وہ مذہبی فرقے جن کے سربراہان نے اپنے پیروکاروں کو اجتماعی خودکشی پر قائل کیا
کینیا میں ایک مذہبی فرقے کے ماننے والے 80 افراد کی اجتماعی قبروں کی دریافت نے ایسے فرقوں کے سربراہان کے اثرورسوخ اور اُن پر یقین رکھنے والے ’عقیدت مندوں‘ کی سادگی سے پردہ اٹھایا ہے۔
کینیا میں اس فرقے کے رہنما نے اپنے پیروکاروں کو دنیاوی زندگی ترک کرنے اور بھوکا رہ کر موت کو گلے لگانے پر اکسایا جس کے نتیجے میں 80 سے زائد افراد فاقہ کشی کے باعث ہلاک ہو گئے۔
تاہم افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو ماضی میں کئی بار اپنے آپ کو ہولناک نتائج کے ساتھ دہرا چکی ہے۔
اس رپورٹ میں ہم نے ایسے ہی تین فرقوں کی چونکا دینے والی کہانیاں بیان کی ہیں جن کے سربراہان نے قیامت کے نظریات کا پرچار اور نجات کے وعدوں کی مدد سے لوگوں کو اجتماعی خودکشی کرنے پر قائل کر لیا۔
’دی پیپلز ٹیمپل‘ اور جم جونز
جم جونز
’دی پیپلز ٹیمپل‘ نامی مذہبی گروہ کی بنیاد 1950 میں رکھی گئی تھی۔ رازداری کے پردوں میں چھپے اس فرقے کے سربراہ جم جونز تھے۔
جونز ایک ’سوشلسٹ جنت‘ تشکیل دینا چاہتے تھے جہاں نسل یا قومیت کا تصور موجود نہ ہو۔ لیکن ان کے اپنے ملک میں یہ خواب پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
ano 1975 میں جم جونز نے فرقے کے 900 اراکین کو وینیزویلا کے قریب گیانا منتقل ہونے پر قائل کیا جہاں انھوں نے ’جونز ٹاؤن‘ نامی کمیونٹی کی داغ بیل ڈالی۔
اس فرقے کی جانب لوگوں کی دلچسپی کی ایک وجہ جونز کا انداز بیان اور ان کی شخصیت تھی جس کے سحر میں مبتلا ہو کر جلد ہی لوگ جنون کی حد تک وفادار بن جاتے تھے۔
اس سحر کا اختتام جونز کی بت پرستی کی شکل میں ہوتا تھا۔ تاہم رفتہ رفتہ فرقے کے سربراہ کی شخصیت میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی۔
انھوں نے طویل تقاریر میں سی آئی اے کی جانب سے اپنی خودساختہ جنت کے خلاف تصوراتی دھمکیوں کا تذکرہ کرنا شروع کر دیا۔ جونز نے سی آئی اے کے کارندوں کو ’غدار‘ بھی کہا۔
تاہم اس فرقے پر اراکین کے استحصال کا الزام لگا۔ جلد ہی فرقے کے لوگوں نے ’سفید راتوں‘ کے دوران اجتماعی خودکشی کی پریکٹس شروع کر دی۔
یہ اطلاع کیلیفورنیا کے کانگریس رکن لیو ریان تک پہنچی تو انھوں نے صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے جونز ٹاؤن کا دورہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔
لیکن اس دورے کے دوران لیو ریان اور ان کے متعدد ساتھیوں کو فرقے کے لوگوں نے ہلاک کر دیا۔ اس افسوسناک واقعے کے بعد جم جونز نے تمام اراکین کو اکھٹا کیا اور ان کو ایک آخری ’سفید رات‘ کا اہتمام کرنے کی تاکید کی۔
ایف بی آئی نے اس خطاب کی ریکارڈنگ حاصل کی جس میں جونز کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ’اب اسے ختم کرتے ہیں۔ اس تکلیف کو ختم کرتے ہیں۔‘
اجتماعی خودکشی کے اس واقعے میں 300 بچوں سمیت تقریبا 900 افراد ہلاک ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگوں کو ان کی مرضی کے خلاف خودکشی کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ان لوگوں نے سائنائیڈ ملا سوڈا پیا تھا۔
تاہم کچھ لوگ زندہ بچ گئے جنھوں نے خود کو چھپا لیا۔ جم جونز بھی مردہ حالت میں پائے گئے۔ ان کے سر پر گولی کا نشان تھا۔
اس قتل عام کو تاریخ میں ’اجتماعی خود کشی کا سب سے بڑا واقعہ‘ قرار دیا گیا تھا۔
ڈیوڈ کوریش اور برانچ ڈیویڈین
