پاکستانی شہری ماجد خان گوانتانامو بے جیل سے 20 سال بعد رہا: ’مجھے اُن کاموں پر افسوس ہے جو میں نے کیے‘
پاکستانی شہری ماجد خان گوانتانامو بے جیل سے 20 سال بعد رہا: ’مجھے اُن کاموں پر افسوس ہے جو میں نے کیے‘
- مصنف, میڈلین ہالپرٹ
- عہدہ, بی بی سی نیوز، نیو یارک
ماجد خان کی پرانی تصویر
امریکی حکومت نے ایک پاکستانی شہری کو، جن پر القاعدہ کا پیغام رساں ہونے کا الزام تھا، 20 سال بعد رہا کر دیا ہے۔
42 سالہ ماجد خان، جنھوں نے اپنی قید کے آخری 15 سال کیوبا میں گونتانامو بے جیل میں گزارے، کو وسطیٰ امریکی ریاست بیلیز میں رہا کیا گیا۔
واضح رہے کہ ماجد خان کو 10 سال قید کی سزا ہوئی تھی جس میں امریکی حکام سے تعاون کی وجہ سے رعایت کی گئی۔
ان کی وسطیٰ امریکی ریاست میں رہائی وہ پہلا موقع ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے کسی قیدی کو ایک دوسرے ملک میں رہا کیا۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق ماجد خان بیلیز میں ہی مستقل طور پر سکونت اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ان کی اہلیہ اور نوجوان بیٹی، جو ان کی گرفتاری کے بعد پیدا ہوئیں تھیں، بھی اسی ملک میں ان سے مل جائیں گے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں کہ ماجد خان کی ایک دوسرے ملک میں رہائی کسی امریکی شرط کا نتیجہ ہے یا نہیں۔
رہائی کے بعد ان کے وکلا کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں ماجد خان نے کہا کہ ’مجھے زندگی میں ایک دوسرا موقع ملا ہے اور میں اس کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں۔‘
ماجد خان کا کہنا تھا کہ ’مجھے ان کاموں پر افسوس ہے جو میں نے کئی سال پہلے کیے تھے اور میں نے کوشش کی ہے کہ میں ان کا ازالہ کر سکوں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’20 سال میں دنیا بہت بدل چکی ہے، لیکن میں بھی بدل چکا ہوں۔‘
نیو یارک ٹائمر کے مطابق بیلیز کے وزیر خارجہ نے ایک بیان میں ماجد خان کو اپنے ملک میں رہائش کی اجازت دینے کے فیصلے پر کہا کہ اگرچہ انھوں نے دہشت گردی کی کارروائیوں میں حصہ لیا ’لیکن ان پر تشدد ہوا اور اب وہ انتہا پسندی کو خیر آباد کہہ چکے ہیں، انھوں نے امریکی حکام سے تعاون کیا ہے اور اپنی سزا مکمل کی۔‘
واضح رہے کہ میکسیکو کے جنوب میں واقع بیلیز تقریبا چار لاکھ نفوس پر مشتمل ایک چھوٹا سا ملک ہے جہاں انگریزی زبان بولی جاتی ہے۔
ماجد کے مطابق جب انھیں القاعدہ کے لیے کام کرنے پر اکسایا گیا تو وہ ایک ناسمجھ نوجوان تھے۔
ماجد خان کون ہیں؟
سعودی عرب میں پیدا ہونے والے ماجد خان کا بچپن پاکستان میں گزرا تھا اور پھر 16 برس کی عمر میں وہ امریکہ چلے گئے۔
انھوں نے امریکی ریاست بالٹیمور میں تعلیم حاصل کی اور اپنے والد کے پیٹرول پمپ پر کام کیا۔ پھر سنہ 2002 میں وہ پاکستان واپس آ گئے جہاں ان کا القاعدہ سے تعارف ہوا۔
استغاثہ کے مطابق ماجد خان نے پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کو قتل کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کی تھیں اور اس سلسلے میں شدت پسند تنظیم جامعہ اسلامیہ کو رقم بھی فراہم کی تھی۔
ماجد خان پر الزام تھا کہ وہ اس تنظیم کو پچاس ہزار ڈالر دینے کے لیے بینکاک بھی گئے اور مبینہ طور پر یہی رقم اگست 2003 میں جکارتہ میں میریٹ ہوٹل پر حملے کے لیے استعمال ہوئی۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ جب پاکستان گئے تو ان کے خاندان والوں نے اُن کو خالد شیخ محمد سے متعارف کروایا۔
