذرائع ابلاغ اور تحقیق کار پہنچ ہی نہیں پائے۔
ایک لمحے کے لیے اس تحریر کو پڑھنا چھوڑ کر آنکھیں موند لیں اور تصور کریں ایک ایسے گھر کا جو کشمیر کے کسی دور افتادہ گائوں میں واقع ہے جہاں گھر کے 6 افراد نہایت تنگی سے گزارہ کرتے ہیں۔ گھر کا سربراہ دن بھر کھیت مزدوری کرکے یا جنگل میں لکڑیاں کاٹ کر بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی حاصل کرپاتا ہے اور غذائی قلت کا شکار کمزور اور معمولی کپڑے پہنے اس گھر کی عورت گھر بھر کا کام کرتی ہے۔ ایسے میں ایک دن بھارتی فوجی دندناتے ہوئے کسی مجاہد کی تلاش کا بہانا بنا کر اس گھر میں آن گھستے ہیں اور دروازے توڑ دیتے ہیں، معصوم بچے سہم کر ماں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں شوہر آگے بڑھتا ہے تو ایک فوجی کی گن کے آہنی بٹ سے اس کا سر پھاڑ دیا جاتا ہے۔ وہ روتا ہے، اپنے اور بچوں کے لیے رحم کی بھیک مانگتا ہے مگر اس کی آواز اس کے حلق میں ہی خاموش کردی جاتی ہے، فوجی درندے بچوں کی ماں کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرتے ہیں اور ان سب کو روتا، چلاتا چھوڑکر چلے جاتے ہیں۔
یہ کشمیر کے محض ایک گھر کا منظر ہے اور کشمیر چنار کے اداس درختوں کی طرح ان مناظر سے بھی بھرا پڑا ہے یہ ایک منظر یہیں نہیں ختم ہوجاتا بلکہ اب اس مظلوم عورت کو اپنی کچلی ہوئی نفسیات اور جذبات کے ساتھ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے اپنی زندہ لاش کے بوجھ کو گھسیٹنے کے لیے محنت مزدوری کرنی ہے۔
آج کشمیری عورت کی پانچویں نسل بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ایک عذاب سے گزر رہی ہے اس کے حصے کے محمد بن قاسم بے حمیتی کی چادر اوڑھے بے خبر سورہے ہیں۔ اس کے لیے کوئی در نہیں کھلتا اس کے لیے زبانیں گنگ ہیں اور قدم زنگ آلود۔ کیوں کہ اس پر ظلم ڈھانے والے، عالمی آقائوں کے لیے بڑی منڈی بھی رکھتے اور ان کے اتحادی بھی ہیں۔
پاکستانی عوام کشمیر کے بہادر اور جری عوام کی جدوجہد کو اپنی بقا کی جنگ سمجھتے ہیں۔ خواتین ہونے کے ناتے بھی ہم اپنی مظلوم اور دکھی کشمیری بہنوں اور بیٹیوں کو اپنے دل کے بہت قریب محسوس کرتی ہیں اور اپنے جائز حق کے حصول کے لیے ان کی جدوجہد کو سلام پیش کرتی ہیں۔ آئیے ہاتھ اُٹھا کر ان مظلوموں کے لیے اللہ سے کسی غیرت مند محمد بن قاسم کی دعا کریں اور وہ جب تک نہیں آتا اپنے ٹوٹے پھوٹے لفظوں، قدموں اور جذبوں سے ان کی مدد کریں۔

The post پشمینہ دھاگوں کے دیس کی آدھی بیوائیں appeared first on Urdu News – Today News – Daily Jasarat News.

بشکریہ جسارت
You might also like

Comments are closed.