برانچ ڈیویڈین نامی فرقہ 1955 میں امریکی ریاست ٹیکساس میں ویکو کے قریب تشکیل دیا گیا۔
یہ فرقہ دراصل ’سیونتھ ڈے ایڈونٹسٹ برانچ ڈیویڈین‘ نامی مذہبی فرقے سے نکلا تھا۔
سنہ 1981 میں ورنن ہوویل نامی نوجوان، جس کا ایک کم عمر سے جنسی تعلق قائم کرنے کی وجہ سے مجرمانہ ریکارڈ تھا، اس فرقے میں شامل ہو گیا۔
ڈیوڈ کوریش
ہوویل نے اپنی شخصیت کو بائبل کے حساب سے ڈھالنے کے لیے اپنا نام بدل کر ڈیوڈ کوریش رکھ لیا۔
فرقے کے اندر اقتدار کی لڑائی میں کوریش جلد ہی کامیاب ہوا اور اس نے ظاہر کیا کہ اس کا پیغمبروں سے روحانی تعلق ہے۔
جلد ہی کوریش نے خود کو آخری پیغمبر قرار دے دیا اور پھر قیامت کی پیش گوئیاں کرنا شروع کر دیں۔
کوریش نے قیامت کی تیاری کے لیے ’خدا کی فوج‘ نامی لشکر تیار کیا اور ماوئنٹ کیرمل نامی مقام پر اسلحہ اکھٹا کرنا شروع کر دیا۔
کوریش نے فرقے میں متعدد خواتین سے ’روحانی شادی‘ کا رواج بھی رکھا۔ کہا جاتا ہے کہ کوریش کے ان خواتین سے دس بچے ہوئے۔
جنسی ہراسانی اور اسلحہ سمگلنگ کے الزامات کی وجہ سے امریکی محکمہ انصاف نے کمپلیکس کا گھیراؤ کر لیا۔ اس وقت تقریباً عسکری تربیت کے حامل 76 افسران وہاں موجود تھے۔
اس کمپلیکس کا 51 دن تک گھیراؤ جاری رہا جس کے دوران مذاکرات بھی ہوئے اور چند کم عمر اراکین کو فرقے نے رہا کر دیا۔
19 اپریل کو دونوں اطراف میں جھڑپیں شروع ہوئیں جس کے دوران پہلے آنسو گیس اور پھر باقاعدہ فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور پھر اچانک کمپلیکس میں آگ بھڑک اٹھی۔
لمحوں کے اندر ماوئنٹ کیرمل نامی کمپلیکس جل کر خاک ہوا گیا اور اندر موجود 79 اراکین بھی ہلاک ہو گئے۔
اس آگ کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی لیکن کوریش اس سے پہلے ہی سر میں گولی لگنے سے ہلاک ہو چکے تھے۔ یہ واضح نہیں کہ انھوں نے خودکشی کی تھی یا پھر کسی نے ان کو قتل کیا۔
سرکاری رپورٹ میں اس سانحے کی تمام ذمہ داری کوریش اور ان کے فرقے کے اراکین پر ڈال دی گئی اور آگ لگانے کا ذمہ دار بھی ان کو ہی ٹھہرایا گیا تاہم حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر بھی کافی تنقید ہوئی۔
یہ بھی پڑھیے
ہیونز گیٹ
ہیونز گیٹ کو انٹرنیٹ کے دور کا پہلا ایسا مذہبی فرقہ مانا جاتا ہے جس نے اپنے خیالات کے وسیع پرچار کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال کیا اور اس سے پیسہ بھی کمایا۔
مارشل ایپل وائٹ
یہ فرقہ 1970 میں مارشل ایپل وائٹ اور ان کی اہلیہ بونی نیٹلز نے تخلیق کیا تھا۔ بونی نیٹلز پیسے کے اعتبار سے نرس تھیں اور ان کی ملاقات مارشل سے ایک نفسیاتی ادارے میں ہوئی تھی۔
ان دونوں نے امریکہ میں گھوم کر جنوبی کیلیفورنیا میں فرقے کی بنیاد رکھی۔ سنہ 1985 میں بونی کا انتقال ہو گیا۔
اس فرقے کے فلسفے میں پریسبیٹیرین چرچ کے خیالات کے ساتھ ساتھ ’یو ایف او‘ یعنی اڑن طشتریوں پر یقین بھی شامل تھا۔
مارشل نے اپنے ماننے والوں کو بتایا کہ ’خدا ایک خلائی مخلوق ہے‘ اور ’دنیا کا اختتام قریب ہے‘۔
اپنے بیانات میں انھوں نے سائنسی فکشن اور مذہبی خیالات کا امتزاج پیش کیا۔ انھوں نے اپنے ماننے والوں سے کہا کہ ’ان کی روح ایک سپیس شپ پر دوبارہ نمودار ہو گی اور ارتقا کے اگلے مرحلے کو حاصل کر لے گی۔‘
26 مارچ 1997 کو پولیس نے مارشل سمیت اس فرقے کے 39 پیروکاروں کی لاشیں دریافت کیں۔ ان افراد کے جسم پلاسٹک کی شیٹوں میں موجود تھے جبکہ انھوں نے سفید اور کالے رنگ کے لباس اور نائیکی کے جوتے پہن رکھے تھے۔
Comments are closed.