’میں اس قبرستان کا بیٹا ہوں‘: خاندان جو 100 برسوں سے عالمی جنگ کے فوجیوں کی قبروں کی دیکھ بھال کر رہا ہے

  • مصنف, یولاندے نیل
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، غزہ

bbc

قبروں پر لگے صاف ستھرے سفید کتبے، تراشی ہوئی گھاس اور پھولوں کی باڑ۔۔۔۔

یہ منظر شمالی فرانس یا بلجئیم کے کسی قبرستان کا نہیں ہے۔ بلکہ دو عالمی جنگوں میں مارے جانے والے فوجیوں کی یہ آخری آرام گاہ فلسطین میں غزہ کی پٹی میں واقع ہے۔

یہ بڑی آبادی والے علاقے میں ایک غیر معمولی سرسبز جگہ ہے، جو جدید دور کے اسرائیل، فلسطینی تنازع سے بری طرح متاثر ہے۔

مقامی کارکنوں کی چھوٹی ٹیم کی لگن اور مہارت یہاں واضح ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان تمام کارکنوں کا تعلق ایسے خاندان سے ہے جہاں یہ کام نسل در نسل منتقل ہوا ہے۔

ابراہیم جرادہ جو کامن ویلتھ وار گریوز کمیشن (سی ڈبلیو جی سی ) کے موجودہ ہیڈ باغبان ہیں، کہتے ہیں کہ ’مجھے لگتا ہے کہ میں اس قبرستان کا بیٹا ہوں۔‘

اب سے 100 سال قبل ان کے دادا نے اس کام کی شروعات کی تھی۔

اب وہ 32 برس کے ہیں اور وہ اسی قبرستان میں موجود گھر میں پیدا ہوئے تھے۔۔۔ اور اسی باغ میں پرندوں اور تتلیوں کے درمیان پلے بڑھے ہیں اور اب بھی وہیں رہتے ہیں۔

ابراہیم بتاتے ہیں کہ کس طرح بچپن میں انھوں نے اپنے والد کی دفتری کاموں، بیج لگانے اور کھاد بنانے میں مدد کی۔

’جب میں چھوٹا تھا تو یہاں کام کرنا میرا خواب تھا، میں نے اپنے خاندان سے اپنے کام سے محبت کرنا سیکھا۔‘

’ہمارا ماننا ہے کہ یہ بہت اہم کام ہے۔ ان لوگوں نے اپنے ممالک کے لیے اپنی جانیں دیں اور ہمیں اس تاریخی مقام کی دیکھ بھال سونپی گئی ہیں۔‘

غزہ کا یہ قبرستان اس چھوٹے سے فلسطینی علاقے میں کامن ویلتھ وار گریوز کمیشن سے تعلق رکھنے والے دو قبرستانوں میں سے ایک ہے۔ اس میں 3691 قبریں ہیں جن میں 3082 برطانوی، 263 آسٹریلوی، 184 ترک (عثمانی)، 50 انڈین، 36 کا تعلق قطبین سے، 23 کینیڈین اور 23 نیوزی لینڈ کے باشندوں کے ساتھ ساتھ جنوبی افریقہ، یونانی، مصری، جرمن، فرانسیسی، یوگوسلاویائی باشندوں کی بھی چھوٹی تعداد دفن ہے۔

bbc

بڑی اکثریت پہلی عالمی عظیم کے بعد مرنے والوں کی ہے، اس دور میں ہلاک ہونے والوں میں سے اکثر کی عمریں 20 اور 30 ​​کی دہائی میں تھیں۔

سنہ 1917 میں غزہ نے مصری ایکسپیڈیشنری فورس جو کہ ایک برطانوی ایمپائر ملٹری فارمیشن ہے اور عثمانی فوجیوں کے درمیان تین فیصلہ کن لڑائیاں دیکھیں، یہاں تک کہ انھوں نے بالآخر شہر پر قبضہ کر لیا۔

سادہ قبروں کے کتبوں پر مرنے والوں کے نام، ان کے عہدے، رجمنٹ، ان کی وفات کی تاریخ اور ان کی عمر درج ہوتی ہے۔ عیسائی، یہودی، مسلمان اور ہندوؤں کو اپنے اپنے عقیدے کے ساتھ دفن کیا گیا۔

قبروں کی قطار میں سے گزرتے ہوئے ابراہیم کہتے ہیں ’مختلف ناموں کو دیکھ کر ہم یقیناً جاننا چاہیں گے کہ یہ کون لوگ تھے، ان کے خاندان کون تھے؟ وہ اپنی عام زندگی میں کیا کر رہے تھے؟‘

مرمت اور دوبارہ تعمیر

ابراہیم کے پردادا، رابی جرادہ نے 1923 میں بیر شیبہ میں امپیریل وار گریز کمیشن (جو سی ڈبلیو جی سی بن گیا) کے لیے کام کرنا شروع کیا۔

اس کا خاندان 1948 میں اسرائیل کی ریاست بننے کے بعد ہونے والی لڑائی کے دوران اپنا گھر بار گنوا بیٹھا تھا۔

وہ غزہ گئے جہاں انھیں جلد ہی قبرستانوں کی ذمہ داری لینے کو کہا گیا۔

رابی جرادہ کے بیٹے، جن کا بھی نام ابراہیم تھا، انھوں نے اپنے بیٹے، عصام کو باغبان کے طور پر مدد کرنے کے لیے ساتھ لانا شروع کیا، اس وقت وہ ابھی سکول جانے والے نوعمر لڑکے تھے۔