ان کو پہلی بار مارچ 2003 میں اس وقت حراست میں لیا گیا جب پاکستانی سکیورٹی فورسز نے کراچی میں اُن کے مکان پر چھاپہ مارا۔
پاکستان نے ان کو سی آئی اے کے حوالے کر دیا۔ ان کو پہلے بیرونِ ملک خفیہ حراست خانے میں رکھا گیا اور سنہ 2006 میں گوانتانامو بے قید خانے منتقل کیا گیا۔
ماجد خان نے سنہ 2007 میں فوجی ٹریبونل کو بتایا تھا کہ ان کو نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انھوں نے دو بار خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی۔
یہ بھی پڑھیے
ماجد خان نے اپنی گواہی میں کیا بتایا؟
ماجد کے مطابق جب انھیں القاعدہ کے لیے کام کرنے پر اکسایا گیا تو وہ ایک ناسمجھ نوجوان تھے۔ ماجد کے مطابق اب وہ القاعدہ اور دہشت گردی، دونوں کو رد کر چکے ہیں۔
ان کے وکیل کے مطابق ماجد نے شروع سے ہی امریکی انٹیلیجنس حکام کو معلومات فراہم کیں تاہم انھیں حراست کے دوران ’سنگین اور بدترین تشدد‘ کا نشانہ بنایا گیا۔
ماجد نے گوانٹانامو بے میں لگنے والی عدالت کے سامنے 39 صفحات پر مبنی بیان پڑھا جس میں انھوں نے تفصیل سے بتایا کہ کیسے انھیں برہنہ کر کے اور ان کے سر پر کپڑا ڈال کر ان کے ساتھ بہیمانہ سلوک کیا گیا۔ ان کے مطابق انھیں کئی بار سونے نہیں دیا جاتا، زبردستی کھلایا جاتا اور زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا۔
ان کی جانب سے دی جانے والی گواہی 11 ستمبر کے حملوں کے بعد سی آئی اے کے بیرون ملک قائم حراستی مراکز میں رکھے جانے والے کسی بھی قیدی کی جانب سے پہلا انکشاف ہے۔
انھوں نے عدالت کو بتایا: ’میں جتنا زیادہ تعاون کرتا مجھے اتنا ہی زیادہ ٹارچر کیا جاتا۔‘ انھوں نے کہا کہ ایک وقت آیا کہ انھوں نے پوچھ گچھ کرنے والوں کو خوش کرنے کے لیے جھوٹ بولنا شروع کر دیا۔
ماجد کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات سنہ 2014 میں ریلیز ہونے والی ایک رپورٹ سے ملتے جلتے ہیں جس میں سی آئی اے کے ’انٹیروگیشن‘ یا پوچھ گچھ کے طریقہ کار پر روشنی ڈالی گئی تھی۔
سنہ 2013 میں امریکی حکومت کے ساتھ کیے ایک معاہدے کے تحت ماجد کے اعتراف پر ان کی سزا کم کر دی گئی اور انھیں 26 سال قید کی سزا سُنائی گئی۔
لیکن ان کو سزا سنانے والی عدالت کی جیوری میں شامل آٹھ میں سے سات سینیئر فوجی افسران کی جانب سے لکھے گئے ایک مشترکہ خط میں ماجد خان کے ساتھ رعایتی سلوک کی سفارش کی گئی۔
اس خط میں لکھا گیا کہ ماجد خان کے ساتھ ہونے والے سلوک سے ’امریکی مفادات کو انٹیلیجنس کے حصول یا کسی اور طرح کوئی عملی فائدہ نہیں ہوا۔‘
خط کے مطابق: ’اس کے برعکس، امریکی اہلکاروں کے ہاتھوں ماجد خان کے ساتھ ہونے والا سلوک امریکہ کی اخلاقی ساکھ پر ایک دھبہ ہے جس سے امریکی حکومت کو شرمندگی ہونی چاہیے۔‘
گونتانامو بے میں اب کتنے قیدی باقی ہیں؟
اُدھر امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ گوانتاناموبے میں قیدیوں کی تعداد میں ذمہ دارانہ طریقے سے کمی کی جا رہی ہے جسے آخرکار بند کر دیا جائے گا۔
حکام کا کہنا ہے کہ اب تک تقریبا 34 قیدی اس جیل میں قید ہیں جن میں سے 20 کو ٹرانسفر کرنے کی اجازت مل چکی ہے جبکہ دو ایسے قیدی ہیں جن جو فوجی کمیشن سزا سنا چکے ہیں اور تین قیدیوں کی رہائی کا جائزہ لیا جانا باقی ہے۔
یاد رہے کہ امریکی قانون کے مطابق گوانتانامو بے سے رہا ہونے والے قیدیوں کو امریکہ میں رہنے کی اجازت نہیں ہے۔
Comments are closed.