آج کل اسرائیل اور مصر کی طرف سے سخت بارڈر کنٹرولز غیر ملکیوں (سفارت کاروں، امداادی کارکنوں اور صحافیوں کے علاوہ ) کے لیے فلسطینی سرزمین کا سفر کرنا بہت مشکل بنا دیتے ہیں۔ مجھے ایک اسرائیلی پریس کارڈ اور غزہ پر حکومت کرنے والے عسکریت پسند گروہ حماس سے اجازت نامہ درکار تھا۔

عصام جرادہ اب ریٹائر ہو چکے ہیں، ان کے مطابق حالات پہلے ایسے نہیں تھے۔

وہ کہتے ہیں ’یہاں پہلے آنا محفوظ تھا، ہمارے پاس باہر سے بہت بڑی تعداد میں لوگ آتے تھے۔ ہم ان کے ساتھ بیٹھتے اور انھیں آس پاس کی جگہیں دکھاتے۔۔۔ زندگی بہت خوبصورت تھی۔ میں لوگوں کے جذبات، ان کے دادا کی قبروں پر ان کی آنکھوں سے بہتے آنسو دیکھتا تھا۔‘

bbc

،تصویر کا کیپشن

عصام (دائیں) اور ان کے بیٹے ابراہیم نے کئی نسلوں سے یہ کام جاری رکھا ہے۔

سنہ 2007 میں غزہ پر حماس کے قبضے کے بعد سے مسلح فلسطینی گروپوں اور اسرائیل کے درمیان شدید، اور تباہ کن لڑائیوں کے دور جاری ہیں۔

قبرستان تین بار میزائل حملوں کا نشانہ بن چکا ہے۔ ایک موقع پر تقریباً 300 کتبوں کو نقصان پہنچا اور انھیں تبدیل کرنا پڑا۔ لڑائی کے دنوں میں بھی ان قبروں کی مرمت اور ان پر لگے پھولوں کو دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔

ابراہیم بتاتے ہیں ’ہر بار جب ہم واپس آتے ہیں ہمیں چیزوں کو دوبارہ مرمت کرکے لگانا پڑتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے وہ پہلے نظر آتے تھے۔۔۔ ہم بہت مشکل حالات میں کام کرتے ہیں۔‘

ان مسائل میں غزہ کی روزانہ بجلی کی کٹوتی، پانی کی شدید قلت اور درآمدی پابندیاں شامل ہیں جس کی وجہ سے مشینری کو تبدیل کرنا مشکل ہوتا ہے اور بعض اوقات گھاس کاٹنے والی مشینوں کا ایندھن حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

ابراہیم کا کہنا ہے کہ انھوں نے اور ان کے عملے نے کم وسائل کے ساتھ کام کرنا اپنے خاندان سے سیکھا ہے۔

میں محمد عطالہ سے ملی جو 23 برس کے ہیں اور قبروں کے درمیان گھاس ڈال رہا ہیں ۔۔۔ ان کے والد اور دادا نے بھی یہی کام اپنایا تھا۔

وہ کہتے ہیں ’مجھے یہ کام بہت پسند ہے۔ جب میں صبح باہر نکلتا ہوں تو اس سبزہ زار کو دیکھنے سے مجھے نئی توانائی ملتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہاں کام کرنا اعزاز کی بات ہے۔‘

مرنے والوں کا احترام

قبرستان مقامی زائرین سے بھرا ہوا ہے۔ چھوٹے بچوں کے ساتھ نوجوان مائیں قبر کے پاس گپ شپ کر رہی ہیں اور تین دوست جکارنڈا کے درخت کے نیچے سورج سے پناہ لے رہے ہیں۔

ان میں سے ایک کریم نے مجھے بتایا ’یہ ایک خوبصورت اور شاندار جگہ ہے۔ مجھے یہاں بیٹھ کر مزا آتا ہے۔ یہ بہت سرسبز، قدرتی اور تاریخی مقام ہے۔‘

ام ایاد جنپوں نے سیاہ نقاب پہن رکھا ہے وہ اپنی بیٹی کے ساتھ پریشانی میں قبروں کے درمیان چل رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’ہم پریشان ہیں اور قرآن میں کہا گیا ہے کہ اگر آپ پریشان ہیں اور آپ کے سینے پر کوئی بوجھ ہے تو آپ کو قبروں کی زیارت کرنی چاہیے۔ میں یہاں اپنی روح کو سکون دینے آئی ہوں۔‘

ابراہیم یہاں آنے والوں کا حال چال پوچھتے ہیں اور کبھی کبھی وہ سکولوں سے آنے والے گروپوں اور یونیورسٹی کے محققین کو یہ تاریخی مقام دکھاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’تمام مرنے والوں کا احترام کرنا بہت ضروری ہے، چاہے ان کی قومیت کوئی بھی وجہ ہو۔‘ پھولوں سے بھرے باغ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ’اگر غزہ کے لوگ قبرستان کا احترام نہ کرتے تو آپ کو آج یہ اس حالت میں نظر نہ آتا۔‘

ان کا ماننا ہے کہ ہر کوئی، چاہے اس کا تعلق جہاں سے بھی ہو، وہ یہاں سے ایک اہم سبق لے جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں ’ہمیں لگتا ہے کہ وہ یہاں دفن لوگوں کی کم عمری سے متاثر ہوئے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ وہ دیکھیں گے کہ یہ جنگوں کا اثر ہے اور یہ کہ امن دنیا کی بہترین چیز ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